خلودوجاویدانگی کی اہمیت
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
معاد اور جنت و دوزخ کی گفتگو میں ایک مسئلہ خلود اور جاویدانگی کا مسئلہ ہےیعنی دوزخ کا عذاب ہمیشہ کے لیے اور نا قابلِ زوال ہےاسی طرح جیسے بہشت کی نعمتیں بھی دائمی اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔
قرآنِ کریم کی متعددآیات میں خلود کے مسئلے پربات ہوئی ہے، اور اس کی وضاحت اس قدر قطعی ہے کہ اسکی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔
خلود کے معنی ایسی بقا اور دوام ہے جس میں زوال اور نا بودی کی گنجائش نہ ہو۔ ــ ” لسانِ العرب“ نامی عربی لعنت میں ” خلد“ کے معنی ایسے ٹھکانے اور سرائے میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا بیان ہوئے ہیں جس سے انسان کو باہر نہیںنکالا جائے گا۔ مزید کہا گیا ہے کہ اسی بنا پر آخرت کو ” دارالخلد“ کہتےہیںکہ لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہی معنی دوسری عربی لغتوں ” مقاییس اللغۃ“ اور ” صحاح اللغۃ“ میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔
اگرچہ بعض مفسرین نے خلود کے معنی کی تو جیہات کی ہیں، مثلاً اسے طولانی وغیرہ کہاہے اور اسکے بارے میں مختلف احتمالات کا اظہار کیا ہے لیکن قرآنی آیات کی وضاحت وصراحت کے سامنے یہ توجیہات واحتمالات قابلِ قبول نہیں، اور علمائے اسلام اور چوٹی کے مفسرین نے انہیں مسترد کیا ہے۔
خلود کے معنی جاویدانگی ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اور دوسری تعبیریں بھی موجود ہیں، جواس قسم کی توجیہات واحتمالات کے قابل نہیں، اور جاویدانگی پرصراحت کی حامل ہیں، مثلاًایک مقام پر ہے: وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا (اور جو اﷲاور رسول کی نافرمانی کرے گااسکے لیے جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والا ہے۔ سورئہ جن ۷۲۔ آیت۲۳) یا ایک اور جگہ پر ہے کہ: وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ (اور ان میں سے کوئی آتشِ دوزخ سے نہیں نکلے گا۔ سورۂ بقرہ۲آیت۱۶۷)ایک اور مقام پر ہے: اُكُلُہَا دَاۗىِٕمٌ وَّظِلُّہَا (اور جنت کے پھل دائمی ہوں گے اور سایہ بھی ہمیشہ رہے گا۔ سورئہ رعد۱۳۔ آیت۳۵)
اہلِ دوزخ کے خلود کے بارے میں ایک اہم اعتراض اٹھایاگیا ہےلہٰذا یہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ دائمی عذاب عدالت کے بر خلاف ہو سکتا ہے اور چند سال کے گناہوں سے کوئی تناسب نہیں رکھتا۔ اپنے مقام پر اس اعتراض کا جواب دیا جا چکا ہے۔ (۱)
لیکن بہشت اور ہمیشہ جاری خدا کی نعمتوں کے بارے میں خداوند ِعالم کے بے پایاں فضل و کرم کی بنا پر کسی قسم کااعتراض و اشکال نہیں اٹھایا جاسکتا، وہ خداجس کی رحمت پورے عالم پر چھائی ہوئی ہے بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے، اس کا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنا اور بے پایاں لطف وکرم کا برتائو کرنا کسی صورت باعث ِ تعجب نہیں۔
لہٰذا اپنے ممتاز اور پیارے بندوں پر خدا کے مسلسل اور دائمی فضل وکرم کے حوالے سے کوئی عقلی رکاوٹ حائل نہیں، یہ شرع کے لحاظ سے ثابت ہے، اور آیاتِ قرآنی(جن میں زیر بحث آیت بھی شامل ہے )کی رو سے مسلمات میں سے ہے۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ بعض آیت ِقرآنی میں دنیا اورآخرت کی جزاوپاداش کے مابین فرق رکھا گیا ہےمثلاً ایک جگہ ہے کہ: فَاٰتٰىھُمُ اللہُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ (تو خدا نے انہیں دنیا میں بدلہ بھی دیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی عطا کیاسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۸)
جزا و ثواب اچھی چیزہے، خواہ وہ دنیاکی ہوخواہ آخرت کی لیکن اسکے باوجود مذکورہ آیت میں صرف آخرت کی جزا کو نیک اور احسن بتایا گیا ہے، اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی جزا میں فرق ہے۔ کیونکہ دنیا کی جزا جو کچھ بھی اور کتنی ہی کیوں نہ ہو، آخرکا ر اُسے فنااور زوال کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ نیز دوسری مشکلات جو دنیا کی زندگی کی خاصیت ہیں، اسکے ہمراہ
ہوں گی، جبکہ آخرت کی جزا، اور وہاں ملنے والا بدلا، دائمی، ہمیشہ رہنے والا اور مشکلات سے خالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ اسلام نے اپنے کلمات میں بار ہا اس نکتے کاذکر کیا ہےایک خطبے میں فرمایا ہے:
فامّا اھلُ الطاعۃِ، فاتابَھُم بجوارہِ، وخلّدَ ھمْ فی دارہ، حیثُ لا یظعنُ النزال، ولا تتغیّرُ بھمُ الحالُ، ولا تنوبُھُم الافزاعُ، ولا تنالُھُم الا سقام، ولا تعرِضُ لھم الاخطار، ولا تشخصھم الاسفار
جوفرما نبردار تھے انہیں جزا دے گا کہ وہ اسکے جو ارِرحمت میں رہیں اور اپنے گھر میں انہیں ہمیشہ کے لیے ٹھہرادے گا کہ جہاں اترنے والے پھر کوچ نہیں کیا کرتے اورنہ ان کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور نہ انہیں گھڑی گھڑی خوف ستاتا ہے، نہ بیماریاں ان پر آتی ہیں، نہ انہیں خطرات درپیش ہوتے ہیں اورنہ انہیںسفر ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتے ہیںنہج البلاغہ۔ خطبہ۱۰۷
وضاحت کے طورپر عرض ہے کہ خلود اور جاوید انگی کا مسئلہ کوئی سادہ مسئلہ نہیں۔ بلکہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، جو انسانوں کے لیے ایک عظیم انتباہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی جگہ ایک کا عدد تحریرکریں اوراسکے پہلو میں بے انتہا دور تک صفر لگاتے چلے جائیں اور ان اَن گنت اعداد کے زریعے خلود کی انتہامعلوم کرنا چاہیں، تب بھی معلوم نہ کر سکیںگے۔
لہٰذا وہ مجرمین جن سے خدا نے دائمی آتشِ جہنم کا وعدہ کیا ہے انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں رہنا ہےاور ان کے مقابل ممتاز پاکیزہ بندگانِ خدا، جیسے ” عباد الرحمٰن“ جنہیں خدا عظیم دائمی جزا سے نوازے گا، انہیں یہ بات ذہن سے نکالنی چاہیے کہ انہیں ایسی دائمی جزا سے نوازا جائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگی۔
لہٰذا کیا یہ بات مناسب ہوگی کہ انسان دنیا کی چار روزہ زندگی سے دل لگا کر دائمی عذاب کا مستحق ہوجائے اور دائمی جزا وپاداش سے محروم رہے؟
کیا اس صورت میں ” نقد کو پکڑو، ادھار کو چھوڑو“ والی بات کوئی اہمیت رکھتی ہے جب انسان سستی چیز کو اس کے نقد ہونے کی وجہ سے منتخب کرکے اس کے مقابل بعد میں ملنے والے کروڑوں ٹن سونے کو چھوڑ دے؟
ایک دانشور کے بقول، بالفرضِ محال اگر آخرت کے امور احتمالی ہوں، اور دنیا کے امور یقینی، تب بھی عقلمند انسان احتمال کی کروڑوں صدیوں کو یقین کے چند سال پر فدا نہیں کرے گاجبکہ ہم مسلمان معاد اور آخرت پر عقیدہ رکھتے ہیںلہٰذا ہمیں فنا ہوجانے والے اور چند روزہ نقد کے مقابل ہمیشہ اور جاویداں ادھار کا انتخاب کرنا چاہیےاسی بنیاد پر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا تھا:
والعَجبُ کلّ العَجب للمصدّقِ بدارِا لخلُود، وھوَ یعملُ لدارِ الغُرور
انتہائی تعجب ہے ایسے شخص پر جو آخرت کے ہمیشہ رہنے والے ٹھکانے کی تصدیق کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس فریب اور فانی دنیا سے وابستگی اختیار کرتا ہےبحار الانوارج۷۸۔ ص۱۸۴
نیز فرمایا:
فَلا تعدّن عیشاً منصرفاً، مالَکَ منہُ الاّ لذَّۃُ تزدلف بکَ الیٰ حمامِکَ
فانی اور ناپائیدار زندگی کو زندگی نہ سمجھوتم نے کیوں دنیائے فانی سے (جو مجازی ہے اور) جس میں معمولی سی لذت کے سوا کچھ نہیں دل لگایا ہے، جبکہ یہ دنیا تمہیں موت سے نزدیک کررہی ہےبحار الانوارج۷۸ص۱۷۹
یعنی اس سو سالہ دنیا کی لذت وعیش ونشاط میں غرق ہونا اس وقت کیا فائدہ دے گا جبکہ اس کے نتیجے میں خدا کے دائمی عذاب کا مزہ چکھنا پڑے گاکیا اس طرح کے نقد کی لذت اس قدر اہم ہے کہ اس کی خاطر آخرت کی ہمیشگی اور دائمی لذت کو قربان کردیا جائے؟
۱۔ اس بارے میں تفسیر موضوعی قرآن ” پیامِ قرآن“ کی۔ ج۶۔ ص ۵۰۰، ۵۰۱ کا مطالعہ فرمایئے۔