تجزیہ اور تحلیل
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف ” صبر“ کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا اور ہر قسم کے دباؤ اور سختی کو برداشت کرنا نہیں ہےاس قسم کے معنی سے عاجزی اور تظلم (یعنی ظلم کو قبول کرنا) جھلکتا ہے، جس سے اسلام سختی کے ساتھ روکتا ہےبلکہ صبر کے اصل معنی امور کی انجام دہی کے لیے مضبوط عزم وارادے اور مسلسل اور لازوال ثابت قدمی کے ساتھ کام کو جاری رکھنا ہے۔
” مجمع بحرین“ نامی لغت میں صبر کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: الصَّبْرُ کَفُّ النَّفس عَنْ ھَواھا (صبر یعنی نفس کا نفسانی خواہشات سے پرہیز کرنا، یعنی نفسِ امارہ کے طاغوت کے خلاف جنگ کرنااور ” المنجد“ نامی لغت میں ہے کہ: صَبراً عَلَی الامْر: جَرءَ وشَجَعَ وتَجلّدَ (کسی چیز پر صبر کے معنی ہیں اس کے بارے میں جرأت، شجاعت، ثابت قدمی اور شکست کو قبول نہ کرنا)
یہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم نے آیات ِقرآنی میں صبرو استقامت کو مجاہدین راہِ خدا کے لیے ایک بڑی شرط قرار دیا ہے:
اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
اگر اُن میں سے بیس افراد صابر ہوئے، تو وہ دو سو افراد پر غالب آجائیں گے اور اگر سو افراد ہوئے، تو وہ ایک ہزار افراد پر غلبہ حاصل کرلیں گےسورئہ انفال۸آیت۶۵
یعنی ایک صابر انسان دشمن کے دس افراد کو زیر کرسکتا ہےاگر صبر کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہوں تو ایسا صبر کبھی انسان کو یہ قوت فراہم نہیں کرتا کہ وہ دس افراد کے مقابل کھڑا ہوکر انہیں شکست دیدے۔
اسی طرح قرآنِ کریم میں صبر کو ضعف وکمزوری کے مقابل قرار دیا گیا ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ صبر کے معنی استقامت اور پیہم جدوجہد ہے، جو ضعف وسستی کی ضد ہےلہٰذا خداوند ِعالم فرماتا ہے:
وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا وَاللہُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ
اور بہت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں جن کے ہم رکاب ہوکر مردانِ الٰہی کے جمع کثیر نے اس انداز سے جنگ کی ہے کہ یہ لوگ راہِ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں سے نہ کمزور ہوئے اور نہ بزدلی کا اظہار کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلت کا مظاہرہ کیا اور اﷲ صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنے والوں ہی کو پسند کرتا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۶
قرآن کریم میں دو سو سے زائد مرتبہ مسئلۂ صبر کو مختلف الفاظ اور بعض اوقات لفظ ” استقامت“ کے ذریعے بیان کیا گیا ہے(۱) اور اس کے نتائج کا ذکر کیاگیا ہےاس نکتے سے صبر واستقامت کی انتہائی بلند اہمیت کا اظہار ہوتا ہےان آیات کے ذریعے مجموعی طور پر یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ صبر واستقامت کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں اس کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ خداوند ِعالم فرماتا ہے: اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (بس صبر کرنے والے ہی وہ لوگ ہیں جنہیں بے حساب اجر دیا جاتا ہےسورئہ زمر۳۹آیت۱۰)
پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
الصَّبْرُ خَیْرُ مَرْ کَبٍ مٰا رَزَقَ اللّٰہُ عبْداً خَیْراً لَہُ وَلٰا أَ وْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ
صبر بہترین سواری ہےخداوند ِعالم نے اپنے کسی بندے کو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع تر روزی عطا نہیں کی ہےبحار الانوارج۸۲ص۱۳۹
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو کے ضمن میں فرمایا ہے:
عَلَیْکُمْ بِالصَّبْرِ، فانَّ الصَّبْرَ مِنَ الایمانِ کَالرّاسِ مِن الْجَسَدِ
تمہیں چاہیے کہ صبر واستقامت سے کام لو، کیونکہ صبر کو ایمان سے ویسی ہی نسبت حاصل ہے جیسی نسبت سر کو بدن سے ہےنہج البلاغہکلمات ِقصار۸۲
ان عبارتوں سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کی تعمیر، تکمیل اور اسے پاک وپاکیزہ بنانے میں صبر واستقامت انتہائی اہم کردار کا حامل ہےاور اسکے بغیر انسان ہر گز کمال حاصل نہیں کرسکتا اور آلودگیوں سے نجات نہیں پاسکتامولانا جلال الدین رومی کے بقول:
صد ہزار کیمیا حق آفرید
کمیائی ہمچو صبر آدم نہ دید
(خدا نے لاکھوں کیمیا پیدا کیے ہیں، لیکن صبر کی طرح کا کوئی کیمیا انسان نے نہیں دیکھا)
۱معجم المفہرس لالفظ القرآن الکریم، لفظ ” صبر“ اور ’قوم“ کے ضمن میں ملاحظہ فرمایئے۔