عباد الرحمٰن کے اوصاف

خدا کے مقابل تواضع و انکساری

عباد الرحمٰن کے اوصاف   •   محمدی اشتهاردی

خدا کے سامنے عاجزی اور انکساری کی علامت یہ ہے کہ انسان اسکے فرامین تسلیم کرے، اسکی اطاعت بجالائے اور اسکی عظمت کے سامنے انتہائی خضوع و خشوع کا اظہار کرےاس پر یہ کیفیت اس حد تک طاری ہوکہ اسے جو کچھ حاصل ہے اُس سب کو خدا کی طرف سے سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اسکی مخلوقات میںسے ایک ناچیز ذرّہ سمجھےبے چوں و چرا اسکا شاکروسپاس گزار رہے اور خدا کی مرضی کے سامنے اپنی کسی بھی قسم کی مرضی چلانے سے پرہیز کرے۔

خداوند ِعالم کے سامنے عاجزی و انکساری، ایمان و معرفت کی کنجی اور درگاہِ حق اور تقرب ِ الٰہی کا ذریعہ ہےاس کے برعکس خدا کے سامنے تکبر اور گھمنڈ اس سے سرکشی اور بغاوت کا موجب اور ہر قسم کی بدبختی اور گمراہی کا سبب ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ پروردگارِ عالم کی عظمت و بزرگی کے مقابل انتہائی تواضع و عاجزی کے حامل تھے، یہاں تک کہ جب خدا نے انہیں اختیار دیا کہ رسول اور بندہ بن کر رہیں یا رسول اور بادشاہ بن کر ہر صورت میں خدا کے نزدیک ان کے مقام میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، تب بھی آنحضرتؐ نے بندگی اور رسالت کا انتخاب کیا اور خدا کا عاجزبندہ اور رسول بننا پسند کیا، رسول اور بادشاہ بننا قبول نہ کیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:مااکل رسول اللہ(ص) متّکناً منذبعثہ اللہ عزّوجلّ نبیّاً حتّی قبضہ اللہ الیہ، متو اضعاًللہ عزّوجلّ (جب سے رسول اللہ رسالت کے لیے مبعوث ہوئے تھے، اس وقت سے اپنی عمر کے اختتام تک خداوند ِ عالم کے مقابل عاجزی و انکساری کی بناپر کبھی آپ نے کسی چیز پر ٹیک لگا کر غذا تناول نہیں فرمائیکحل البصرص ۱۰۰، ۱۰۱از محدث قمی)

ایک دن آنحضرتؐ چند غلاموں کے ساتھ زمین پر تشریف فرما، کھانا کھانے میںمشغول تھے کہ وہاں سے ایک گستاخ عورت کا گزرہواآنحضرتؐ کو اس طرح تشریف فرمادیکھ کر اس عورت نے کہا :اے محمد! خدا کی قسم آپ بندوں (غلاموں) کی مانند کھانا کھارہے ہیں اور انہی کی مانند بیٹھے ہوئے ہیں (آپ کی روش اور انداز بادشاہوں اور حکمرانوں کا سانہیں ہے) پیغمبر اسلام ؐ نے اسے جواب دیا :ویحک ایّ عبداعبدمنّی(وائے ہوتجھ پر، کونسا بندہ مجھ سے بڑھ کر بندہ (غلام) ہوگاحوالۂ سابق ص ۱۰۱)

خداوند ِعالم کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کی تواضع و انکساری کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ آپ کثرت کے ساتھ غربا اور ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھےایک دن ایک شخص نے تنقید کے طور پر آپ سے عرض کیا :آپ اس قدر افراط کے ساتھ صدقہ کیوں دیا کرتے ہیں، اپنے لیے کوئی چیز کیوں نہیں بچاتے؟ آپ نے جواب دیا:ہاں!خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ خداوند ِعالم میرے انجام دیئے ہوئے کسی عمل یا فریضے کو قبول کررہا ہے، تو میں اس افراط کے ساتھ خرچ کرنے سے پرہیز کرتالیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرے اعمال بارگاہِ الٰہی میں قبول ہورہے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ مجھے اس بارے میں اطلاع نہیں اس لیے (راہ خدا میں) اس قد ر خرچ کرتا ہوں، تاکہ ان میں سے کوئی ایک قبول ہوجائے ( الغاراتج ۱۔ ص۔ ۹۱۔ از ابراہیم بن محمد ثقفی)

یہ واقعہ خداو ند ِبزرگ و برتر کے مقابل حضرت علی علیہ السلام کی انتہائی تواضع و انکساری اور آپ کےخضوع و خشوع کو ظاہر کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ آپ توحید ِافعالی کی عظیم بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے انتہائی ناچیز سمجھتے تھے۔

پاک و پاکیزہ عارف ” ورام ابن ابی فراس“ بیان کرتے ہیں کہ ایک شہر میں اولیااللہ میں سے ایک عمر رسیدہ بزرگ رہا کرتے تھےاس شہر میں زلزلہ اور طوفان آیا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے اور بہت سے بے گھر ہوکر مصائب و ابتلا کا شکار ہوگئےان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور مشکلات کے حل کے لیے ان سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

یہ لوگ جمع ہوکر ان پارسابزرگ کی خدمت میںحاضر ہوئے اور اپنی بدحالی اور ابتر صورتحال کا ذکر کیا، اور ان سے دعا کی درخواست کییہ بزرگ خدا کے سامنے انتہائی فروتنی اور عاجزی کا اظہار کرنے لگے اور روتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:کہیں ایسا نہ ہوکہ میں خود ہی اس ہلاکت اور تمہارے مصائب کا ذمے دار ہوںلہٰذا اس فقیر ناچیز او رگناہ گار سے دعا اور اسکی استجابت کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔ (تنبیہ الخواطر۔ ص ۳۰۳ازورام بن ابی فراس)

جی ہاں! پاک و پاکیزہ عرفا اور اولیاء اللہ پروردگارِ عالم کی عظمت کے سامنے اس انداز سے خاضع و متواضع ہوتے ہیںکیا خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید میں یہ نہیں فرمایا ہے کہ: يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ (اے انسانوں! تم سب اللہ کے محتاج ہوسورہ فاطر۳۵۔ آیت ۱۵)

امام زین العابدین علیہ السلام اپنی ایک دعا کے ایک حصے میں خداوند ِمتعال سے عرض کرتے ہیں کہ :یا غنی الاغنیاء ھا، نحن عبادک بین یدیک، وانا افقر الفقرائ الیک، فاجبر فاقتنا بوسعک (اے بے نیازوں میں سب سے زیادہ بے نیاز! اب ہم تیرے بندے، تیری بارگاہ میںحاضر ہیں اور تیرے فقیروں میں سب سے زیادہ فقیر میں ہوں پس ہماری تہی دستی کا اپنی تونگری کے ذریعے ازالہ فرماصحیفہ سجادیہ۔ دعا۱۰)