عباد الرحمٰن کے اوصاف

قرآن کی نظر میں خوف اور اسکے مراتب

عباد الرحمٰن کے اوصاف   •   محمدی اشتهاردی

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں خوف وخشیت ِالٰہی کی اہمیت او رمختلف ابعاد میں اسکے درجات کا تذکرہ ہوا ہےمثال کے طور پر سورۂ سجدہ کی آیت سولہ میں، سچے اور حقیقی مومنین کی شان میں فرمایا گیا ہے:

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا

ان کے پہلو بستر سے جدا رہتے ہیں اور( قیام کی حالت میں خدا کی طرف رخ کرکے) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں۔ سورۂ سجدہ ۳۲آیت ۱۶

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خوف اور امید، خدا کے ان مخلص بندوں کی شب بیداریوں اور ان کے خدا سے مضبوط تعلق کا سبب اور وجہ ہیں اور یہ لوگ خوف اور امید کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔

سورہ ناز عات کی آیات نمبر چالیس اور اکتالیس میں ہے کہ:

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰى

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے، تو جنت اس کا ٹھکانہ اور مرکز ہےسورہ نازعات ۷۹ آیت ۴۰، ۴۱

اس آیت کی بنیاد پر، خوفِ خدا ترک ِگناہ کا مقدمہ ہے اور اسکا نتیجہ خدا کا اجرِ عظیم یعنی جنت ہے۔

اسی بات کو سورئہ رحمٰن کی چھیالیسویں آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے:

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ

اور جو شخص بھی اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے، اسکے لیے جنت میں دو باغات ہیںسورئہ رحمٰن ۵۵آیت ۴۶

جب ہم عظمت ِالٰہی کے سامنے خوف و ہراس سے متعلق آیات ِقرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اس خصلت کے بارے میں ایسے مختلف الفاظ اور تعبیرات کے ذریعے گفتگو کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف انسانوں کے خوف و ہراس کے درجات اور مراتب کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

مرحوم شیخ صدوؒق نے کتاب ” خصال“ میں قرآنِ کریم کی روشنی میں خوف کو پانچ اقسام میں قرار دیا ہے اور ان میں سے ہر قسم کے لیے ایک آیت کا ذکر کیا ہےیہ پانچ اقسام درج ذیل ہیں: ۱خوف ۲خشیت۳وجل۴رہبت ۵ہیبتاسکے بعد ان کے بار ے میں ذرا تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

خوف، گناہگاروں کے لیے ہے۔

خشیت، علما کے لیے ہے۔

وجل(دل کا خوفزدہ ہونا)، انکساری کے ساتھ تسلیم ہونے والوں کے لیے ہے۔

رہبت، عابدوں کے لیے ہے اور ہیبت کا تعلق عارفوں سے ہے۔

پھر ان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:خوف، گناہوں کی وجہ سے ہےخشیت، وظائف و فرائض کی انجامدہی میں کوتاہی کے احساس کی وجہ سے طاری ہونے والا خوف و ہراس ہےوجل اور قلبی خوف و ہراس، خدمت ترک کرنے کی وجہ سے ہے رہبت، عبادت میں تقصیر اور کوتاہی کے احساس کی وجہ سے ہےاور ہیبت، اسرار کے انکشاف کے وقت شہودِ حق کی وجہ سے خدا کے لامتنا ہی شکوہ وعظمت سے خوف و ہراس کا نام ہے(خصال۔ ج۱۔ ص۲۸۳)

خوف کے مراتب کے بارے میں ایک دوسرا موضوع یہ ہے کہ خوف شدت اور ضعف رکھتا ہےجوشخص خوف کے جس مرتبے کا حامل ہو۔ اسی کی مناسبت سے مقامات حاصل کرتا ہےوہ ہستیاں جو خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں، مثلاً انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی، ان میں خدا کا شدید ترین خوف پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ رات کے درمیانی حصے میں اپنی نمازوں اور مناجات کے دوران خوف ِخدا سے گریہ ونالہ وفغاں کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے بہنے والے شفاف آنسوئوں سے اپنی روح کو دھوتے ہیں، اور اپنے شوق و خوف کے آنسوئوں کے ذریعے اپنے پرزور احساسات کے ساتھ اپنی انتہائی تواضع اور کمالِ بندگی کا اظہار کرتے ہیں اس قسم کا گریہ وزاری اس قدر پسندیدہ اور قدر و قیمت کا حامل ہے کہ بقول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

مَنْ دَرَفَتْ عَیْنٰاہُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ، کٰانَ لَہُ بِکُلِّ قَطْرَۃٍ مِنْ دُمُوعِہِ مِثْلَ جَبَلِ اُحُدٍیَکُون فِی مِیزانِہِ فِی الأَجْرِ

جس کی آنکھ خوف ِخدا سے بہنے والے آنسوئوں سے تر ہوجائے، اسکے آنسوئوں کا ہر قطرہ روزِ قیامت اس کے میزانِ عمل میں احد کے پہاڑ کی مانند وزن رکھے گابحارالانوار۔ ج ۹۳ص ۳۳۴

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَلْبُکٰاءُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ مِفْتٰاحُ رَحْمَۃِ اللہِ

خوفِ خدا سے رونا، رحمت ِالٰہی کا دروازہ کھولنے کی کنجی ہے۔ غررالحکم