عبادت اور اس کا فلسفہ
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
قرآنِ مجید میں خدا کی عبادت اور عبادی رسومات، جیسے نماز، روزے، حج اور دعا وغیرہ کے بارے میں خصوصیت اور اہمیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے اور دوسری ہر چیز سے پہلے عبادت کو خدا کے خاص بندوں اور ممتاز انسانوں کی اصل اور بنیادی خصوصیات میں سے قرار دیا گیا ہےیہ پاکیزہ صفات افراد عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعمال کو بھی بندگی ٔرب کے طور پر انجام دیتے ہیں اور اپنی تمام سرگرمیوں کو خالص نیت اور ہر قسم کی آلائشوں اور غلاظتوں سے پاک کرکے الٰہی رنگ دیتے اور عبادت کے صاف و شفاف پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔
عبادت کا لفظ دراصل لفظ ” عبد“ سے لیا گیا ہے اور عبد ِکامل اس انسان کو کہا جاتا ہے جو اپنے مولا اور مالک کا سراپا اطاعت گزار اور تابعدار ہو، اس کا ارادہ اپنے آقا و مالک کا تابع ہو، اس کی خواہشات اپنے حاکم اور مولا کی تابع ہوں(وہ انسان جو خدا کی بندگی اور عبودیت کا دعویدار ہوتا ہے) خدا کے سامنے اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتا، اور اس کی اطاعت میں سستی اور کاہلی کو کسی صورت اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔
واضح الفاظ میں عرض کریں کہ اپنے بندے کو نہایت انعام واکرام سے نوازنے والے معبود، یعنی خدائے یکتا اور بے ہمتا کے سامنے زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں حددرجہ خضوع اور انکساری کا اظہار ” عبادت اور بندگی“ کہلاتا ہے۔
عبودیت، ذات ِخدا کے سامنے انتہائی تسلیم اور تابعداری کا نام ہےعبودیت، ہر میدان میں خداوند ِعالم کی بے قید و شرط، بلاچوں وچرا اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے۔
عبودیت ِکامل کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس حقیقی معبود، اس کمالِ مطلق کے سوا کسی اور کو خاطر میں نہ لائے، اسکی دکھائی ہوئی راہ کے سوا کسی اور راستے پر قدم نہ رکھے، سوائے اسکے کسی اور کے ساتھ دل وابستہ نہ کرے، اور سب سے کٹ کر صرف اسی کا ہورہےخدا کے ساتھ اس کی یہ وابستگی اس حد تک پہنچی ہوئی ہونی چاہیے جس کا ذکر مناجات ِشعبانیہ میں آیا ہے، جسے حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے تمام ائمہ تلاوت کیا کرتے تھےاس مناجات کے ایک حصے میں ہے کہ:
لَھِی ھَبْ لیِ کَمَال الانِقِطَاعِ اِلیْکَ وَاَنِرْ اَبْصَارَقُلُوبِنَا بِضِیاءِ نَظَرِ ھَا اِلَیْکَ، حَتّٰی تَخْرِقَ اَبْصَارَ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ، فَتَصِیلَ اِلیٰ مَعْدِنِ اَلْعَظَمَۃِ، وَ تَصِیرَ اَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَۃُ بِعِزً قُدْسِکَ
بار ِالٰہا! مجھے اپنی مخلوقات سے کٹ جانے اور(تو) اپنی ذات ِپاک سے جڑ جانے کا کمال بخش دے، (خدایا مجھ کو اپنی جانب مکمل انقطاع عطا کر) اور میرے دل کی آنکھ کو اس نور سے روشن فرماجو تیرا مشاہدہ کرسکے تاکہ میری دیدۂ بصیرت نور کے پردوں کو چاک کرتی ہوئی عظمت کے معدن تک جاپہنچے، اور ہماری روحیں تیرے مقامِ قدس کی عزت سے وابستہ ہوجائیں(مناجات شعبانیہ از مفاتیح الجنان)
قرآنِ کریم میں خدا کی عبادت و بندگی کو ہدف ِخلقت اور انسانی کمال کی انتہائی بلندی قرار دیا گیا ہےارشادِ باری ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
ہم نے جن و انس کو صرف اس لیے خلق کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کریں۔ سورۂ ذاریات ۵۱آیت ۵۶
اس آیت کے مطابق انسان کی خلقت کا مقصد یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں اس طرح خدا کی عبادت کرے جیسا اس کی عبادت کا حق ہے۔
اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ خدا وند ِعالم انسانوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہےکیونکہ اگر تمام کائنات کافر ہوجائے، اللہ سبحانہ تعالیٰ سے منھ موڑ لے، تب بھی اللہ رب العزت کے دامنِ کبریائی پر کوئی معمولی سی بھی آنچ نہ آئے گی۔
بلکہ عبادت، دراصل خود انسان کی تعمیر ذات، بہبود اور تکمیل کے لیے ہےانسان صحیح صحیح اور شرائط کے ساتھ انجام دی گئی عبادت کے ذریعے تربیت پاتا ہے، اس کی شخصیت جلاِپاتی اور پاکیزہ ہوتی ہےوہ خدا کی بندگی کے برخلاف ہر قسم کے گناہ اور گمراہی سے دور رہتا ہے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اعلیٰ و ارفع روحانی فضیلتیں حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ قدم بقدم آگے بڑھتے ہوئے کمال کی چوٹی پر جاپہنچتا ہے۔
فلسفۂ عبادت کے بارے میں یہ آیت ِقرآن اسی جانب اشارہ کررہی ہے کہ:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، جس نے تمہیں اور تم سے پہلے آنے والے لوگوں کو خلق کیا ہے، شاید کہ تم پرہیز گار بن جائو۔ (سورہ بقرہ۲آیت ۲۱)
اس آیت میں فلسفۂ عبادت کی وضاحت کی گئی ہے جو پرہیز گاری، پاکیزگی اور روح سے ہرقسم کی آلودگیوں کو دھوڈالنا ہے۔
لہٰذا عبادت کا ایک مقصد انسان کے گناہوں کو دھوڈالنا اور اسے پاک کرنا ہے۔ اس مرحلے کے بعد عبادت کے دوسرے مرحلے یعنی مرحلۂ تکامل کی نوبت آتی ہے، جس میں انسان تکامل کے درجات ومراحل طے کرتا ہے۔
قرآنِ کریم میں جس مقام پر خدا وند ِعالم نے پیغمبر اسلام کی معراج کو بیان کیا ہے (معراج جو آنحضرت کی عظمت کی انتہائی بلندیوں کی علامت ہے) اسی مقام پر پیغمبر کی عبودیت کے معاملے پر بھی گفتگو فرمائی ہے اور وضاحت کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے تکامل اور ان کی عظمت کی بلندیوں کی بنیاد، آنحضرت کی بندگی ہےارشاد ہوتا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ
پاک و پاکیزہ ہے وہ (معبود) جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بے شک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے(سورۂ بنی اسرائیل ۱۷ آیت ۱)
شب ِمعراج پیغمبر اسلام کے سدرۃ المنتہیٰ پہنچنے کا ذکر کرتے ہوئے قرآنِ کریم کہتا ہے: فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰى( پھر خدا نے اپنے بندے (پیغمبر) پر جو وحی کرنی چاہی وہ وحی کردیسورۂ نجم ۵۳ آیت ۱۰)
یہ دو آیات، پیغمبر اسلام کی معراج اور آپ کی بندگی کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو واضح کرتی ہیںیعنی رسولِ کریم کا خدا کی عبودیت اور اس کی بندگی کے اعلیٰ ترین مدارج پر فائز ہونا معراج کی بلندیوں تک آپ کی رسائی اور تکامل کا موجب بنا۔
خود پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کے کلمات میں بھی مختلف طریقوں سے اس نکتے کو بیان کیا گیا ہےمثال کے طور پر روایت کی گئی ہے کہ معراج کے دوران ایک فرشتہ پیغمبر اسلام کے پاس آیا اور عرض کیا: خدا وند ِعالم نے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں آپ کے حوالے کرنے کی غرض سے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اگر آپ چاہیں تو پیغمبر اور عبدرہیں اور اگرچاہیں تو پیغمبر اور بادشاہ بنیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو جواب دیا: بَلْ اَکُونُ نَبِیّاً عَبْداً (میں پیغمبری اور عبودیت کو چنتا ہوںبحارالانوار۔ ج ۱۸ ص ۳۸۲)
ائمۂ معصومین کے فرامین میں ملتا ہے: اِنَّ الصَّلَا ۃَ مِعْراجُ الْمُومِنِ (بے شک نماز، مومن کی معراج اور اسکے عروج و بلندی کا وسیلہ ہےبحارالانوارج ۸۲۔ ص ۳۰۳)
احادیث قدسی میں ایک مقام پر ہے: شب ِمعراج خداوند ِعالم نے پیغمبر اسلام کو مخاطب کرکے فرمایا:
عَبْدی اَطِعْنِی اَجْعَلَکَ مَثَلِی اِذَا قُلْتَ لِشَی ءٍ کُنْ فَیَکُونْ
اے میرے بندے! میری اطاعت کر، تاکہ میں تجھے اپنا ایک ایسا مظہربنادوں کہ جب تو کسی چیز کو کہے کہ ہوجاتو وہ چیزواقع ہوجائے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اَلْعُبُودِیَّۃُ جَوْہَرَۃُ کُنْھُھَا الرَّبُو بِیَّہْ
عبودیت اور بندگی وہ جوہر ہے جس میں ربوبیت پوشیدہ ہےمصباح الشریعہباب۱۰۰
مراد یہ کہ عبودیت اور بندگی، انسان کو خدا سے انتہائی قریب کرکے اسے مقامِ ربوبیت پر پہنچادیتی ہے، اسے خدا کی صفات کا مظہر بنادیتی ہے اور وہ اذنِ الٰہی سے عالمِ تکوین میں تدبیرو تصرف کرنے لگتا ہے، اس کے ہاتھوں کرامات اور غیر معمولی امور سرزدہونے لگتے ہیں۔
اس بات کی وضاحت اس مثال کے ذریعے کی جاسکتی ہے کہ اگر ٹھنڈے اور سیاہ لوہے کو، لوہار کی بھٹی میں ڈال دیا جائے تو وہ پگھل کر سرخ انگارا بن جاتا ہےیہ لوہا، لوہا ہونے کے ساتھ ساتھ، آگ کے نزدیک ہونے کی وجہ سے چمکتا ہوا انگارہ سا محسوس ہوتا ہےلوہے کی یہ حدت اور چمک اُس آگ کا معمولی سا اثر ہے جس میں وہ پڑا ہوتا ہے اور جو اسے اس رنگ میں لے آتی ہے۔ انسان بھی عبودیت کے اثر سے خدا کی طرح بن سکتا ہےاستاد شہید مرتضیٰ مطہری علیہ الرحمہ کے بقول بندے کو یہ سیرومقام پانچ مراحل میں حاصل ہوتا ہے:
۱بندگی کے سائے میں انسان اپنے نفس پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کرلیتا ہے۔
۲اس مرحلے کے بعد انسان اس قدر قوی بن جاتا ہے کہ اس کا نفس طاقتور ہوکر گناہوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کی قوت پالیتا ہے۔
۳اس مرحلے کے بعد، بہت سے امور میں روح بدن سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔
۴اس مرحلے کے بعد روح بدن کو چھوڑ دیتی ہے اور بدن ہر لحاظ سے روح کے کنٹرول میں آجاتا ہے۔
۵پانچویں مرحلے میں، انسان اس قدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ حتیٰ اپنے بدن سے باہر کی اشیاء پر بھی اثر انداز ہونے لگتا ہےاولیائے الٰہی جن سے معجزے، کرامات اور عالمِ تکوین میں تصرف جو خداوند ِعالم سے مخصوص کاموں میں سے ہے، اس شخص سے بھی سرزد ہونے لگتے ہیں۔ (ولا ھاو ولایتھا۔ ص۷۲تا۸۲، بطور افتباس)