جاذبہ ودافعۂ علی

پیش لفظ

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓءِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اﷲُ اِنَّ اﷲَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (سورۂ توبہ۹۔آیت۷۱)

اَلْمُنفِقُوْنَاٰا وَ الْمُنفِقٰتُاٰا بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِوَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ۔ (سورۂ توبہ۹۔آیت۶۷)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت اس قدر وسعتوں اورگوناگوں پہلوؤں کی حامل ہے کہ کوئی ایک فرد اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کر سکتا اور اس میں اپنی فکر کے گھوڑے نہیں دوڑا سکتا۔ ایک فردکی زیادہ سے زیادہ بساط یہ ہے کہ وہ آپ کی عظمت کے ایک یا چند مخصوص اور محدود پہلوؤں کو مطالعے اور غور و فکر کے لیے منتخب کرے اور اسی پراکتفا کرے۔

اس عظیم شخصیت کے وجود کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو انسانوں پر مرتب ہونے والا آپ کا مثبت یا منفی اثر ہے ۔ باالفاظِ دیگر آپ کے جاذبے اور دافعے (Attraction and Repulsion) کی عظیم قوت ہے، جو اب بھی فعال اور موثر کردار ادا کرتی ہے۔ اس کتاب میں اسی بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔

دوسرے انسانوں کی روحوں اور نفوس میں ردِّ عمل ایجاد کرنے کے حوالے سے ہر فرد کی شخصیت یکساں نہیں ہوتی۔ شخصیت جتنی حقیر ہو گی اتنی ہی کم اذہان کو اپنی طرف متوجہ کرے گی اور دلوں میں معمولی جوش و ولولہ ہی پیدا کر پائے گی۔ اسکے برعکس شخصیت جس قدر عظیم اور طاقتور ہو گی، اتنی ہی افکار کو جھنجوڑنے والی اور ردِّعمل پیدا کرنے والی ہو گی، چاہے یہ ردِّعمل موافق ہو یا مخالف ۔

فکر انگیز اور ردِّ عمل سازشخصیتوں کا ذکر زبانوں پر زیادہ آتاہے، وہ بحث و مباحثے اور اختلافِ نظر کا باعث بنتی ہیں، شعر وشاعری، مصوری اور فن کے دوسرے مظاہر کامو ضوع قرارپاتی ہیں، نیزداستانوں اور تحریروں میں انہیں ہیر و قرار دیا جاتا ہے۔یہ تمام چیزیں ہیں جوحضرت علی ؑ کے بارے میں بدرجۂ اتم موجود ہیں اوراس اعتبار سے شاید ہی کوئی ان کا رقیب ہو۔

کہتے ہیں کہ محمد ابن شہر آشوب مازندرانی، جو ساتویں صدی کے اکابرعلمائے امامیہ میں سے ہیں، جب اپنی مشہور کتاب ”مناقب“تالیف کر رہے تھے، تو اس وقت ان کی لائبریری میں مناقب کے نام سے ایک ہزار کتابیں موجود تھیں، جو سب کی سب حضرت علی ؑ کے بارے میں لکھی گئی تھیں۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولا علی ؑ کی عظیم شخصیت نے طولِ تاریخ کے دوران کتنے ذہنوں کو مشغول رکھاہے !

حضرت علی علیہ السلام اور نورِ حق سے روشن ایسی دیگر شخصیات کا بنیادی امتیازیہ ہے کہ وہ ذہنوں کو مشغول رکھنے اور افکار کو سرگرم رکھنے کے ساتھ ساتھ قلب و روح کو بھی نور و حرارت، عشق و نشاط اور ایمان و استحکام بخشتی ہیں۔

سقراط، افلاطون، ارسطو، بوعلی سینا اور ڈیکارٹ جیسے عظیم فلسفیوں نے بھی لوگوں کے فکر و خیال اور ان کے اذہان کو مشغول رکھا ہے۔خاص کر حالیہ دو صدیوں سے تعلق رکھنے والے سماجی انقلابات کے قائدین، لوگوں کے اذہان اپنی طرف متوجہ کرنے کے علاوہ اپنے پیروکاروں میں ایک طرح کا تعصّب بھی پیدا کر گئے۔ مشائخِ عرفان اپنے پیروکاروں کو بالآخر ”تسلیم“کے اس مرحلے تک پہنچادیتے ہیں کہ اگر پیر مغاں اشارہ کر ے تو وہ جائے نماز کو شراب سے رنگین کر دیں۔ لیکن ان میں سے کسی میں بھی ہمیں گرمی و حرارت کے ساتھ وہ نرمی و لطافت اور خلوص ورِقَّت نظر نہیں آتی، جو تاریخ حضرت علی ؑ کے پیروکار وں میں دکھاتی ہے۔ اگر صوفیہ نے درویشوں کے لشکرِجرار اور موثر مجاہدین تیار کئے ہیں، تو ایسا انھوں نے اپنے نام پر نہیں بلکہ علی ؑ کے نام پر کیا ہے۔

معنوی حسن اور زیبائی، جوخلوص و محبت کو جنم دیتی ہے، وہ علیحدہ بات ہے اورمعاشرتی قائدین کی خصوصیت دنیاوی ریاست، منفعت اور مصلحت، یا فلسفیوں کی متاع عقل اور فلسفہ، یا ایک عارف کا سرمایہ اقتدارو تسلط کا اثبات، وہ دوسری باتیں ہیں۔

مشہور ہے کہ بوعلی سینا کے شاگردوں میں سے ایک (بہمن یار) اپنے استاد سے کہا کرتا تھا کہ اگر آپ اپنی غیر معمولی فہم وفراست کی بنا پرنبوت کا دعویٰ کردیں تو لوگ اسے تسلیم کر لیں گے۔ یہ سن کر بو علی سینا خاموش رہا کرتے تھے ۔یہاں تک کہ ایک مرتبہ سخت سردیوں کے موسم میں دونوں کسی سفر پر ساتھ تھے ۔صبح کے قریب بوعلی سینا نیند سے بیدار ہوئے، انھوں نے اپنے اس شاگرد کو جگاکر کہاکہ: مجھے پیاس لگی ہے، تھوڑا سا پانی لادو۔ شاگرد بہانے بنانے اور عذر تراشنے لگا۔ بوعلی سینا کے تمام تراصرار کے باوجود شاگردشدید سردی میں اپناگرم بستر چھوڑنے پر تیار نہ ہوا۔اُسی وقت گلدستۂ اذان سے مؤذّن کی صدا بلند ہوئی :اَﷲُاَکْبَرُ۔اَشْہَدُاَنْ لا اِلٰہَ اِلاَّاﷲُ۔ اَشْہَدُاَنَّ مُحَمَّداًرَسولُ اﷲِ۔

بوعلی نے اپنے شاگر د کو جواب دینے کے لیے موقع مناسب سمجھا اوراس سے کہا کہ تم توکہتے تھے کہ اگر میں نبوت کا دعویٰ کروں تو لوگ مجھ پرایمان لے آئیں گے۔ اب دیکھو! میری موجودگی میں تومیرا حکم تم پر چلتا نہیں جبکہ تم نے سالہا سال میرے دروس سے کسبِ فیض کیا ہے، میرا تم پر اتنا بھی اثر نہیں ہے کہ تم مجھے پانی پلانے کے لیے ایک لحظے کو اپنا بستر چھوڑدو لیکن یہ مؤذّن چارسو سال بعد بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنا گرم بسترچھوڑ کر اس بلندی پر جاکر اللہ کی وحدانیت اور آنحضرؐت کی رسالت کی گواہی دے رہا ہے، تم نے دیکھا کہ مجھ میں اور آنحضرت میں کتنا فرق ہے؟

جی ہاں ! فلسفی شاگردتیار کرتے ہیں نہ کہ پیروکار ۔سماجی رہنما متعصب پیروکارپیدا کرتے ہیں نہ کہ مہذّب انسان ۔قطب ومشائخِ عرفان اربابِ تسلیم پیدا کرتے ہیں نہ کہ سرگرم مؤ من مجاہد۔

حضرت علی علیہ السلام میں فلسفی، انقلابی رہنما، پیرِ طریقت اور پیغمبروں جیسی خصوصیات یکجا ہیں ۔علی ؑ کا مکتب، مکتبِ عقل و فکر بھی ہے، مکتبِ ہیجان و انقلاب بھی ہے، مکتبِ تسلیم بھی ہے، مکتبِ نظم و ضبط بھی اور مکتبِ حسن و زیبائی اور جذبہ و حرکت بھی۔

حضرت علی علیہ السلام دوسروں کے لیے ایک عادل امام ہونے اور دوسروں کے لیے عدل و انصاف کا پیکر ہونے سے پہلے، خود اپنی ذات میں ایک متعادل اور متوازن شخصیت تھے۔ انہوں نے انسانیت کے جملہ کمالات کو اپنی ذات میں یکجا کرلیا تھا۔آپ دور رس فکر اور عمیق تفکر کے ساتھ انتہائی لطیف و مہربان احساسات کے حامل تھے۔ان میں جسم و روح کے کمالات بیک وقت موجود تھے۔راتوں کو عبادت کے دوران اللہ کے سواہر شئے سے ان کا رشتہ کٹ جاتا اور دن کو معاشرتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔دن کے وقت انسانی آنکھیں علی ؑ کی ہمدردیا ں اور قربانیاں دیکھتیں، ان کے کان علی ؑ کے وعظ و نصیحت اور حکیمانہ باتیں سنتے اور رات کے وقت ستاروں کی آنکھیں ان کے بندگی کے آنسو ؤں کا مشاہدہ کرتیں اور گوشِ فلک ان کی عشق میں ڈوبی ہوئی مناجات سنتا۔ وہ مفتی بھی تھے اورفلسفی بھی، عارف بھی تھے اور سماجی رہنما بھی، زاہد بھی تھے اور مجاہد بھی، قاضی بھی تھے اور مزدور بھی، خطیب بھی تھے اور ادیب بھی ۔غرض آپ ہر لحاظ سے تمام تر خوبصورتیوں کے مالک ایک انسانِ کامل تھے۔

زیرِ نظرکتا ب اُن چارتقاریرکامجموعہ ہے جو۱۸تا۲۱ماہِ رمضان المبارک۱۳۸۸ہجری (۱۹۶۸ء) حسینیہ ارشاد میں کی گئی تھیں ۔ یہ کتاب ایک مقدمے اور دو حصوں پر مشتمل ہے ۔مقدمے میں عمومی طور پر جذب و دفع کے قانون اور خصوصی طور پر انسانوں کے جاذبے اور دافعے کے اصول کے بارے میں بحث کی گئی ہے ۔حصۂ اوّل میں حضرت علی علیہ السلام کے اس (دلوں کو مسخر کر لینے والے) ابدی جاذبے کو موضوع قرار دیا گیا ہے اور اسکے فلسفے، افادیت اورآثار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔دوسرے حصے میں حضرت کے اس طاقتور دافعے (Repulsive Force) کے بارے میں وضاحت اور تشریح کی گئی ہے، کہ وہ کس قسم کے عناصر کوسختی سے مسترد کرکے انہیں آپ سے دور کردیتا تھا ۔

یہ بات ثابت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام دو طاقتیں رکھتے تھے، اور جو بھی اُن کے مکتب میں پروان چڑھنا چاہتا ہے، اسکے لیے بھی ان دونوں طاقتوں کا حامل ہوناضروری ہے۔

اس بات کے پیشِ نظر کہ کسی کے حضرت علی علیہ السلام کے مکتب سے وابستہ ہونے کے لیے اُس میں صرف ان دو طاقتوں کا ہونا کافی نہیں ہے، اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ حتیٰ الامکان واضح کیا جاسکے کہ حضرت علی ؑ کا جاذبہ کس قسم کے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا اور ان کا دافعہ کس قماش کے لوگوں کو مسترد کرتا تھا۔

افسوس! ہم میں سے بعض افراد، جو اُن کے مکتب کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں، اُن لوگوں کو دفع کرتے ہیں جنہیں علی ؑ جذب کرتے ہیں اوراُن لوگوں کو جذب کرتے ہیں جنہیں علی ؑ دفع کرتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام کے دافعے کے باب میں صرف خوارج کے بارے میں گفتگوپر اکتفا کیا گیاہے، حالانکہ اور بھی گروہ ہیں جو دافعۂ علی ؑ میں شامل ہیں ۔شاید کسی اور موقع پر اور کم از کم کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اسکے دیگر نقائص کے ساتھ اس نقص کا بھی ازالہ کر دیا جائے۔

اِن تقریروں کی اصلاح اور تکمیل کی زحمت فاضل بلند قدر جناب آقائے فتح اﷲ امیدی نے برداشت کی ہے ۔نصف کتاب موصوف کے قلم سے ہے جس کو ٹیپ شدہ کیسٹوں سے نقل کر کے انھوں نے ازسرِنوتحریر کیا ہے اور کہیں کہیں اصلاح یا تکمیل کی ہے ۔ نصفِ دیگر میرے اپنے الفاظ ہیں یا موصوف کی اصلاح کے بعد میں نے خود بعض چیزوں کا اضافہ کیا ہے ۔امید ہے کہ مجموعی طور پر یہ کاوش مفید اورسبق آموزثابت ہوگی۔ہم خداوندِ متعال سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت علی ؑ کے سچّے پیروکاروں میں قراردے۔

تہران ۔۱۱ اسفند ۱۳۴۹ ہجری شمسی

مطابق ۴ محرم الحرام۱۳۹۱ ہجری قمری (۲ مارچ۱۹۷۱ء)

مرتضیٰ مطہری

 

مقدمہ

قانونِ جذب و دفع

”جذب ودفع“(Attraction and Repulsion) کا قانون ایک عمومی قانون ہے، جوپورے نظامِ خلقت میں کار فرما ہے ۔آج علمی حلقوں کے نزدیک یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کائنات کا کوئی ذرّہ کشش کے عمومی قانون کی عملداری سے خارج نہیں، بلکہ ہر ذرّہ اس کا پابند ہے ۔کائنات کے بڑے سے بڑے اجرام و اجسام سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ذرّات تک میں کشش اور جاذبے کے نام سے یہ پوشیدہ قوت پائی جاتی ہے اوروہ کسی نہ کسی طرح اس قوت کے زیرِاثر ہیں ۔

اگلے وقتوں کا انسان دنیا میں موجود اس عمومی جاذبے(کشش) سے آگاہ نہیں تھا ۔تا ہم وہ بعض اجسام میں موجودکشش سے واقف تھا اور بعض چیزوں جیسے مقناطیس اور آسمانی بجلی کو اس کا مظہر سمجھتا تھا۔ البتہ وہ دوسری تمام اشیا کے ساتھ ان کے جاذبی تعلق سے واقف نہ تھا ۔بلکہ یہ جانتا تھاکہ مقناطیس اورلوہے، بجلی اورگھاس پھونس میں(موجودرابطہ عمومی نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان)ایک مخصوص قسم کا ربط ہے:

ذرّہ ذرّہ کاندر این ارض و سماست
جنسِ خودرا ہمچو کاہ و کہرباست

اس زمین و آسمان کا ہر ذرّہ اپنی جگہ گھاس پھونس اور برق کی مانند ہے ۔

اس سے آگے بڑھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انہوں نے تمام جمادات کے درمیان قوتِ کی بات نہیں کی ہے، بلکہ صرف زمین کے بارے میں بحث کی ہے کہ وہ کس طرح افلاک کے درمیان ٹھہری ہوئی ہے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ زمین آسمان کے بیچ معلق ہے اور کشش یا جاذبے کی قوت اسے ہر سمت سے اپنی طرف کھینچ رہی ہے، اور کیونکہ یہ قوت ہرجانب سے اسے کھینچ رہی ہے، لہٰذا زمین عین درمیان میں کھڑی ہے اور اس کا جھکاؤکسی ایک طرف نہیں ہوتا ہے۔بعض کا عقیدہ تھا کہ آسمان زمین کو اپنی طرف نہیں کھینچتا بلکہ اسے اپنے سے دور دھکیلتا ہے اور کیونکہ زمین پر پڑنے والایہ دباؤ تمام اطراف سے مساوی ہے، نتیجتاًزمین ایک خاص نقطے پر ٹھہری ہوئی ہے اور اپنی جگہ نہیں بدلتی ۔

وہ سب لوگ نباتات اور حیوانات میں بھی جا ذبے اور دافعے کی قوت کوتسلیم کرتے تھے، وہ اس طرح کہ اُن کے لیے تین بنیادی قوتوں غاذیہ، (طلبِ غذا کی قوت ) نامیہ (نشو و نما کی قوت ) اور مولدہ (پیداکرنے کی قوت ) کومانتے تھے تھے، اور قوۂ غاذیہ کے لیے چند فرعی قوتوں جاذبہ، دافعہ، ہاضمہ اور ماسکہ (روکنے کی قوت ) کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ معدے کے اندر جذب کی ایک قوت پائی جاتی ہے جو غذاکو اپنی طرف کھینچتی ہے اور بسا اوقات جس غذا کو مناسب نہیں سمجھتی اسے مسترد کردیتی ہے(۱) اسی طرح وہ کہتے تھے کہ جگر میں جذب کرنے کی ایک قوت ہے، جو پانی کو اپنی طرف کھینچتی ہے:

معدہ نان رامی کشد تا مستقر
می کشد مرآب راتّف جگر(۲)

۱۔ البتہ آج کل جسم کی ساخت کو مشین کی مانند سمجھا جاتا ہے، اور دفع یا مسترد کرنے کے عمل کو فضلہ (Waste) بنانے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۔معدہ کھانے کو اور جگر پانی کو ان کے ٹھکانوں تک کھینچ کرلے جاتا ہے ۔