ہر طرح کے شرک سے پرہیز
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
سورۂ فرقان میںخدا وند رحمٰن کے خاص اور ممتاز بندوں کی چھٹی خصوصیت، ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ: وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ (اور وہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔ سورۂ فرقان ۲۵آیت ۶۸) یعنی یہ لوگ خالص توحید کی صراطِ مستقیم پر ہیں اور ہر قسم کے شرک اور شرک آلود عبادات سے پرہیز کرتے ہیں۔
تمام انبیائے کرام نے اپنی دعوت کا آغاز، لوگوں کو توحید کی طرف بلانے اور ہر قسم کے شرک کی نفی سے کیاہےتوحید، آسمانی ادیان کی عظیم الشان عمارت کا سنگ ِبنیاد ہےانبیا کی زیادہ ترجد و جہد مشرکین کے خلاف اور ان کی سرنگونی کے لیے رہی، اور ان مقدس حضرات نے اس راہ میں کٹھن مشکلات کا سامنا کیاانہوں نے اپنی آخری سانس تک شرک اور مشرکین کے خلاف جنگ لڑی، اور ان کا اصل اور حقیقی مقصد توحید کی بنیاد پر ایک انسانی معاشرے کی تشکیل تھا۔
توحید کی مختلف اقسام کی مانند، شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں انبیا، آسمانی کتب اور ائمہ ٔ معصومین نے لوگوں کے سامنے توحید کی تمام اقسام کو واضح کیا ہےاسی طرح انہوں نے شرک کی مختلف شاخوں کی بھی وضاحت کی ہے اور لوگوں سے تقاضا اور مطالبہ کیاہے کہ وہ توحید کے سیدھے راستے پر چلیں، ایک ایسا راستہ جوہر قسم کے شرک سے پاک اور دور ہے۔
اگر چہ انبیا کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے لوگ شرک کی مختلف اقسام سے آلودہ تھے، لیکن اکثر لوگ ” عبادت میںشرک“ کے شکار تھے اور خدائے واحد کی پرستش و عبادت کی بجائے، دوسری اشیا، جیسے طرح طرح کے بتوں، سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش میں مصروف تھےیہی وجہ ہے کہ انبیا کی اکثر جدوجہد اس قسم کے شرک کے خلاف رہی۔
زیر بحث آیت (سورۂ فرقان کی آیت ۶۸) میں اگر چہ ہر قسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے لیکن اس میں بھی زیادہ تر ” عبادت میں توحید“ کا مسئلہ پیش نظر ہےکیونکہ عبادت میں خالص اور کامل توحید ہر قسم کے شرک سے پرہیز کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیلہٰذا آیت کہہ رہی ہے کہ: خداوند ِرحمٰن کے خاص بندوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ خالص توحید پرست ہیںکسی بھی صورت میں، بالخصوص عبادت میں، کسی کو خدا کا شریک اور ہمسر نہیں سمجھتےہر قسم کے جلی و خفی شرک اور شرک آلود امور سے اجتناب کرتے ہیںنورِ توحید کی کرنوں سے ان کا قلب منور ہے، اور چشمۂ توحید کے خالص اور شفاف پانی نے ان کی روح کو شرک کی غلاظتوں سے پاک کیا ہوا ہےبالفاظِ دیگر، یہ لوگ توحید میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور ان میںذرّہ برابر بھی شرک نہیں پایاجاتا۔
قرآنِ مجید میں دو سو سے زیادہ مرتبہ، شرک اوربت پرستی کی ممانعت اور غیر توحیدی رجحانات کی نفی اور انکار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہےچھتیس مرتبہ ” مُشْرِكِيْنَ“ کے لفظ کے ساتھ، مشرکوں کو سرزنش کی گئی ہے اور اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ خداوند ِعالم کا شدید اور سخت عذاب ان کا منتظر ہےمثال کے طور پر سورۂ توبہ کے آغاز میں ارشادِ الٰہی ہے: بَرَاۗءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ (جن مشرکین سے تم نے عہدوپیمان کیا تھا، اب ان سے خدا اور رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہےسورۂ توبہ ۹آیت ۱)
اسی سورے میں ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (مشرکین نجس اور ناپاک ہیں، پس مسجد الحرام کے نزدیک نہ آئیںسورۂ توبہ۹آیت۲۸)
ایک اور مقام پر ارشاد ہے: وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (اور جو بھی اللہ کا شریک بنائے گا، وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہےسورۂ نساء ۴آیت ۴۸)
نیز فرمانِ الٰہی ہے: وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا (اور جوخدا کا شریک قرار دے گا، وہ گمراہی میں بہت دور تک چلاگیا ہےسورۂ نساء ۴۔ آیت ۱۱۶)
اسی طرح حضرت لقمان کی زبانی ان کے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے: يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (اے بیٹا! خبردار کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا کہ شرک بہت بڑا ظلم ہےسورۂ لقمان ۳۱آیت ۱۳)