عباد الرحمٰن کی عظیم الشان جزا
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
قرآنِ مجید، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد روزِ قیامت ان بندوں کی ظاہری اور باطنی جزااور اجر وثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:
اُولٰۗىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْہَا تَحِيَّۃً وَّسَلٰمًا خٰلِدِيْنَ فِيْہَاحَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا
یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بنا پر جنت کے اونچے اونچے محل عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام پیش کیے جائیں گےوہ انہی مقامات پر ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کہ وہ بہترین مستقر اور حسین ترین جائے قیام ہےسورئہ فرقان۲۵آیات ۷۵ تا۷۶
ان آیات میں عبا دالرحمن کو ملنے والی جزا وپاداش کو بیان کیا گیا ہے، جو انتہائی عظیم الشان اور خصوصی امتیازات کے ہمراہ ہوگیان آیات کا تقاضا ہے کہ اس گفتگو میں، ان چار موضوعات، یعنی جزا وپاداش، عباد الرحمٰن کی مخصوص جزا، تعمیر کردار میں صبر واستقامت کی اہمیت اور خلود اور ہمیشگی وجاویدانی کے موضوع کا جائزہ لیا جائے۔
صبر کی اہمیت پر گفتگو کو ہم آئندہ نشست کے لیے چھوڑتے ہیںیہاں آپ کی توجہ دوسرے تین موضوعات کی جانب مبذول کراتے ہیں۔
جزاو پاداش
جزاو پاداش، بالفاظِ دیگر جزا اور مکافات ِعمل کا مسئلہ خداوند ِعالم کے قطعی تکوینی اور تشریعی قوانین میں سے ہے، جو اچھے یا برے عمل کی مناسبت سے ان اعمال کو انجام دینے والے پر دنیا اور آخرت میں مختلف شکلوں میں اثر انداز ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم میں اس بارے میں بکثرت آیات موجودہیں، یہ یقینی امور میں سے ہے اور اسکے وقوع پذیر ہونے میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نہیں۔
اگر ہم قرآنِ مجید میں مختلف انداز سے سیکڑوں بار استعمال ہونے والے لفظ ” جزا“ کا جائزہ لیں، تو بخوبی اس بات کا علم حاصل کریں گے کہ دنیاوی اور اُخروی جزا کا مسئلہ قرآنِ مجید میں بیان ہونے والے مسلمہ امور میں سے ہے اور خداوند ِعالم نے انتہائی زور دے کر اس کا تذکرہ کیا ہے، تاکہ پیروانِ قرآن اس قطعی قانون کو کسی صورت فراموش نہ کریں اور اس سے غفلت نہ برتیں۔
مثال کے طور پر اگر ہم قرآنِ کریم کی سورئہ نبا کا مطالعہ کریں، تو وہاں دیکھیں گے کہ اس سورے کی آیت ۲۱ سے لے کر ۳۰ تک میں، نہایت واضح الفاظ کے ساتھ اہلِ جہنم کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےاور آیت نمبر ۳۱ سے ۳۶ تک میں اہلِ جنت کی جزا وپاداش کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اسی سورے کی آیت ۲۶ میں فرمان الٰہی ہے: جَزَاۗءً وِّفَاقًا (یہ اُن کے اعمال کے موافق ومناسب بدلہ ہے)اسی سورے کی آیت ۳۶ میں خدا فرماتا ہے: جَزَاۗءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاۗءً حِسَابًا (یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حساب کی ہوئی عطا ہے اور تمہارے اعمال کی جزا ہے) لہٰذا انسان جو کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ خداوند ِعالم کے دقیق اور ٹھیک ٹھیک حساب میں ثبت اور درج ہوجاتا ہے اور تمام اچھے برے اعمال کے مقابل مناسب جزا یا سزا مقرر ہے۔
جزا وسزاکا مسئلہ صرف آخرت سے مخصوص نہیں ہےبلکہ اس کا کچھ حصہ اسی دنیا میں بھی وجود رکھتا ہے اور انسان کے اعمال کی وجہ سے مختلف صورتوں میں انسان کو اسی دنیا میں نصیب ہوجاتا ہے۔ (۱)
اس بارے میں روایات بھی بے حساب ہیں، مثال کے طور پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے: کُلٌّ امْرءٍ یُلْقیٰ مٰا عَمِلَ وَیُجْزیٰ بِمٰاصَنَعَ (ہر انسان اپنے عمل کا سامنا کرتا ہے، اور جو کچھ وہ انجام دیتا ہے، اسکی بنیاد پر اسے جزا وسزا دی جاتی ہے) نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے: کَما تدینُ تدان (جیسا کرو گے ویسا بھرو گےغرر الحکمج۳ص۵۷۱)
لِکُلّ حسنۃٍ ثوابٌ (ہر نیکی کا ثواب ہے) لِکُلّ سیّئۃٍ عقاب (ہر بدی کا عقاب ہےغرر الحکمج۳ص۵۷۷)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
اَما انّہ لیسَ مِنْ عرْقٍ یضربُ، ولانکبۃٍ، ولاصُداعٍ، ولا مرضٍ الاّبذنبٍ
جو بھی رگ (اور کوئی نبض) زخمی ہوتی ہے، پاؤں پتھر سے ٹکراتا ہے، دردِ سر اور مرض لاحق ہوتا ہے، اسکی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انسان نے کوئی گناہ کیا ہوتا ہے۔ (۲)
عبد الرحمن کا خصوصی ثواب
کیونکہ عباد الرحمٰن، خدا کے ممتاز اور خاص بندے، اپنی بارہ خصوصیات کی وجہ سے مومنین کی صف ِاوّل میںہوتے ہیں، لہٰذا خداوند ِعالم ان کی جزا اور ثواب کی مناسبت سے انہیں جنت کے بلند اور عالی ترین درجے میں جگہ دیتا ہےیہ وہ درجہ ہے جو اہم ترین امتیازات کا حامل ہے۔
پہلے خداوند ِعالم فرماتا ہے کہ: غرفۂ بہشت ان کے اختیار میں ہوگاغرفہ کے معنی گھروں کا بلند ترین طبقہ ہے اور یہاں بے مثل اور انتہائی گراں قیمت محل کا کنایہ ہے، جو جنت کے دوسرے حصوں سے انتہائی بلند مقام کا حامل ہےجیساکہ مذکورہ آیت سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ یہ عظیم الشان محل تین انتہائی اہم خصوصیات رکھتا ہے۔
۱عباد الرحمٰن کا وہاں ہمیشہ خاص احترام کیا جائے گا، اور وہ خدا، فرشتوں اور اہلِ جنت کے تحیت وسلام سے بہرہ مند ہوں گےہمیشہ بلند مقامات انہیں سلامتی اور ہر قسم کی ظاہری وباطنی رفاہ وآسائش کے ساتھ پاک وپاکیزہ زندگی کی بشارت دیں گے۔
۲وہ ایک ایسے ٹھکانے میں ہوں گے جو انتہائی خوبصورت، ہرا بھرا، پاک وپاکیزہ اور ہر قسم کی تکالیف، مشکلات اور غموں سے دور ہوگا۔
۳یہ لوگ ہمیشہ وہاں رہیں گےوہاں فنا، موت اور نابودی کا سوال ہی نہ ہوگا اور انہیں اس عالی شان جگہ سے نکالے جانے کا کوئی دھڑکا اور اندیشہ نہیں ہوگا۔
سچی بات ہے، اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی کہ انسان ایک ایسے محل میں رہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور وہ اس محل میں زندگی کی تمام نعمتوں، خوبصورتیوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو اور اسے وہاں فنا اور دوسری غم انگیز باتوں کی طرف سے کوئی تشویش نہ ہو۔
ان جزائوںمیںسب سے بڑی جزا، ان پر خدااور اسکے فرشتوںکا مسلسل تحیت و سلام ہےجس کی لذت ولطف قابلِ بیان اورقابلِ ادراک نہیں۔ امتیازی مقام کے حا مل اہلِ جنت پر خدا اور فرشتوں کے سلام کے بارے میں قرآن کی ایک اور آیت میںذکر ہواہے کہ:
سَلٰمٌ، قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ
ان کے حق میں ان کے مہربان پروردگارکا قول صرف سلامتی ہوگا۔ سورہ یٰسین۳۶۔ آیت۵۸
اسی طرح ایک اور مقام پر ہے کہ:
وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْہِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
اور ملائکہ ہر دروازے سے ان کے پاس حا ضری دیں گےکہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمہاری بہترین منزل ہے۔ سورہ رعد ۱۳آیت۲۳، ۲۴
۱۔ سورئہ نجم ۵۳ کی آیت ۳۱، سورئہ طہ ۲۰ کی آیت ۱۵ اس بارے میں واضح دلالت کرتی ہیں۔
۲اصول کافیج۲ص ۲۶۹، اسی کتاب کے صفحہ ۲۶۸ سے ۲۷۶ تک ” باب الذنوب“ کے عنوان کے تحت تیس روایتیں نقل کی گئی ہیں، جو مکافات عمل کو بیان کرتی ہیں۔