عباد الرحمٰن کے اوصاف

اسلام میں فضول خرچی کی مذمت

عباد الرحمٰن کے اوصاف   •   محمدی اشتهاردی

کسی بھی عمل میں حد ِاعتدال سے کسی بھی قسم کی افراط، تجاوز اور زیادتی اسراف کہلاتی ہےمثلاً ایک وقت کے کھانے کے لیے چھ سوگرام غذا کافی ہےاب اگر کوئی اپنے لیے ایک کلو گرام غذا بنائے، اس میں سے آٹھ سو گرام کھائے، اور باقی بچ جانے والی دو سو گرام غذا کو پھینک دے، تو اس نے ایک وقت کے کھانے میں دو طرح کا اسراف اور فضول خرچی کی ہےایک یہ کہ اس نے دو سوگرام غذا زیادہ کھائی ہے اور دوسرے یہ کہ آٹھ سو گرام سے زیادہ جو دو سو گرام غذا تیار کی تھی، اسے کوڑے دان میں پھینک دیا ہےاس طرح اس نے ایک وقت کے کھانے میں چار سو گرام غذا فضول خرچ کی ہے۔

اس مثال کو سامنے رکھ کر اور اس کی روشنی میں زندگی کے دوسرے مختلف پہلوئوں اور شعبوں کا جائزہ لے کر ہم بآسانی جان سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مختلف صورتوں میں کس قدر اسراف اور فضول خرچی ہوتی ہے۔

اسراف کی مختلف شکلیں ہیں، اس کی ایک شکل جس سے زیر ِبحث آیت میں روکا گیا ہے، خرچ میں اسراف ہےجیسے کھانے پینے میں اسراف، کھانے کو پھینک کر ضائع کرنے میں اسراف، فضول تکلفات اور بے جاتزین وآرائش وغیرہ میں اسرافحتیٰ اگر عبادات کے دوران بھی افراط ہونے لگےمثلاً کوئی وضو اور غسل میں عقلی اور فطری حد سے زیادہ پانی خرچ کرے، تو یہ بھی اسراف ہےاسی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھا: فی الوضوء اسرافٌ وفی کلِّ شی ءاسرافٌ (وضو اور ہر چیز میں اسراف ہوسکتا ہےکنزالعمالحدیث ۲۶۲۴۸)

عباسی، نامی ایک شخص امام رضا علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور گھر میں بیوی بچوں کی ضروریات اور دوسرے امور کے بارے میں اخراجات کے سلسلے میں امام سے رہنمائی طلب کیامام رضا علیہ اسلام نے اس سے فرمایا: تمہارے خرچ کو دو ناپسندیدہ کاموں (فضول خرچی اور کنجوسی) کے درمیان ہوناچاہیے۔

عباسی نے پوچھا:اِس سے آپ ؑکی کیا مراد ہے؟

فرمایا: کیا تم نے قرآنِ کریم میںخدا وند ِعالم کا وہ کلام نہیں پڑھا، جس میںاس نے فضول خرچی اور کنجوسی دونوں کو ناپسند قرار دیا ہے اور (خدا کے ممتاز بندوں کے اوصاف میں) فرمایا ہے کہ: وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا (اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں، تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کا درمیانی راستہ اپناتے ہیںسورئہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷) لہٰذا اپنے افرادِ خانہ کے اخراجات اور ان کی ضروریات ِ زندگی کی خریداری اور ان چیزوں کو خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لو(سفینتہ البحار از محدث قمیج ۱ص ۶۱۵ اور بحار الانوار از علامہ مجلسی ج ۷۱ص ۳۴۷)

ایک دوسری روایت کے مطابق، ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کے سامنے اسی (مذکورہ بالا) آیت کی تلاوت فرمائی اور پھر زمین سے مٹھی بھر سنگریزے اٹھا کے انہیں سختی کے ساتھ ہاتھ میں بھینچا اور فرمایا: یہ بخل اور سخت گیری ہے (جس کی آیت میں ممانعت کی گئی ہے)پھر آپ نے سنگریزوں کی ایک اور مٹھی اٹھائی اور اس طرح اپنے ہاتھ کو کھولا کہ وہ سب سنگریزے زمین پر گرگئے، اور فرمایا:یہ اسراف ہےپھر تیسری مرتبہ مٹھی بھر سنگریزے اٹھائے اور اپنا ہاتھ تھوڑا سا کھولا، اتنا کہ کچھ سنگریزے گرگئے، اور کچھ آپ کے ہاتھ ہی میں رہے، اور فرمایا:یہ اسراف اور کنجوسی کے درمیان پایا جانے والا اعتدال ہے(تفسیر نورالثقلین۔ ج۴ص ۲۹ از محدث خبیر عبدعلی بن جمعہ حویزی)

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اسراف اور فضول خرچی کی ممانعت کی گئی ہےمثال کے طور پر چند آیات ملا حظہ فرمایئے:

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا

کھائو اور پیو مگر فضول خرچی نہ کرو (سورہ اعراف۷آیت ۳۱)

وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ

فضول خرچی نہ کرنا، کہ خدا فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
(سورہ انعام۶آیت ۱۴۱)

وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا

اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ بالکل کھلا چھوڑ دو کہ آخر میں خالی ہاتھ اور قابل ِ ملامت ہوجائو(سورئہ بنی اسرائیل ۱۷۔ آیت ۲۹)

اسی آیت اور حکمِ الٰہی کو سامنے رکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

ما مِنْ نَفَقَۃٍ احبَّ اِلَی اللہ مِنْ نفقۃِ قَصْدٍ ویبْغُضُ الاسراف

خدا کے نزدیک کوئی بھی انفاق (خرچ)، اعتدال پر مبنی انفاق سے بڑھ کر پسندیدہ نہیںخدا انفاق میں اسراف کو پسند نہیں کرتاقصار الجمل ازآیت اللہ علی مشکینی۔ ص ۳۰۵

یہی وجہ تھی کہ رسولِ مقبول، امیر المومنین اور تمام ائمۂ اطہار انتہائی سادہ زندگی بسرکرتے تھے اور ہر قسم کی شان وشوکت کے اظہار اور بے جا تکلفات سے سختی کے ساتھ گریزاں رہتے تھے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اہل کاروں کے نام ایک خط میں لکھا کہ:

آدِقّوا ا قلٰامَکُمْ، وقارِ بُو بَیْنَ سُطُورکُمْ، واَحذِ فُو عَنْ فُضُو لِکُمْ، وَاقُصُدُ والمعانیَ، وایَاکُمْ والا کْثٰارَ، فَاِنَّ اموالَ الْمُسْلِمینَ لاتَحْتَمِلْ الضَّرَر

اپنے قلموں کی نوک کو باریک تراشو، سطروں کے درمیان فاصلہ کم رکھو، زیادہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرو، معانی کے بیان کو مطمع نظر قرار دو، فضول اور زیادہ باتوں سے دور رہو، تاکہ مسلمانوں کے مال کو نقصان نہ پہنچےبحارالانوار ازعلامہ مجلسیج ۴۱۔ ص ۱۰۵

نیز آپؑ ہی نے فرمایا ہے:

یاد رکھو کہ مال کا ناحق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہےاگر یہ عمل انسان کی دنیا میں بلندی کا باعث بنے بھی، تو آخرت میں اسے پست کردیتا ہے، اور اگر لوگوں کی نظر میں قابلِ احترام بنابھی دے، تو خدا کی نگاہ میں ذلیل کردیتا ہےجب کوئی شخص مال کو ناحق یا نااہل پر خرچ کرتا ہے تو پروردگار اسے اسکے شکرانے سے بھی محروم کردیتا ہے۔ (نہج البلاغہخطبہ ۲۴)

مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاً فی غَیْرِ طاعَۃِ اﷲِ فَھُوَ مُبَذِّر

جوشخص اپنی کسی چیز کو اطاعت ِخدا کے سوا کسی اور مقصد میں صرف کرے، وہ مسرف (فضول خرچ) ہےبحارالانوار از علامہ مجلسیج ۷۲۔ ص ۳۰۲

یاسر خادم کہتے ہیں: ایک روز امام رضا علیہ السلام کے کچھ غلام پھل کھارہے تھے اور انہیں پوری طرح کھائے بغیر ایک کونے میں پھینکتے جاتے تھےامام ؑنے جب ان کا یہ مسرفانہ عمل دیکھا تو ناراض ہوکر ان سے فرمایا: سبحان اللہ! اگر تمھیں ان پھلوں کی ضرورت نہیں، تو دوسرے انسان ہیں جنہیں ان کی ضرورت ہےتم (آدھے کھائے ہوئے) یہ پھل کیوں دور پھینک رہے ہو؟ انہیں اٹھائو اور ضرورت مندوں کو دے دو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے کھجور کی گٹھلیوں کو پھینکنے سے منع کرتے ہوئے اور مسرفوں (فضول خرچ کرنے والوں) کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

برتن کی تہہ میں بچے ہوئے پانی کو بھی نہ پھینکو کہ یہ بھی اسراف (فضول خرچی) ہے۔

(انوار البھیتہ از محدث قمیص ۳۲۹، بحار الانوار ج ۷۱۔ ص۳۴۶)