پیغمبر اسلام ؐاور ائمۂ اطہارؑ کے کلام میں خوف کی اہمیت
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
اس بات کے پیش نظر کہ عظمت ِالٰہی کے مقابل خوفزدہ ہونا تہذیب و تکامل کا ایک قوی عامل ہے اور اگر کسی میں یہ خصلت قوی اور راسخ ہوجائے تو وہ اس انسان کے راستے سے راہِ کمال کی ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور کردیتی ہےپیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کلام میں اس خصلت کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور خوف ِخدا نہ رکھنے کی مذمت کی گئی ہےمحترم قارئین کی توجہ اس سلسلے میں رسولِ مقبول ؐاور ائمہ اطہارؑ کے چند اقوال کی جانب مبذول کراتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
اَعْلَی النّٰاسِ مَنْزِلَۃً عِنْدَاللہِ اخْوَفُھُمْ مِنْہُ
خدا کے نزدیک لوگوں میں اعلیٰ وارفع مقام کے حامل افراد وہ لوگ ہیں جو ان میں سے زیادہ خوف ِخدا رکھتے ہیںبحارالانوارج ۷۷۔ ص۱۸۰
امیر المومنین حضرت علی علیہ اسلام نے فرمایا:جب قیامت برپا ہوگی تو منادیٔ حق ندا دے گا کہ:
ایُّھَاالنّٰاسُ اِنَّ اَقْرَبَکُمُ الْیُوْمُ مِنَ اللہِ اَشَدُکُمْ مِنْہُ خَوْفاً
اے لوگو! آج بارگاہِ خدا میں تم سب سے مقرب ترین شخص وہ ہے جو دنیا میں دوسروں سے زیادہ خدا کی عظمت سے خوفزدہ تھابحارالانوارج ۷۸۔ ص۴۱
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
لٰایَکُونُ الْعُبُدُ مُؤْمِنًا حَتّیٰ یَکُونَ خٰائفاً رٰاجِیاً
کوئی بندۂ خدا اس وقت تک ایمان کے درجۂ کمال تک نہیں پہنچتا، جب تک اس میں خوف اور امید کی خصلتیں نہ پائی جاتی ہوںبحارالانوارج ۷۰۔ ص ۳۹۲
البتہ یہ بات واضح ہے کہ سچا خوف وہ ہوتا ہے جو اطاعت اور ترک ِمعصیت کا موجب بنے اور اسکی علامات عمل سے ظاہر ہوں، جبکہ جھوٹا خوف کھوکھلا اور غیر موثر ہوتا ہے۔
اسی بنیاد پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ عَرَفَ اللہَ خَافَ اللہَ، وَمَنْ خٰافَ اللہَ سَخَتْ نَفْسُہُ عَنِ الدُّنْیٰا
جو شخص خدا کی معرفت رکھتا ہے، وہ اس سے خوف کھاتا ہے، اور جوشخص خوف ِ خدا رکھتا ہے، وہ دنیا کا شیفتہ نہیں ہوتااصول کافیج ۲ص ۶۸
امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی کا کہنا ہے کہ میں نے امام سے عرض کیا: بعض لوگ گناہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کی رحمت سے (مغفرت کی) امید رکھتے ہیں ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی خیال رہتا ہے، یہاں تک کہ موت ان کے سرپر آپہنچتی ہے (اور وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیںکیا انہیں اُن کی اِس امید کا کوئی نتیجہ حاصل ہوگا؟ )
امام ؑنے فرمایا: اس قسم کے لوگ، ایسے افراد جو اپنی آرزئوں ہی میں مگن رہتے ہیں، یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیںیہ لوگ (دراصل) امید وار نہیں ہوتےجوشخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے؟ اس کا طلبگار ہوتا ہے، اور جو شخص کسی چیز سے ڈرتا ہے، اس سے گریز کرتا ہے (اس خصلت سے عاری یہ لوگ درحقیقت خدا سے روگرداں ہیں اور عذاب کے موجبات، جوگناہ ہیں، کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں)(اصولِ کافی ج۲۔ ص۶۸)
امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:
لاٰخَوْفَ کَخَوْفِ حٰاجِزٍ، وَلاٰ رَجٰاءَ کَرَجٰاء مُعِینٍ
کوئی خوف، اس خوف کی مانند گراں قیمت نہیں جو گناہ سے باز رکھتا ہےاور کوئی امید اس امید سےگراں قدر نہیں جو (توبہ اور عواملِ نجات کے سلسلے میں) مدد گار ہوتی ہےبحارالانوارج ۷۰۔ ص۱۶۴
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
اَلْعَجَبْ مِمَّنْ یَخَافُ الْعِقٰابَ فَلَمْ یَکِفَّ، وَرَجَا الثَّوابَ فَلَمْ یَتُبْ
باعث ِتعجب ہے وہ شخص جو عذاب ِالٰہی سے ڈرتا ہے لیکن اپنے آپ کو گناہوں سے باز نہیں رکھتا اور ثواب وپاداشِ الٰہی کی امید رکھتا ہے لیکن توبہ نہیں کرتابحارالانوارج ۷۷۔ ص ۲۳۷
امام حسین علیہ السلام ” دعائے عرفہ“ میں ایک مقام پر خدا سے عرض کرتے ہیںکہ:
اَللَّھُمَّ اجْعَلْنی اَخْشاکَ کَاَنِّی اَرَاکَ
بارِالٰہا! مجھے اپنی بارگاہ میں ایسا خائف بنادے کہ گویا میںتجھے دیکھ رہا ہوں۔