عباد الرحمٰن کے اوصاف

شرک کے معنی کی وسعت اور اسکے مختلف پہلو

عباد الرحمٰن کے اوصاف   •   محمدی اشتهاردی

اگر کوئی انسان شرک سے بچنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ شرک کی تمام اقسام سے واقف ہولہٰذا ہمار ے لیے ضروری ہے کہ ہم شرک اور توحید کی تمام علامات اور اقسام سے باخبر ہوں، تاکہ ہر قسم کے شرک سے مکمل طورپر دور رہ سکیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ: اِنَّ بَنی اُمَیَّۃَ اَطلقُوا اللنّاسِ تعلیمَ الایمانِ وَلَم یُطلقوا تَعلیمَ الشِّرکِ، لکَنی اِذَاحَمَلو ھُم عَلَیہِ لَمْ یَعْرِ فُوہ (بنی امیہ نے لوگوں کو ایمان کی تعلیم کے لیے آزاد چھوڑا لیکن انہیں(وسیع معنی میں)شرک کے متعلق جاننے کی آزادی نہیں دی۔ تاکہ جب وہ انہیں شرک کی طرف لے جانا چاہیں تو لوگ جان نہ سکیںاصولِ کافی۔ ج۔ ۲۔ ص۴۱۵، ۴۱۶)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی امیہ لوگوں کو شرک کے وسیع معنی جاننے کی آزادی فراہم کرتے، تو لوگ جان لیتے کہ خداوند ِعالم کے فرمان کو چھوڑ کر غاصب حکمرانوں کی اطاعت و پیروی بھی شرک کی ایک قسم ہےاس طرح نتیجے کے طور پر یہ علم انہیں ظالم خلفا کی اطاعت سے باز رکھتا۔

ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا: وہ کم سے کم چیز کیا ہے جس کے ارتکاب سے انسان مشرک ہوجاتا ہے؟ امام ؑنے جواب دیا: مَنْ قَالَ للنَّواۃِ اِنّھا حَصاۃً وَلِلْحَصاۃِ اِنّھا نَواۃٌ ثُمَّ دانَ بِہِ (جوکوئی گٹھلی کو کہے کہ کنکر ہے اور کنکر کو کہے کہ گٹھلی ہے اور پھر اسی کو اپنا دین اور عقیدہ بنالےاصولِ کافی ج ۲۔ ص ۴۱۵، ۴۱۶)

عارف اور محقق عالم ” فیض کاشانی“ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: اگر کوئی اپنے دل سے اس بات کا معتقد ہوجائے اور اسی کو اپنا دین بنالے، تو وہ مشرک ہےاس کا سبب یہ ہے کہ اس شخص کا یہ عمل اس کی نفسانی خواہش کا نتیجہ ہےاور یہ عقیدہ رکھنے والا شخص اگر چہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی نفسانی خواہش کی اطاعت بھی کرتا ہے اور نتیجے کے طور پر اس نے (اپنی خواہش کو) اطاعت میں خدا کا شریک قرار دیا ہوا ہے۔
اصولِ کافی(مترجمہ فارسی)۔ ج ۴۔ ص ۱۱۳)

دوسری طرف رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: مَن اصغی الی ناطق فَقد عبدہُ، فانْ کانَ النّاطِقُ عنِ اللہ عزّو جلَ فَقَدْ عَبَداللہ، واِن کانَ النّاطقُ عَنْ ابلیسَ، فَقَدْ عبدَابلیسَ (ایسا شخص جو کسی خطیب کی بات (اس کی گفتگو کی سچائی پر عقیدے کے ساتھ) سنے، اس نے اس خطیب کی عبادت کی ہےپس اگر وہ خطیب خدا کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے خدا کی عبادت کی ہے، اور اگر وہ شیطان کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے شیطان کی پرستش کی ہےبحارالانوار۔ ج۲۶۔ ص ۲۳۹)

اس قسم کی روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شرک انتہائی وسیع معنی کا حامل مفہوم ہےمومنِ کامل اور خالص توحید پرست شخص وہ ہے جو شرک کے تمام پہلوئوں سے باخبر ہو، اور ان سے اجتناب کرتا ہو، وگرنہ وہ بھی غیر شعوری طور پر شرک کی وادی میں اتر جائے گا۔

اس حوالے سے ایک دوسری بات یہ ہے کہ ائمۂ معصومین کی روایت کے مطابق شرک کی دو قسمیں ہیں: ایک شرک ِجلی (یعنی آشکار، کھلا اور ظاہر شرک) اور دوسری شرک ِخفی (یعنی چھپا ہوا اور نہاں شرک)

بت پرستی اور ایک سے زیادہ معبودوں کی پرستش وغیرہ شرک ِجلی میں سے ہیں جبکہ عبادت و اطاعت ِالٰہی میں خودنمائی اور ریاکاری شرک ِخفی میں سے ہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشادہے:شرک، اون سے بنے سیاہ لباس پر، تاریک رات میں چیونٹی کے رینگنے سے زیادہ خفیہ اور پوشیدہ ہوتاہےاسکی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان خدا سے طلب ِحاجت کے لیے اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو گھمائے۔

نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے: شرک، سیاہ رات میں، سیاہ ٹاٹ پر چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے، جیسے یہ کہ انسان خدا کے علاوہ کسی اور کے لیے نماز پڑھے، یا قربانی دے یا اس سے دعا مانگے۔ (بحارالانوار۔ ج۷۲۔ ص۹۶)

لہٰذا عبادت اور اطاعت ِالٰہی میں ہر قسم کی ریاکاری اور خود نمائی، شرک کی ایک قسم ہے۔

کیونکہ توحید اور صحیح عبادت و پرستش کی شرائط میں سے ایک شرط اخلاص ہےاسی بنیاد پر اولیا اللہ اور خدا کے نیک اور برگزیدہ بندے اس بات کی طرف سے انتہائی ہوشیار، محتاط اور چوکس رہا کرتے تھے کہ اپنی زندگی کے تمام پہلوئوں میں اخلاص کی حدوں سے باہر نہ نکلنے پائیں اور خدانخواستہ کہیں شرک کے کسی غیر محسوس پہلو کا شکار نہ ہوجائیں۔

نقل کرتے ہیں کہ جب امام خمینی علیہ الرحمہ نجف ِاشرف میں ہواکرتے تھے، تو بعض طلبا نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ آپ کا عمامہ اور داڑھی چھوٹی ہے، ایک مرجع تقلید کے شایانِ شان نہیں۔  امام خمینی نے ان کے جواب میں فرمایا: ان سے کہو کہ میں ابھی مشرک نہیں ہوا ہوں۔

یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ خودنمائی کی غرض سے عمامہ اور داڑھی کا بڑا کرنا بھی، شرک کی ایک قسم ہے۔ (برداشتھائی از سیرت ِامام خمینی۔ ج۱ص ۳۲۴، پابہ پائے آفتاب۔ ج ۴۔ ص۴۸)

شرک کا دامن اس قدر وسیع و عریض ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بقول: اگر کوئی مومن تمام عبادات انجام دے لیکن ایک چیز جسے خدایا اسکے رسول نے معین کیا ہے اس کے بارے میں کہے کہ: کیوں (خدا نے) اس کے برخلاف چیز معین نہیں کی، یا اس کے باطن میں ایسی حالت پیدا ہوجائے تو ایسا شخص بغیر زبانی اظہار کے شرک میں گرفتار ہوگیا ہے(اصولِ کافی۔ ج۲۔ ص۳۹۸)

نیز آپؑ ہی کا ارشاد ہے: اگر کوئی کہے کہ: اگر فلاں (شخص) نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا مجھے نقصان اٹھانا پڑتا، یا میں اپنی مراد حاصل نہ کرپاتا اور اسی طرح کی دوسری باتیں کرے، تو ایسے شخص نے مالکیت اور رازقیت میں (اس فلاں شخص کو) خدا کا شریک قرار دیا ہےپس اگر ایسے مواقع پروہ یہ کہے کہ: اگر خداوند ِعالم فلاں شخص کو میری مدد کے لیے نہ بھیجتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا اپنا مقصود حاصل نہ کرپاتا، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے(بحارالانوار ج ۷۲۔ ص ۱۰۰)

نیز روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ایسا مومن جو ایک مالدار کے یہاں جائے، اور اس کی دولت کی خاطر اسے سلام کرے، اور اسکے سامنے انکساری اور عاجزی کا مظاہرہ کرے، تو وہ اپنے دو تہائی دین سے محروم ہوجاتا ہے(بحارالانوار۔ ج۷۳۔ ص۱۶۹)

ہم اس موضوع پر گفتگو کومختصر کرتے ہوئے اسے توحید اور شرک کے مختلف پہلوئوں کے ذکر پر ختم کررہے ہیں۔

اسلامی فلاسفہ اور علمائےعلمِ کلام کہتے ہیں کہ: توحید کی متعدد شاخیں ہیںجیسے توحید ِذات، توحید ِصفات، توحید ِعبادی، توحید ِافعالی جومختلف اقسام پر مشتمل ہے، جیسے خالقیت میں توحید، ربوبیت میں توحید، مالکیت میں توحید، تکوینی وتشریعی حاکمیت میں توحیداسی طرح توحید کی ضد یعنی شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں اور ان میں سے کسی ایک قسم میں بھی کسی کا گرفتار ہوجانا، اس انسان کو مشرک بنانے کے لیے کافی ہےلہٰذا شرک بھی وسیع معنی رکھتا ہے۔

خدا اپنے ممتاز اور خاص بندوں میں ایک صفت یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ شرک کے تمام پہلوئوں اور اس کی تمام اقسام سے باخبر ہوں اور ہر قسم کے شرک سے دور رہیں تاکہ وہ فکر، عقیدے اور عمل میں توحید کی پاک وپاکیزہ راہ پر گامزن ہوسکیں۔ یقیناً اگر تمام پہلوئوں میں ان کی توحید درست ہوجائے تو وہ ہر میدان میں اسکے خوبصورت معنوی آثار کا مشاہدہ کریں گے اور مطلوبہ نتائج حاصل کریں گے۔