حلم اور ضبط ِنفس
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے ممتاز بندوں کی دوسری خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ: وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (اور جب جاہل ان سے (نامناسب انداز سے) خطاب کرتے ہیں تو یہ لوگ ان کے جواب میں انہیں سلامتی کا پیغام دیتے ہیںسورئہ فرقان۲۵۔ آیت۶۳) یعنی ان کے سامنے سے، بے اعتنائی اور بزرگواری کے ساتھ گزرجاتے ہیںمراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تحمل وبردباری کی صفت پائی جاتی ہے اور انہیں اپنے اعصاب اور جذبات و احساسات پر قابو ہوتا ہے۔
ان لوگوں کا وصف یہ ہے کہ نامعقول افراد کے رویے کے مقابل بردباری اور ضبط ِ نفس سے کام لیتے ہوئے، اسلامی اخلاق کی حدوں سے باہر نہیں نکلتےعظمت ِکردار اور بزرگواری کی بدولت غیظ وغضب سے مغلوب نہیں ہوجاتےان کے مضبوط ارادے، ان کے صبرو تحمل اور سکون و اطمینان کی بنا پر انہیں پہاڑ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
یہ کہنا کوئی فخر کی بات نہیں کہ فلاں نے مجھ پر اعتراض کیا، مجھے برابھلا کہا، تو اس کے جواب میں، میں نے اسے دس گنازیادہ سنا ڈالیںبلکہ قرآنِ کریم کی رو سے فخر و افتخار کی بات یہ ہے کہ ہم نامعقول لوگوں کے نامناسب رویے کے جواب میں ان کی اس حرکت کو نظر انداز کردیں۔ یعنی لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ا ن کی طرف سے منھ پھیر لیں۔
البتہ جس سلام کا یہاں (آیت میں) ذکر ہورہا ہے وہ دوستی والاسلام نہیں، بلکہ بے اعتنائی والا سلام ہے، ایک طرح کے اعتراض اور ناراضگی کا اظہار ہے جس میں تعلق برقرار رکھتے ہوئے صلح و صفائی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا پیغام موجود ہے۔
ممکن ہے اس مقام پر یہ سوال پیش آئے کہ قرآنِ کریم اور روایات ِمعصومینؑ میں متعدد مقامات پر مخالفین کو برابری سے جواب دینے کی تاکید کی گئی ہےتاکہ ان ناشائستہ لوگوں کی گستاخی کا سدباب ہوسکےمثلاً قرآنِ مجید فرماتا ہے: فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ (لہٰذا جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسی زیادتی اس نے تمھارے ساتھ کی ہے۔ سورئہ بقرہ ۲آیت۱۹۴)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ، نامناسب طرزِ عمل اپنانے والے ناشائستہ لوگوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں: پہلی قسم کے لوگ وہ بدخواہ دشمن ہوتے ہیں جو جانتے بوجھتے، بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ، نامناسب طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اسی انداز سے جواب دینا چاہیےجبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو لاعلمی میں ایسا طرزِ عمل اپناتے ہیں اور ان سے ایسی گفتار و حرکات جہل اور نادانی کی بناپر سرزد ہوتی ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ حلم و بردباری اور نرمی و ملائمت کا سلوک کرنا چاہیے۔
زیر بحث آیت میں اسی ثانی الذکرگروہ کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کی گئی ہےلہٰذا حلم و بردباری کا اظہار اپنے صحیح مقام پر، یعنی جہاں اسے ملحوظ رکھنا چاہیے، نہ صرف تخریبی اور نقصاندہ نہیں بلکہ تعمیری اور موثر بھی ہے۔
مذکورہ آیت میں جن لوگوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے ان کے بارے میں رسول کریم نے فرمایا ہے کہ: اَحَلمُ الناس مَن فرَّ مِن جُھّال الناس (لوگوں میں سب سے زیادہ بردبارشخص وہ ہے جو جاہل انسانوں سے دور بھاگےبحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص۱۱۲)