عباد الرحمٰن کے اوصاف

تجزیہ وتحلیل اور جمع بندی

عباد الرحمٰن کے اوصاف   •   محمدی اشتهاردی

مذکورہ بالا گفتگو سے استفادہ ہوتا ہے کہ خوف کی خصلت، خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی خصوصیت اور ایک اعلیٰ اور تعمیری انسانی فضیلت ہےخوف صرف زبان اور حالت کے ذریعے اظہار کا نام نہیں بلکہ کامل خوف وہ ہے جس کے آثار عمل میں دکھائی دیں اور جو گناہوں سے دوری کا قومی عامل بنے۔

خوف کے اعلی مراحل وہ ہیں کہ انسان رات کی تنہائی میں خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس سے مناجات کے دوران گریہ وزاری کرے اور انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنا دل خدا سے وابستہ رکھے اور اپنے آپ کو خدا کی عظمت کے سامنے ایک ناچیز ذرّہ سمجھے۔

مومن، خائف بھی ہوتا ہے اور امیدوار بھی، وہ اپنے اندر یہ دونوں خصلتیں مساوی طور پر پروان چڑھاتا ہے اور ان دوپروں کے ذریعے دنیائے سماوی کی بلندیوں میںپرواز کرتا ہے اور ان دوانوار کے ذریعے اپنے قلب کو پرنور اور روح کو پاکیزگی اور صفا سے سرشار کرتاہے۔

خوف ورجا کا مسئلہ، تربیتی مسائل میں تعلیم کے بنیادی ارکان و اصول میں سے ہےاسی بناپر انبیا علیہم السلام نذیر بھی تھے اور بشیر بھیمثال کے طور پر اگر جماعت کا استاد اپنے طالب علموں سے کہے کہ اس سال تمام طلبا پاس ہوجائیں گے، اس طرح انہیں صرف امید دے، خوف نہ دے، تو طلبا مطمئن ہوکے، دھوکے میں آکے تصور کرنے لگیں گے کہ وہ سب پاس ہوجائیں گے اور اس طرح پڑھائی لکھائی سے غفلت اور سستی برتنے لگیں گےاس کے برعکس اگر استاد کہے کہ اس سال تم سب فیل ہوجائوگے، تو ان الفاظ سے استاد اپنے تمام طالب علموں کو مایوس اور ناامید کردے گا، اور ان میں پڑھنے کی امنگ اور جوش وخروش کو ٹھنڈا کردے گااور اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا کہ طالب علموں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجائے گا اور ان میں پڑھنے کی تمنا اور جوش وخروش ختم ہوجائے گا۔

سمجھدار اور لائق معلم وہ ہے جو نذیر (خوف دلانے والا) بھی ہو اور بشیر (خوش خبری اور امید دلانے والا) بھی، جو امید بھی دلائے اور خوف بھی اور اپنے طالب علموں کو ان دو خصلتوں کے درمیان رکھےکیونکہ یہ اعتدال اور دونوں خصائل کی آمیزش شوق ورغبت، حرکت و عمل اور نورانیت و پاکیزگی کا موجب ہے۔

خوف و رجا کے درمیان اعتدال کا مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اسلامی روایات میں ناامیدی (جو رجا کی ضد ہے) اور عذاب ِالٰہی سے امان و حفاظت (جوخوف کی ضد ہے) کودو گناہان کبیرہ شمار کیا گیا ہےیہاں تک کہ صحیح روایت میں نقل ہوا ہے کہ: عمروبن عبید امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے ان گناہانِ کبیرہ سے آگاہ فرمائیے جن کا قرآنِ کریم میں ذکر ہوا ہےامام جعفر صادق علیہ السلام نے انہیں انیس گناہ گنوائےاور ان میں سے ہر گناہ کے بارے میں ایک آیت ِقرآن بطور دلیل پیش کیامام ؑنے انیس گناہوں میں عذاب ِالٰہی سے محفوظ ہونے اور ناامیدی کو بھی شمار کیا اور فرمایا:خدا کے ساتھ شرک کے بعد (دوسرے نمبر کا گناہِ کبیرہ) رحمت ِالٰہی سے یاس و ناامیدی ہےجیسا کہ خدا وند ِعالم کا ارشاد ہے:

اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ

کفار کے سوا کوئی رحمت ِخدا سے ناامید نہیں ہوتاسورہ یوسف۱۲۔ آیت ۸۷

پھر امام ؑنے فرمایا: اس کے بعد (یعنی تیسرے نمبر کا گناہ ِکبیرہ) خدا کے مکرو عذاب سے تحفظ کا احساس (یعنی خدا سے خوف نہ کھانا) ہےجیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے: اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللہِ۝۰ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ (کیا یہ لوگ خدائی تدبیر کی طرف سے مطمئن ہوگئے ہیں، جب کہ ایسا اطمینان صرف گھاٹے میں رہنے والوں کو ہوتا ہےسورہ اعراف ۷۔ آیت ۹۹)(اصولِ کافی۔ ج ۲۔ ص ۲۸۵)

اس گفتگو کو ہم اس معروف قصے پر ختم کرتے ہیں جو قیامت کے وحشتناک حوادث سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے خوف کی نشاندہی کرتا ہے:امام حسن علیہ السلام اپنی حیات کے آخری لمحات میں خوف ِخدا سے گریہ کررہے تھےوہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے سوال کیا: اے فرزند ِرسول! آپؑ جو بارگاہ الٰہی میں انتہائی بلند درجے اور مقام کی حامل ہیں، آپؑ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام ؐنے بکثرت فرمایا ہےآپؑ جو بیس مرتبہ پیدل حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے ہیں، تین مرتبہ آپؑ نے اپنا تمام مال و دولت راہِ خدا میں ضرورت مندوں کو بخشا ہے(لہٰذا موت کا یہ سفرتو آپؑ کے لیے مبارک و مسعود سفر ہے) اسکے باوجود آپؑ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟

امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا: اِنَّما اَبْکِی لِخِصْلَتَیْنِ لَھِوْلِ الْمُطَّلَعِ وَفِراقِ الاَحِبَّہِ (جان لو کہ میں دو وجوہات کی بنا پر رورہا ہوں، ایک روزِ قیامت کی وحشت کی وجہ سے، کہ اس روز ہر کوئی حالات سے آگاہی اور نجات کی کوئی راہ تلاش کرنے کی غرض سے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کررہا ہوگا اور دوسری وجہ دوستوں کی جدائی ہے(امالی ٔشیخ صدوقمجلس ۳۹حدیث ۹)