عباد الرحمٰن کے اوصاف

عارفانہ اور مخلصانہ عبادت

عباد الرحمٰن کے اوصاف   •   محمدی اشتهاردی

عبادت میں پایا جانے والا خلوص اور معرفت، اس میں تاثیر پیدا کرتا ہے اور اسی کے سائے میں انسان کمال کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔

اگر عبادت معرفت سے خالی ہوتو ایک بے جان جسم کی مانند ہے، بے سوچے سمجھے انجام دی جانے والی حرکات و سکنات اور ایک کھوکھلا عمل ہےاسی طرح اگر عبادت شرک آلود ہو، دکھاوے کے لیے انجام دی جائے تو شرک ِخفی کا موجب بن کر خدا سے تقرب کی بجائے اس سے مزید دوری کا سبب بن جائے گی اور نتیجے کے طور پر بے سود رہے گیاس کھوکھلے پھل کی مانند جس میں نہ صرف کوئی مفید خاصیت نہیں پائی جاتی بلکہ نقصان دہ بھی ہوجاتا ہے۔

عارفانہ عبادت ایسی عبادت کو کہتے ہیں جسے انسان خدا کی معرفت اور شناخت کے ساتھ انجام دیتا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے خدا کی عبادت کرتا ہے کہ وہی لائق عبادت ہے اور اسکی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا تقاضا ہے کہ اسی کی پرستش کی جائےایسا ہی شخص عبادت کے مغز اور اس کے فلسفے کو جانتا ہے اور اس کی روح اور فکر میں عبادت کی حقیقت جڑ پکڑ چکی ہوتی ہے، رچ بس گئی ہوتی ہے، اور وہ اس بلند اور رفیع الشان سوچ کے ساتھ رہوارِ عبادت پر سوار ہوکر ملٰکوت کی جانب پرواز کرتا ہے۔

اس جانب متوجہ کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :

بے شک ایک گروہ بہشت کی رغبت میں خدا کی عبادت کرتا ہے، یہ تاجروں کی عبادت ہےایک دوسرا گروہ آتشِ جہنم کے خوف سے خدا کی پرستش کرتا ہے، یہ غلاموں کی عبادت ہےجبکہ ایک اور گروہ خدا کی نعمتوں کے شکر میں اس کی عبادت بجالاتا ہے، یہ آزاد منش افراد کی عبادت ہے(نہج البلاغہ کلمات قصار ۲۳۷)

امام ؑکے اس قول سے ظاہر ہے کہ کامل اور عارفانہ عبادت، ایسی عبادت ہے جو صرف خدا کے لیے اور اس کی نعمتوں پر شکر کی غرض سے ہو۔

مخلصانہ عبادت، وہ عبادت ہے جو حضور قلب، اخلاص و صفا اور ہر قسم کے ریا اور خودنمائی سے پاک ہوصرف اور صرف خدا کے لیے ہومثال کے طور پر پانی مایۂ حیات ہےیہ خصوصیت صرف اسی پانی میں پائی جاتی ہے جو صاف و شفاف ہو جبکہ آلودہ پانی جس میں مختلف جراثیم کی آمیزش ہو، نہ صرف مایۂ حیات نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

ریا سے آلودہ اور غیر خالص عبادت، ایسے ہی آلودہ اور جراثیم بھرے پانی کی مانند ہے جبکہ مخلصانہ اور بے ریا عبادت، مثبت اور تعمیری آثار کی حامل اور انسان سازی اور انسانی کمال کا موجب ہوتی ہے۔

عبادالرحمن کی تیسری خصوصیت کو بیان کرنے والی زیر بحث آیت (یعنی سورۂ فرقان کی آیت نمبر۶۴) دو نکات پر مشتمل ہے:

۱خدا کے یہ مخلص بندے ہمیشہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیںعبادت ِالٰہی کے خوگر ہو کر مسلسل اسی میں مشغول رہتے ہیں اور متواتر قیام و سجود کے ذریعے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

۲یہ لوگ رات ڈھلے آرام دہ بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے راز و نیاز میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

آیت میں ان بندگان خدا کے راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کرنے کی جو بات بیان کی گئی ہے وہ ان کے اخلاص کو ظاہر کرنے کے لیے ہےیعنی یہ لوگ تاریکی ٔ شب میں، جب کسی بھی قسم کے دکھاوے اور ریا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی (یہ صورت ِحال عام طور پر رات کی تاریکی ہی میں پیدا ہوتی ہے) خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں۔

حقیقی اخلاص یہ ہے کہ عمل کے ارادے اور اس کی انجامدہی کا سبب صرف اور صرف اللہ رب العزت ہومرحوم فیض کاشانی کے بقول:اخلاص یہ ہے کہ انسان کی نیت ہر قسم کے شرک ِخفی اور شرک ِجلی سے پاک ہواس کے بعد سورۂ نحل کی چھیاسٹھویں آیت کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ:خالص دودھ وہ ہوتا ہے جس میں نہ ہی خون کے ذرات ہوں اور نہ ہی شکم کے اندر کی کسی غلاظت وغیرہ کا کوئی اثر اس میں پایا جاتا ہو، بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف ہوخالص نیت اور عمل بھی اسی طرح ہوتے ہیں، سوائے رضائے الٰہی کے کوئی اور محرک ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ (المحجتہ البیضا۔ ج ۸۔ ص۱۲۸)

قرآنِ کریم میں بارہا اخلاص، مخلصین، اورمخلّصین کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً ارشادِ باری ہے:

فَادْعُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ

اللہ کو پکارو اور اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروسورۂ غافر ۴۰آیت ۱۴

ایک دوسرے مقام پرپیغمبر اسلام کو خطاب کیا گیا ہے کہ

قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ

کہہ دیجئے کہ میں اس بات پر مامور ہوں کہ خدا کی عبادت کروں، اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروںسورۂ زمر۳۹۔ آیت ۱۱

قرآنِ مجید میں شیطان کی زبانی نقل ہوا ہے کہ وہ ضداور ہٹ دھرمی کے ساتھ خدا سے کہتا ہے کہ:

فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِيْنَ

تیری عزت کی قسم، میں تمام انسانوں کو گمراہ کردوں گا علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہوں نے خود کو خالص کرلیا ہوگا۔ سورۂ ص ۳۸۔ آیت۸۲، ۸۳

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

لاٰیَکُونُ الْعَبْدُ عَابِداً لِلہِ حَقَّ عِبَادتِہِ حَتّٰی یَنْقَطَعَ عَنِ الْخَلْقِ کُلَّہِ اِلَیْہِ، فِحینَئذٍ یَقُولُ ھَذَا خَالِصٌ لیِ فیَتَقَبَّلَہُ بَکرَمِہِ

کوئی عبادت گزار خدا کاحقِ عبادت ادا نہیں کرسکتا علاو ہ اس کے جو مخلوقات (پر بھروسہ کرنے) سے منھ موڑ کر صرف اسی (خدا) کی طرف متوجہ ہوتا ہےاس موقع پر خدا وند ِعالم فرماتا ہے: یہ شخص میرے لیے خالص ہوا ہےپس وہ اپنے کرم سے اسےقبول کرتا ہےمستدرک الوسائل ج۱۔ ص ۱۰۱

مختصر یہ کہ خدا وند ِرحمٰن کے منتخب اور پسندیدہ بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ عبادت کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں اور ہمیشہ، شب و روز خالص نیت اور محکم ارادے کے ہمراہ خدا کے راستے پر قدم بڑھاتے ہیں اور بندگی کے اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو دوسرے تمام مقامات کی بنیاد کا پتھر ہے۔

انبیاء، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی سب سے اوّلین خصوصیت یہ تھی کہ وہ خدا کے خالص اور مخلص بندے تھے اور اپنی اس صفت پر فخر کا اظہار کرتے اور اس میدان میں انتہائی سعی و کوشش میں مشغول رہتے تھےیہاں تک کہ مثلاً حضرت علی ؑاور امام سجاؑد کبھی ایک ایک رات میں ہزار ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور دوسری تمام عبادات کے دوران بھی اپنی انتہائی توانائیوں کے ساتھ کوشاں رہتے تھے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اگر تم خدا کی عبادت کی مٹھاس اور لذت کو جان لواور اس کی برکات کو دیکھ لو، اور اس کے نور کے سائے سے بہرہ مند ہوتو ایک لمحے کے لیے بھی اس سے دور نہ ہوہر چند تم عبادت کی مشقت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائوایسا شخص جو عبادت ِ الٰہی سے گریزاں ہے اس (صورتحال) کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ عصمت و توفیق کے ممتاز آثار و فوائد سے محروم ہے۔
(مصباح الشریعتہص ۵۵، بحارالانوار۔ ج ۷۰ص ۶۹)

اسی بنا پر آپ اپنے محترم اجداد کی مانند، اور پیغمبر اسلامؐ اور حضرت علیؑ کی پیروی میں خدا کی عبادت، اس سے رازونیاز اور مناجات کے ہر موقع سے استفادہ کرتے تھے۔

حسنِ اختتام کے طور پر قارئین کی توجہ درج ذیل قصے کی جانب مبذول کراتے ہیں:

ابن ابی یعفور کہتے ہیں:میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیے ہوئے فرمارہے ہیں: رَبِّ لَاتَکِلْنی إِلیَ نَفْسِی طَرْفَۃَ عَیْنٍ اَبَداً، لَااَقَلَّ مِنْ ذَالِکَ وَلَااَکْثَرَ (بارِ الٰہا ! مجھے کسی صورت پلک جھپکنے کے لیے بھی میرے اپنے حال پر نہ چھوڑدینا اور نہ ہی اس سے کم وقت کے لیے اور نہ اس سےزیادہ وقت کے لیے)

اس موقع پر میں نے دیکھا کہ آپؑ کی ریشِ مبارک کے دونوں اطراف سے آنسوئوں کے قطرے بہہ رہے ہیں۔

پھر آپؑ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:اے ابن ابی یعفور! خدا وند ِعالم نے پلک جھپکنے کے وقت سے بھی کم عرصے کے لیے (حضرت) یونس پیغمبر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور ان کے لیے وہ ماجرا (ترکِ اولیٰ اور مچھلی کے شکم میں چلے جانا۔۔۔ ۔ )پیش آیا تھا۔

ابن ابی یعفور نے کہا: کیا حضرت یونس کا معاملہ (نعوذ باللہ) کفر کی حد تک پہنچ گیا تھا؟

امام نے فرمایا:نہیں لیکن اگر کوئی بغیر توبہ کیے اس حال میں مرجائے تو ایسا شخص ہلاکت کی موت مرا ہے(اصولِ کافیج۲۔ ص۵۸۱)