بے عفتی کے خلاف پیغمبر اسلام کا شدید موقف
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
پیغمبر اسلام معاشرے کی عفت وناموس کی حفاظت کے سلسلے میں انتہائی حساس تھےآپ ؐنے بارہا فرمایا کہ: کانَ ابراھیمُ اَبی غَیوراً وانا اَغْیَرُ مِنْہُ، وارْغَمَ اللّٰہُ انْفَ مَنْ لا یُغارُ (میرے باپ! ابراہیم بہت غیرت مند تھے اور میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوںخداوند ِعالم بے غیرت انسان کی ناک خاک پر رگڑ دیتا ہےبحار الانوارج۱۰۳ص۲۹۳)
اس حوالے سے درجِ ذیل دو قصے ملاحظہ فرمائیں:
۱مروان بن حکم کا باپ اور حضرت عثمان کا چچا حکم بن ابی العاص مہاجر مسلمان ہونے کے باوجود دوسروں کی عزت وناموس پر بری نظر رکھتا تھاایک روز اس نے مدینہ میں پیغمبر اکرم ؐکے گھر کے دروازے سے آنحضرت ؐکے گھر میں جھانکاآنحضرؐت کو اس کے اس گھناؤنے عمل کی خبر ہوگئی اور آپ ؐاس قدر ناراض ہوئے کہ آپ نے ایک کمان اٹھالی تاکہ اس کے ذریعے اسے تیر کا نشانہ قرار دیںلیکن وہ بھاگ کھڑا ہوا اور چھپ گیا(سفینتہ البحارج۱ص۲۹۳)
ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے خمیدہ سر کی ایک لاٹھی، جس کی نوک تیز تھی اٹھائی اور اسکے پیچھے دوڑے، وہ سر پٹ دوڑا اور آنحضرؐت کی پہنچ سے نکل گیاآنحضورؐ نے فرمایا: اگر وہ میرے ہاتھ آجاتا تو اس کی آنکھیں نکال لیتااس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ حکم اور اسکے بیٹے مروان کو جلا وطن کرکے طائف بھیج دیا جائے۔
یہ دونوں پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں اور پھر اسکے بعد حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کے ادوارِ خلافت میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرتے رہےلیکن حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں حضرت عثمان کی وساطت سے مدینہ لوٹ آئےحضرت عثمان پر مسلمانوں نے جو اعتراضات کیے ان میں سے ایک شدید اعتراض یہ تھا کہ آپ نے ان لوگوں کو واپس کیوں بلایا جنہیں پیغمبر اسلامؐ نے جلا وطن کیا تھا(الغدیرج۸ص۲۴۳، اسد الغابہج۲ص۳۳)
۲امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ ” ہیت“ اور ” ماتع“ نامی دو افراد مدینہ میں فضول اور بیہودہ باتیں کرتے پھرتے ہیں اور عورتوں کی خوبصورتی کے تذکرے کرکے اور لوگوں کو بیہودہ لطیفے سنا کر معاشرے میں عفت وپاکدامنی کے ماحول کو نقصان پہنچانے کی وجہ بن رہے ہیں آنحضرتؐ نے انہیں بلایا اور انہیں سرزنش کرنے کے بعد مدینہ سے (چند فرسخ کے فاصلے پر) ” العرایا“ نامی مقام پر جلا وطن کردیاانہیں کھانے پینے کی اشیا اور ضروریات ِزندگی کی خریداری کے لیے صرف جمعے کے دن مدینہ آنے کی اجازت تھیاس کے بعد وہ پھر ” العرایا“ واپس چلے جاتے تھے(بحار الانوارج۲۲ص۸۸ سے اختصار کے ساتھ)
اس طرح آنحضرتؐ نے انہیں تنبیہ کی اور آپؐ کے اس سخت موقف سے دوسروں کو یہ سبق ملا کہ وہ عفت وپاکدامنی کی حفاظت کرکے افرادِ معاشرہ کو جنسی گمراہی سے محفوظ رکھیں۔ ز
گناہ کی محفلوں میں شرکت سے پرہیز
قرآنِ کریم، سورئہ فرقان میں بیان کی گئی خدا کے خاص بندوں کی بارہ صفات میں سے نویں صفت کے بارے میں فرماتا ہے کہ: وَالَّذِيْنَ لَا يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ (یہ لوگ جھوٹی گواہی (اور گناہ کی محفلوں میں شرکت) سے پرہیز کرتے ہیںسورئہ فرقان۲۵آیت۷۲)
یہ خدا کے خاص بندوں کی ایک ممتاز صفت ہے، جو دوسروں کے حقوق کا لحاظ رکھنے اور ہر قسم کے فضول، بیہودہ اور باطل امور کی آلودگی سے بچنے کا باعث ہوتی ہے، نیز اپنی اصلاح کے لیے وقت سے مفید استفادے کے سلسلے میں بہترین کردار ادا کرتی ہے۔
” زُوْرَ“ کے معنی ہیں حق سے انحرافیہ معنی متعدد امور مثلاً باطل، دروغ، حرام موسیقی اور ظلم وستم پر صادق آتے ہیں، لیکن روایات کی بنیاد پر یہ لفظ اکثر جھوٹ، تہمت، بیہودہ موسیقی کی محفلوں اور باطل محافل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
” شہادتِ زُور“ جس کی مذکورہ بالا آیت میں ممانعت کی گئی ہے اور جسے ترک کرنا خدا کے ممتاز بندوں کی امتیازی خصوصیت قرار دیا گیا ہے، مفسرین نے اس کے دو معانی بیان کیے ہیںممکن ہے مذکورہ آیت میں یہ دونوں ہی معنی مراد ہوں۔
۱یہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتےجس چیز کو حق نہیں سمجھتے اسکی تصدیق نہیں کرتےباطل امور کی تائید نہیں کرتے۔
۲یہ لوگ عیاشی اور باطل ساز وآواز کی محفلوں میں شرکت نہیں کرتےاور اپنی شرکت کے ذریعے ان فضول اور بیہودہ محفلوں اور ان کا انعقاد کرنے والوں کی تائید نہیں کرتے۔
ان معنی کو پیش نظر رکھیں تو اس آیت میں دو بڑی تباہ کن اور ناپسندیدہ دینی اور سماجی آفات سے پرہیز کی تلقین کی گئی ہےاگر کوئی معاشرہ ان آفات میں مبتلا ہوجائے، تو یہ اس معاشرے کی سلامتی، اسکے اچھے روابط وتعلقات اور اس میں عدل وانصاف کے لیے سنگین نقصان کا باعث ہوں گی اور اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کو گمراہی کی خطرناک راہوں پر لے جائیں گی۔
لہٰذا ان دونوں معانی کی تشریح ضروری ہے، تاکہ ان دونوں گناہوں اور بڑی آفات کی خرابی ہمارے سامنے واضح ہوجائے۔
جھوٹی گواہی سے پرہیز
جھوٹی گواہی یا کسی ناحق بات کی تائید تہمت کہلاتی ہے جو ایک گناہِ کبیرہ اور حقوق العباد کی خلاف ورزی ہے اور جسے آیات وروایات کی زبان میں بہتان کہا گیا ہے، جو گناہ پر گناہ کا اضافہ ہےکیونکہ یہ جھوٹ بھی ہے اور اس کی گواہی دینا حق کو باطل اور باطل کو حق ظاہر کرنا ہےاس طرـح یہ عمل دوسروں کے حقوق کی پامالی کا باعث بنتا ہے۔
جھوٹی گواہی اس قدر ناپسندیدہ اور فتنہ وفساد انگیز عمل ہے کہ قرآنِ کریم نے اسکا ذکر بت پرستی کے ساتھ کیا ہے اور شدت کے ساتھ اسکی ممانعت کی ہے، فرمانِ الٰہی ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (لہٰذا تم ناپاک بتوں سے پرہیز کرتے رہو اور جھوٹی گواہی سے اجتناب کرتے رہوسورئہ حج۲۲آیت۳۰)
تہمت اور بہتان جو جھوٹی گواہی بھی ہے، ایمان پر اس قدر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے کہ بقول امام جعفر صادق علیہ السلام: اذا اتّھَمَ المؤْمِنُ اَخَاہُ، انمات الایمانُ فی قلبِہِ، کما یَنماتُ الملحُ فی الماء (اپنے برادرِ ایمانی پر تہمت لگانے والے شخص کے دل سے ایمان اس طرح گم ہوجاتا ہے جیسے پانی میں نمک غائب ہوجاتا ہےوسائل الشیعہج۸ص۶۱۳)
یہی وجہ ہے کہ کسی کے لیے نقصاندہ ثابت ہونے والی تہمت پر خدا کی طرف سے انتہائی سخت سزا اور شدید عذاب ِآخرت ہےابن یعفور نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایسا شخص جو کسی مومن مرد یا عورت پر تہمت لگائے اور اُسکی طرف کوئی ایسی صفت منسوب کرے جو اُس میں نہ پائی جاتی ہو، تو خداوند ِعالم اسے روز ِقیامت بدبودار پانی سے نکالے گا(وسائل الشیعہج۸ص۶۰۳)
ظاہر ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن انتہائی کریہہ چہرے اور غلیظ ونفرت انگیز بدبو کے ساتھ لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔
رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: مَنْ شَھِدَ شَھَادَۃَ زور عَلی رجُلٍ مسلمٍ اوذِمّیٍ اوْمَن کان مِن النّاس غُلّق بلسانہِ یوْمَ القیامۃِ وھُوَ مع المُنافقین فی الدّرکِ الاسْفَلٍ مِنَ النّارِ (ایسا شخص جو کسی مسلمان یا ذمی کافر یا کسی بھی انسان کے بارے میں جھوٹی گواہی دے گا روزِ قیامت اُسکی زبان باندھ دی جائے گی اور وہ منافقین کے ساتھ دوزخ کے نچلے ترین طبقے میں ہوگابحار الانوارج۷۶ص ۳۶۴)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا ہے: مَنْ بَھَتَ موْمناً اوْ موْمنۃً اوقالَ فیہِ ما لَیْسَ فیہ، اقامَہُ اللہ یَومَ القیامَۃِ عَلی تلٍّ مِنْ نارٍ حتّی یخْرُجَ ممّا قالَ فیہ (ایسا شخص جو کسی مومن مرد یا مومنہ عورت پر تہمت لگائے، یا اُن سے کوئی ایسی چیز منسوب کرے جو اُن میں نہ پائی جاتی ہو تو خداوند ِعالم ایسے شخص کو روزِ قیامت اُس وقت تک آگ کے ایک ڈھیر پر ٹھہرائے رکھے گا جب تک وہ اِس تہمت سے (جس پر تہمت لگائی گئی ہے اسکے راضی ہونے کی وجہ سے) بری نہ ہوجائےوسائل الشیعہج۸ص۶۰۳، ۶۰۴)
ایک روز رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے سامنے کفار کی جانکنی کی سخت کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: عزرائیل، کافر کے سامنے آگ کی ایک سیخ لائیں گے اور اس کے ذریعے اسکے جسم سے اسکی روح نکالیں گے اور اس موقع پر جہنم ایک چیخ بلند کرے گاحضرت علی ؑنے دریافت کیا: اے اﷲ کے رسولؐ! کیا آپ کی امت میں کوئی ایسا شخص ہے جس کی روح اس قدر اذیت ناک طریقے سے قبض کی جائے گی؟ آنحضرتؐ نے جواب دیا: نَعَمْ، حاکِمُ جابر، وآکِلُ مالِ الیَتیمِ ظُلماً، وَشاھدُ زُورٍ(ہاں، (میری امت کے تین قسم کے لوگوں کی روح اس طرح قبض کی جائے گی) ظالم حکمراں کی، یتیم کا مال ناحق کھانے والے کی اور جھوٹی گواہی دینے والے کیتحف العقولج۱ص۷۰)
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جھوٹی گواہی کئی قسم کی ہوتی ہے، مثلاً سیاسی الزام تراشی، عزت وناموس پر بہتان باندھنا، مالی اور اقتصادی معاملات میں بدعنوانی کی تہمت لگانا وغیرہ وغیرہان تہمتوں اور جھوٹی گواہیوں میں سیاسی تہمت اور کسی کی عزت پامال کرنا ناقابل معافی اور انتہائی بڑا گناہ ہےکیونکہ یہ عمل انتہائی برے اور تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے، اور محترم ومعزز افراد کی عزت ووقار کو نقصان پہنچانے کا موجب ہو کر افراد اور معاشرے کے لیے انتہائی ناپسندیدہ نتائج کا باعث بنتا ہے۔
بعض خاص مواقع، مثلاً انتخابات کے موقع پر اِس قسم کی الزام تراشیوں کا رواج عام ہےاِس عمل کا کم از کم ازالہ یہ ہے کہ تہمت لگانے والا انسان ان تمام لوگوں کے اذہان صاف کرے جنہوں نے اُسکی لگائی ہوئی تہمت سنی ہے اور کھلم کھلا اپنے جھوٹ کا اعتراف کرے اور اس بات کا اعلان کرے کہ جس پر اُس نے یہ الزام لگایا تھا وہ اس سے بری اور منزہ ہے۔
قارون نے ایک عورت کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تہمت لگانا چاہیلیکن اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اس تہمت سے محفوظ رکھا اور قارون پر اِس قدر غضبناک ہوا کہ زمین کو حکم دیا کہ وہ قارون اور اسکے مال ودولت کو نگل جائے اور زمین نے خدا کے اس حکم کی تعمیل کی(ان نکات کا مطالعہ سورئہ قصص کی آیت نمبر اکیاسی میں کیا جاسکتا ہے)
اسی طرح کسی کی عزت وناموس پر الزام لگانا بھی ایک بڑا گناہ اور سنگین عَقاب کا باعث ہےیہاں تک کہ یہ عمل آخرت کے شدید عذاب کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سخت سزا کا موجب ہےجیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ:
وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ فراہم نہیں کرتے، انہیں اَسّی کوڑے لگاؤ اور پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرنا اور یہ لوگ سراسر فاسق ہیںسورئہ نور۲۴آیت۴
اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی انسان کسی پاکدامن عورت کی عزت وناموس کے بارے میں کوئی ناروا بات کہے، چاہے اس نے سچ ہی کہا ہو، اُسے چاہیے کہ اسکے لیے چار گواہ بھی لائے، وگرنہ مجرم کے طور پر اَسّی کوڑے کھانے کو تیار رہےیہ وہی ” حد“ ہے جو اسلامی فقہ میں ” حدِ قذف“ کے نام سے معروف ہے اور جو زنا یا لواط کا الزام لگانے والے پر جاری کی جاتی ہےاگر یہ الزام چار مرتبہ لگایا جائے اور ہر مرتبہ کے بعد اس کے لگانے والے پر حد جاری ہو، تو چار مرتبہ کے بعد ایسے شخص کو موت کی سزا دینے کا حکم ہے(تحریر الوسیلہج۲ص۴۷۶۴۷۹)
جھوٹی گواہی کی کچھ اور صورتیں بھی ہیںمثلاً بعض فحش کلامی، گالم گلوچ، جیسے ایک شخص دوسرے شخص سے کہے کہ تو زنا زادہ یا حرام زادہ یا ایامِ حیض کی پیدائش ہےیہ تہمتیں گناہانِ کبیرہ میں سے ہیں اور اگر قاضی کے سامنے ثابت ہوجائیں تو ایسی تہمت لگانے والے شخص کو قاضی کے حکم سے سزا دی جائے گی۔
اس گفتگو کو مکمل کرنے کی غرض سے ایک دلچسپ اور سبق آموز قصہ نذرِ قارئین ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک دوست تھا، جو ہمیشہ آپ کے ہمراہ ہوا کرتا تھاایک روز اُس دوست نے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے امام جعفر صادق کے ایک غلام سے کہا: اے زنازادے! تو کہاں تھا؟ امام جعفر صادق اپنے دوست کی اس بد زبانی پر اس قدر ناراض ہوئے کہ اُسکی پشت پر ایک زور دار ہاتھ مارا اور فرمایا: سبحان اﷲ! کیا تم اسکی ماں کو زانیہ قرار دے رہے ہو؟ میں تو سمجھتا تھا کہ تم متقی اور پرہیز گار شخص ہوآج مجھے پتا چلا کہ تم بے تقویٰ ہواُس نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤ! اِس غلام کی ماں کا تعلق سندھ سے ہےوہ مشرک تھی اور اِسی مشرکانہ زندگی میں اُس کے بطن سے اِس غلام نے جنم لیا ہے، لہٰذا یہ غلام زنازادہ ہےامام ؑنے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ہر قوم میں شادی بیاہ کا ایک قانون ہوتا ہے؟ تم میری نظروں سے دور ہوجاؤ، اب مجھے کبھی نظر نہ آنا۔
وہ بدزبان شخص امام ؑکے پاس سے چلا گیا اور پھر آپؑ عمر بھر اس سے نہ ملے(اصولِ کافیج۲ص۳۲۴)
بیہودہ محفلوں میں شرکت سے پرہیز
جن چیزوں پر جھوٹی گواہی کا عنوان صادق آتا ہے، اُن میں سے ایک ناشائستہ اور بیہودہ محفلوں میں شرکت اور ان میں حاضری ہےزیرِ بحث آیت میں اِس عمل کا ترک کرنا خدا کے ممتاز اور خاص بندوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہےکیونکہ ایسی محفلوں میں شرکت اور موجودگی ایک طرح سے باطل کی تائید اور لہو لعب کی ان محافل کو رونق بخشنا ہے۔
اسی طرح، عام طور پر گناہ کے کاموں میں مشغول رہنے والے غیر صالح افراد کی ہم نشینی بھی جھوٹی گواہی کی ایک قسم ہےکیونکہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا اُن کے عمل کی تائید اور گناہ کے کاموں میں اُن کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے، ماسوا اسکے کہ جب نہی عن المنکر کا فریضہ اس بات کا تقاضا کرے کہ انسان ان مجالس میں شرکت کرے اور ان محفلوں کا ماحول بدل دینے کا ذریعہ بنے۔
قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر لہو ولعب کی محافل میں شرکت سے منع کیا گیا ہےمثلاً اِس آیت میں ہے کہ:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللہِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَہْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖٓ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ
اور اس نے کتاب میں یہ بات نازل کردی ہے کہ جب کچھ لوگوں کے بارے میں یہ سنو کہ وہ آیات ِالٰہی کا انکار کررہے ہیں اور اُن کا مذاق اڑا رہے ہیں، تو خبردار ان کے ساتھ ہر گز نہ بیٹھنا، جب تک وہ دوسری باتوں میں مصروف نہ ہوجائیں، وگرنہ تم انہی کی مانند ہوجاؤ گےسورئہ نساء۴آیت۱۴۰
اسی طرح کی گفتگو سورئہ انعام کی آیت نمبر ۶۸ میں بھی کی گئی ہے۔
ایک روز امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ کانَ یؤمِنُ باللّٰہِ والیَومِ الآخِر فلا یَجْلِسُ فی مَجْلسٍ یُسَبً فِیہِ امامُ اوْیُغْتَابُ فیہِ مُسْلمُ (جو شخص خدا اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ ایسی مجلس میں نہیں بیٹھتا جس میں امامِ حق کو برا بھلا کہا جاتا ہے، یا وہاں کسی مسلمان کی غیبت کی جاتی ہےاسکے بعد امام نے اس آیت (سورئہ انعام۶آیت۶۸) کی تلاوت فرمائی کہ:
وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖ وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ
اور جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری نشانیوں کے بارے میں بے ربط بحث کررہے ہیں، تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ، یہاں تک کہ وہ دوسری بات میں مصروف ہوجائیں اور اگر شیطان غافل کردے تو یا دآنے کے بعد پھر ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھنا)(بحار الانوارج۷۵ص۲۴۶)
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
لا یَنبغی للمؤمن ان یَجْلسَ مجلِسٖاً یُعْصَی ﷲ فیہِ، ولا یَقْدِرُ عَلیٰ تَغْییرہ
مومن کے لیے کسی ایسی محفل میں شرکت مناسب نہیں جس میں خدا کی نافرمانی ہوتی ہو اور وہ مومن اِس محفل میں تغیر لانے کی قدرت نہ رکھتا ہواصولِ کافیج۲ص۳۷۴
تاریخ میں ہے کہ دوسرے عباسی خلیفہ منصور دوانیقی نے اپنے ایک بیٹے کی ختنہ کے موقع پر ایک پُرشکوہ شاہانہ محفل کا انعقادکیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کو بھی اس میں مدعو کیا، یہاں تک کہ آپ اس محفل میں شرکت پر مجبور ہوگئےجب کھانے کا دستر خوان لگایا گیا تو اچانک امام ؑکی نظر پڑی کہ دستر خوان پر شراب کے برتن بھی رکھے جارہے ہیں آپ ؑیکلخت اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے، اور انتہائی غیظ وغضب کے عالم میں ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اس دستر خوان اور اس کے گرد بیٹھنے والوں کے بارے میں فرمایا: مَلْعُونٌ مَنْ جَلَس عَلی مائدہٍ یُشْربُ علیھَا الْخَمْر (ایسا شخص ملعون ہے جو کسی ایسے دسترخوان پر بیٹھے جس پر شراب پی جارہی ہوفروع کافیج۶ص۲۶۷)
نتیجہ اور خلاصہ
قرآن کریم، پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکی تعلیمات و فرامین کی رو سے ہر مسلمان اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ حق کی تائید اور اسکی حفاظت ودفاع کے لیے کوشاں رہے اور معاشرے کو خدا اور دینی باتوں کی طرف دعوت دےاس فریضے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ کسی صورت جھوٹا گواہ نہ بنےیعنی نہ تو جھوٹی گواہی دے اور نہ گناہ کی تائید اور حوصلہ افزائی کا باعث بنےجیسا کہ قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ: وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کروسورئہ مائدہ۵آیت۲)
اس بات کی جانب متوجہ رہنا بھی ضروری ہے کہ جھوٹی گواہی کی صورتوں میں سے ایک صورت ساز وآواز اورگانے بجانے کی محفلوں میں شرکت ہےجیسا کہ خوشی کی بعض محافل بالخصوص شادی بیاہ کی محفلوں میں معمول ہےایسی محفلوں میں حاضری اور ان میں شرکت حرام ہے اور فسق وفجور کی تائید اور حرام اعمال کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہےخدا کی نظرمیں پسندیدہ بندے اس قسم کی محفلوں میں شرکت سے لازماً گریز کرتے ہیںیہاں تک کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک گفتگو کے دوران فرمایا: وَمَن لم یَحْکُم بما انزَل ﷲ کان کمَنْ شَھِدَ شھادۃَ زورٍ، ویَقْذِفُ بِہِ فی النّار ویُعَذِّبُ بعَذابِ شاھِدِ زُورٍ (وہ شخص جو خدا کے نازل کیے ہوئے (قرآنِ مجید) کے مطابق فیصلہ نہ کرے جھوٹی گواہی دینے والے شخص کی مانند ہےایسے شخص کو دوزخ میں پھینکا جائے گا اور اُسے جھوٹی گواہی دینے والے کا عذاب دیا جائے گابحار الانوارج۷۶ص۳۶۷)
ایک حدیث میں ہے کہ عبد الاعلیٰ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا: یہ آیت جس میں فرمایا گیا ہے کہ: وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(سورئہ حج۲۲آیت۳۰) اس سے کیا مراد ہے؟ امام ؑنے فرمایا: الغنا (یعنی حرام موسیقی مراد ہے)(بحار الانوارج۷۹ص۲۴۵)
نیز امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہونے والی بہت سی روایات کے مطابق، زیرِ بحث آیت ” وَالَّذِیْنَ لَا یَشُھَدُوْنَ الزُّوْر“ میں لفظ ” زُوْر“ سے مراد، غنا (یعنی حرام موسیقی) ہےاور اِن حضرات نے اِس آیت کے ضمن میں فرمایا ہے کہ: خدا کے ممتاز بندے فاسقوں کی محافل میں شرکت اور باطل اور بیہودہ محفلوں میں حاضری سے پرہیز کرتے ہیں(نور الثقلینج۴ص۴۱)