وقت کی قدر اور لغویات سے پرہیز کے خوبصورت نتائج
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
وقت کی قدر کرنے والا انسان نہ صرف اپنی آخرت کی کامیابی کا بندوبست کرسکتا ہے اور معنویت کے بلند درجات پر پہنچ سکتا ہے بلکہ اِس دنیا میں بھی علم وعمل کے میدانوں میں کمال کی بلندیوں کو چھوسکتا ہے اور ایک عالمی شخصیت بن کر بشریت کو اپنی قیمتی خدمات سے فیضیاب کرسکتا ہےاگر ایڈیسن نے بجلی دریافت کی اور بہت سی دوسری مفید دریافتوں کا سبب بنا، اگر بو علی سینا نے علمِ طب اور فلسفے اور عرفان کو وسعت اور گہرائی دی اور اگر آئن اسٹائن نے فزکس کو رونق بخشی اور اس کے تجزیئے اور تحلیل کی وسعت میں اضافہ کیا اور بہت سے دوسرے لوگ جو مختلف میدانوں میں علوم کی وسعت وترویج اور صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بنے، تو یہ سب کچھ وقت سے صحیح استفادے کی بدولت ممکن ہوا ہےکیونکہ اگر یہ لوگ اپنے بہترین وقت کو لغو اور فضول کاموں میں گزار دیتے تو اِس سے خود اُن کی اور اُن کے معاشروں کی تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ برآمد نہ ہوتا۔
ہم خود اپنے ارد گرد اپنے بزرگ علما کو دیکھتے ہیں، جنہوں نے اپنے وقت سے استفادے اور فضولیات سے پرہیز کے ذریعے عالی ترین درجات حاصل کیے اور معاشرے کے لیے عظیم الشان علمی اور عملی خدمات انجام دیں اور اس کے لیے برکات وثمرات کا باعث ہوئےاس سلسلے میں ہم آپ کی توجہ کے لیے اختصار کے ساتھ چار علما کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
۱آیت اﷲ العظمیٰ شیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ، المعروف صاحب ِجواہر (وفات ۱۲۶۶ھ) جنہوں نے اپنی یادگار کے طور پر استد لالی فقہی کتاب“ جواہر الکلام“ چھوڑی ہے، جو چالیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں تمام ابواب ِفقہ شامل ہیں اِن بزرگوار نے اپنے وقت سے بہترین استفادہ کیا اور اِس میں ممتاز شاگردوں کی تربیت کی اور گراں قدر کتاب جواہر الکلام تالیف کی جو اپنی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے شیعہ استدلالی فقہ میں بے نظیر حیثیت کی حامل ہےیہ کتاب بجا طور پر فقہ شیعہ کا دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی کتاب ” بحار الانوار“ احادیث ِمعصومین کا دائرۃ المعارف اور خاندانِ رسالت کے علوم ومعارف پر مبنی ایک چھوٹا سا کتب خانہ ہے۔
مرحوم صاحب الجواہر کی ولادت تقریباً ۱۱۹۲ء میں ہوئی۲۵ برس کی عمر میں آپ نے ” جواہر الکلام“ کی تالیف کا آغاز کیا اور ۱۲۵۷ء میں اِسے مکمل کیایعنی آپ نے بغیر کسی وقفے کے اِس کتاب کو ۴۰ سال میں تحریر کیا اور یہ عظیم توفیق حاصل کیآپ نے ۱۲۶۶ء میں ۷۴ سال کی عمر میں وفات پائیاِس کتاب کے علاوہ بھی آپ نے دوسری کتب تالیف کیں، جن میں نجاۃ العباد، ہدایۃالناسکین اور علم اصول پر ایک کتاب بھی شامل ہےبعض علما کے بقول اگر صاحب ِجواہر کے دور کا کوئی تاریخ نویس اُس دور کے حیرت انگیز واقعات قلمبند کرتا، تو اُسے کتاب جواہر الکلام کی تالیف سے زیادہ حیرت انگیز کوئی اور واقعہ نہ مل پاتا(جواہر الکلامطبع بیروتج۱ص۱۲، ۱۴، ۱۷ اور ۲۴ مقدمہ)
غور سے پڑھیےشیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ کا ایک بہت پیارا فرزند، جس کا نام حمید تھا، اُس کا انتقال آپ کی حیات ہی میں ہوگیا تھایہ بات پیش نظر رہے کہ شیخ کو اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل اور زندگی کے امور میں بہتری کے لیے اِس بیٹے کی بہت زیادہ ضرورت تھیشیخ اپنے اِس فرزند کے جنازے پر آئے اور چند آیات ِقرآنی کی تلاوت کیابھی جنازے کو تدفین کے لیے تیار ہونے میں کچھ وقت تھایہ دیکھ کر شیخ وہیں بیٹھ گئے، اپنا بستہ کھول کر اس میں سے قلم وکاغذ نکالا اور کتاب جواہر الکلام (جسے اُس زمانے میں وہ تحریر کررہے تھے) لکھنے میں مصروف ہوگئے۔
وقت کی اہمیت اور اِس سے زیادہ سے زیادہ استفادے کے سلسلے میں شیخ کا یہی طرز عمل تھا جس کے ذریعے آپ نے فقہ وفقاہت کے میدان میں ایسی گرانقدر کتاب پیش کیامام خمینی نے اپنے ایک بیان میں اِس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے۔
۲مرجع اعظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی علیہ الرحمہ اپنی جوانی میں حوزۂ علمیہ اصفہان میں تحصیل علم میں مشغول تھےکبھی کبھی آپ رات کے وقت مطالعے میں ایسے غرق ہوجاتے کہ صبح موذن کی اذان ہی آپ کو وقت گزرنے کا احساس دلاتییہ ترقی اور کمال کے لیے وقت سے استفادے کی ایک اور مثال تھی۔
۳ابو ریحان البیرونی (متوفی ۴۳۰ھ) کا شمار ممتاز علما میں ہوتا ہےیہ بو علی سینا کے ہم عصر تھے اور علمِ طب اور ریاضی وغیرہ میں اپنے زمانے کے چوٹی کے علما میں اِن کا شمار ہوتا تھاانہوں نے مختلف علوم کے حصول کے لیے اُس دور میں دور دراز علاقوں کے سفر کیے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، کثیر علمی سرمایہ اکٹھا کیا اور علم کے اعلیٰ درجات تک پہنچےوقت کی قدر کے سلسلے میں کم ہی لوگ اُن کی مثل ہوں گےوہ اپنی عمر کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھتے تھے، دیکھا کرتے تھے کہ کہیں وہ فضول اور باطل امور میں برباد تو نہیں ہورہااِن کے حالات ِزندگی میں تحریر کیا گیا ہے کہ: ہمیشہ قلم ان کے ہاتھ میں رہتا تھا، مسلسل غور وفکر میں غرق رہتے تھے، عید ِنو روز اور عید ِ مہرگان (ایرانی سال کے مہینے مہرکے پہلے دن) کے سوا پورے سال کام اور تحقیق میں مصروف رہا کرتے تھے۔
تعجب انگیز قصہ ہے کہ جب وہ بسترِ مرگ پر تھے تو اُن کا ایک شاگرد احوال پرسی کے لیے اُن کے یہاں آیااِس موقع پر بھی انہوں نے ریاضی کے ایک مسئلے ” حساب جدّات“ کے بارے میں اس سے گفتگو کیاس شاگرد نے ان سے کہا کہ آپ اس حال میں بھی ریاضی کے مسائل پر گفتگو کررہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میری نظر میں اس مسئلے سے آگاہی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا، اس سے ناواقفیت کے ساتھ دنیا سے گزر جانے سے بہتر ہےشاگرد کہتا ہے کہ میں نے اس مسئلے کی وضاحت کی، اِس کے بعد ان سے رخصت چاہی، ابھی میں اپنے گھر بھی نہیں پہنچ پایا تھا کہ منادیوں نے خبر دی کہ ابو ریحان کا انتقال ہوگیا ہے(سفینتہ الیحاررج۱ص۵۳۸)
۴عظیم فلسفی ملّا ہادی سبزواری، جو تیرہویں صدی ہجری کے بڑے فلاسفہ اور حکما میں شمار کیے جاتے ہیں اور جو ایران اور اسلام کے لیے باعث ِافتخار لوگوں میں سے ہیں، انہوں نے اپنی جوانی میں حوزۂ علمیہ اصفہان سے تعلیم حاصل کیآپ وقت کو اِس قدر اہمیت دیتے تھے کہ اپنے وطن سے آنے والے خطوط تک کو کھول کر نہیں پڑھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِن میں سے کوئی ایسی ناگوار خبر ہو جو ان کے ذہن کو اپنی طرف مشغول کرلے اور اِس کی وجہ سے اُن کی پڑھائی کا نقصان ہوجائےتعلیم ختم کرنے کے بعد، جب انہوں نے وطن واپسی کا ارادہ کیا تو ان خطوط کو کھول کر پڑھااِن میں سے ایک خط میں اُن کے ایک قریبی رشتہ دار کی موت کی خبر تھییہ دیکھ کر علامہ سبزواری نے کہا کہ: خدا کا شکر ہے کہ جب مجھے یہ خط ملا تھا اُس وقت میں اِس ناگوار خبر سے مطلع نہ ہواکیونکہ یہ میری تعلیم کے لیے نقصان کا باعث ہوتا(تاریخ فلاسفۂ اسلامج۲ص۱۵۳)
حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ بھی اِن عظیم افراد میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے ہر پہلو میں تنظیم اور نظم وضبط کے ذریعے وقت سے بہترین استفادہ کیا اور ہر قسم کی لغویات اور فضولیات سے پرہیز کے ذریعے عظیم دنیوی اور اُخروی فوائد حاصل کیےانہوں نے اپنے ایک کلام میں فرمایا ہے: ہمیشہ قلیل منظم گروہ نے کثیر غیر منظم گروہ پر غلبہ حاصل کیا ہے(صحیفۂ نورج۱۴ص۱۷۸)
مقالے کی اختتامی سطور کو ہم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اِس پُر معنی کلام سے زینت بخشتے ہیں امام ؑنے اپنی ایک گفتگو کے دوران فرمایا: سخت ترین غم واندوہ، فرصت اور مواقع کا ہاتھ سے نکل جانا ہے(غرر الحکمج۲ص۴۴۱)