دعا میں تین خوبصورت خواہشیں
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
ایک مرتبہ پھر زیر بحث آیت کی تفسیر کی جانب آتے ہیں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ خداکے ممتاز بندے اپنی دعا میں خدا سےعرض کرتے ہیں کہ: ہمیں اچھی بیوی اور صالح اولاد عنایت فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا اور قائد بنا۔
یہ تین تمنائیں، ایک کامیاب اور سعادت مند زندگی کی بہترین خواہشات ہیں ان تین تمناؤں کی اہمیت جانے کے لیے، ان کی مختصر وضاحت کرتے ہیں۔
اچھی بیوی اور اس کے اثرات
اچھی بیوی، اپنے شوہر کے لیے بہترین معاون ومددگار ہوتی ہےزندگی کی خوبصورتی ودوام اور اسکی کامیابی وشادابی کا موجب ہوتی ہے اور گھرانے کی عمدہ نگہداشت اور اسکی تعمیر میں انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہےلہٰذا ان خصوصیات کی حامل بیوی کے چناؤ اور اس کی تربیت کے لیے گہری توجہ ضروری ہے۔
بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی شریک ِحیات کے انتخاب کے سلسلے میں رسولِ مقبول سے مشورہ کیاآنحضرتؐ نے اس سے فرمایا:
انکِحْ وعلیکَ بِذاتِ الدّینَ
شادی کرو لیکن تمہیں چاہیے کہ دیندار عورت سے شادی کروفروعِ کافیج۵ص۳۳۲)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابراہیم کرخی سے فرمایا:
ایسی لڑکی سے شادی کرو جس کا گھرانہ اصیل اور نیک ہو، جو اچھے اخلاق کی حامل ہو، جس میں صاحب ِاولاد ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہو، جو دنیا اور آخرت کے امور میں اپنے شوہر کی مددگار ہو(فروعِ کافیج۵ص۳۲۳)
اس بارے میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جن کا مہر کم ہو اور جو خوبرو ہوں(فروعِ کافیج۵ص۳۲۴)
اس حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ درجِ ذیل بارہ خصوصیات اچھی بیوی کی علامات ہیں(۱) دینداری(۲) اچھا اخلاق(۳) خوبصورتی(۴) مہر کا کم ہونا(۵) بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت(۶) محبت کرنے والی(۷) پاکدامن(۸) شوہر کی اطاعت گزار اور اس کے لیے سنورنے والی(۹) اچھے اور اصیل گھرانے سے تعلق رکھنے والی(۱۰) سچی اور امانتدار(۱۱) صاف ستھری اور معطر رہنے والی(۱۲) سمجھ بوجھ کی حامل اور خوش اسلوبی کے ساتھ امور زندگی کی تنظیم کرنے والی۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
ایّاکُم و تزویجَ الحَمقاء، فانَّ صُحْبَتَھا بَلاءٌ وولَدَھا ضِیاعُ
کم عقل عورتوں کے ساتھ شادی سے پرہیز کرو، کیونکہ ان کی ہم نشینی بلا ہے اور ان کے بچے برباد ہیںوسائل الشیعہج۱۴ص۵۶
متعدد روایات میں کہا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت تمہارے پیش نظر مال ودولت کا حصول اور شریک ِحیات کی خوبصورتی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے شریک ِحیات کے ایمان اور اس کی پاکدامنی کو پیش نظر رکھو۔
پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: جب کبھی کوئی شخص کسی خاتون سے اس کے مال ودولت کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے اسی مال ودولت کے حوالے کردیتا ہے (اور دوسرے فوائد سے محروم رکھتا ہے) اور جو کوئی کسی عورت سے اس کے حسن وجمال کے لیے شادی کرتا ہے، تو اس سے ناگوار امور سامنے آتے ہیں اور جو کوئی کسی خاتون سے اس کے دین کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا(وسائل الشیعہج۱۴ص۳۱)
لہٰذا اچھی بیوی کا شمار زندگی کے اہم ترین عناصر میں ہوتا ہےخداوند ِعالم کا ممتاز بندہ اپنی دعا میں بھی اور اپنے انتخاب میں بھی اس موضوع کو اچھی طرح پیش نظر رکھتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے اپنی سعادت اور کامرانی کا ایک اہم عامل فراہم کرسکے۔
صالح اولاد
جو عناصر کسی انسان کی سعادت وکامرانی میں شمار کیے جاتے ہیں اُن میں سے ایک اہم ترین عنصر اسکا صالح اولاد کا مالک ہونا ہے، جو واقعا ً ایک بیش بہا الٰہی نعمت ہوتی ہے۔
اسکے برخلاف غیر صالح اولاد بڑی اور تباہ کن بلا ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں کی ناکامی اور مصیبت کا باعث ہےانبیا اور اولیائے الٰہی، اپنی دعاؤں اور مناجات میں بھی اور اپنے عمل کے ذریعے بھی صالح اولاد کے حصول کے طالب ہوتے ہیں اور اپنے بچے کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے سلسلے میں کسی تعمیری عامل کو نظر انداز نہیں کرتے۔
اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا:
جب تم شادی کا ارادہ کرو، تو دو رکعت نماز پڑھو اور حمدوسپاس الٰہی کے بعد دعا کرو اور دعا میں کہو کہ:۔ ۔ اور میرے لیے اس بیوی سے ایسا طیب اور پاک فرزند نصیب فرما جو میری زندگی میں اور میری موت کے بعد میرا صالح جانشین ثابت ہو(وسائل الشیعہج۱۴ص۷۹)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا:
خدا کی قسم! میں نے بارگاہِ الٰہی میں خوبصورت اور خوش اندام اولاد کی درخواست نہیں کی تھیبلکہ پروردگار سے التماس کی تھی کہ مجھے اﷲ کی مطیع وفرمانبردار اور خوفِ خدا رکھنے والی اولاد عطا فرمااور جب کبھی میں اسے دیکھوں، اور اسے خدا کا اطاعت گزار پاؤں، تو یہ دیکھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو(مناقب ِابن شہر آشوبج۳ص۳۸۰)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انّ الولدَ الصّالح ریْحانۃٌ مِنْ ریاحینِ الجَنَّۃِ
بے شک صالح اولاد جنت کے خوشبودار پھولوں میں سے ایک پھول ہےفروعِ کافیج۶ص۳
بحار الانوار کے مولف علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کے والد ِگرامی، عالمِ بزرگوار مرحوم ملّا محمد تقی مجلسی کے حالات ِزندگی میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک رات نمازِ شب کے بعد مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اگر میں اس موقع پر خدا سے کوئی دعا مانگوں تو وہ دعا قبول ہوگیمیں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا درخواست کروں کہ اچانک میرے بیٹے محمد باقر کی آواز بلند ہوئی، جو اس وقت اپنے جھولے میں تھامیں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا کہ: بار الٰہا! بحقِ محمد وآلِ محمد! اس بچے کو مروجِ دین اور سید الانبیا محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو فروغ دینے والا قرار دےاور اسے بھرپور توفیقات عنایت فرما(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)
یہی دعا اس بات کا باعث ہوئی کہ خداوند ِعالم نے ملّا باقر مجلسی کو توفیق کے تمام اسباب فراہم کیےیہاں تک کہ جب وہ بڑے ہوئے تو ان کا کمال روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا اور انہوں نے اپنے بیان اور قلم کے ذریعے اسلام اور دینی احکام کی نشر واشاعت کی بھرپور توفیقات حاصل کیں اور بکثرت گرانقدر آثار اپنی یادگار کے طور پر چھوڑے، جن میں سے ایک اثر، ایک سو دس جلدوں پر مشتمل بحار الانوار ہے۔
معروف محدث حاجی نوری علیہ الرحمہ کے بقول، علامہ مجلسی کا مقام اور ترویجِ اسلام میں ان کی توفیق اس درجے پر پہنچی کہ عبد العزیز دہلوی نے اپنی کتاب تحفہ میں لکھا ہے کہ: اگر مذہب ِ شیعہ کا نام مذہب ِمجلسی رکھا جائے تو بجا ہےکیونکہ اس مذہب کو رونق اور فروغ علامہ مجلسی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)
نتیجہ یہ کہ بڑے لوگ صالح اولاد کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اسے اپنی زندگی کے سر فہرست مسئلے کے طور پر توجہ کا مرکز قرار دیتے تھے۔
لوگوں کا پیشوا اور قائد ہونا
بے شک مقامِ امامت اعلیٰ ترین مقام ہے، جسے اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہےزیر بحث آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عباد الرحمٰن (یعنی خدا کے ممتاز بندے) وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ تقویٰ اور جہد ِ مسلسل کے ذریعے محترم ترین مقام تک رسائی حاصل کریں اور لوگوں کے پیشوا اور قائد بن جائیں۔
واضح ہے کہ اس مقام کا حصول تہذیب ِنفس کے مراحل طے کرنے اور معنوی کمالات کسب کرنے سے وابستہ ہےجیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کڑی آزمائشوں اور عالی درجات طے کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچے اور خداوند ِعالم نے ان سے فرمایا: …اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیںسورئہ بقرہ۲آیت۱۲۴)
یہ دعا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خدا کے ممتاز بندوں کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ایسا بنائیں اور ایسے بلند عزائم رکھیں کہ لوگوں کے رہبر اور رہنما بن سکیں اور لوگ ان کے وجود سے پھوٹنے والی روشنی سے استفادہ کریں اور ان کے فیوضات لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر صراطِ مستقیم اور روشنی کی جانب لے آئیںاور وہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اگر وہ کوشش کریں تو تقویٰ اور عملِ صالح کے سائے میں عالی درجات حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ دعا، تمنا اور خواہش وہی ہے جو تمام انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی رکھتے تھےجیسے کہ اسی جیسی بات امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق میں آئی ہے، جہاں آپ نے خداوند عزوجل سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا ہے کہ: وَاجْعَلْنِی مِن اَھْلِ السِّدادِ وَمِنْ اَدِلَّۃِ الرَّشادِ (اور مجھے درست کاروں اور ہدایت کے رہنماؤں میں سے قرار دےمفاتیح الجناندعائے مکارم الاخلاق)