خوارج کی نمایاں خصوصیات
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
خوارج ایک خاص طبیعت کے مالک تھے ۔ اُن میں اچھائیاں اور بُرائیاں دونوں ہی موجود تھیں۔ مجموعی طور پر اُن کی طبیعت ایسی تھی کہ آخرِ کارحضرت علی ؑ کے دشمنوں کی صف میں شمار ہونے لگے اور حضرت علی ؑ کی شخصیت نے اُنہیں ”جذب“ کرنے کی بجائے ”دفع“کیا ۔
ہم اُن کی طبیعت کے مثبت اور خوبصورت پہلوؤں اور اسی طرح اُن کے منفی اور ناپسندیدہ پہلوؤں کاذکر کریں گے، جنہوں نے مل کر اُنہیں خطرناک بلکہ وحشت ناک بنا دیا تھا۔
*۔ وہ مجاہدانہ اور فداکارانہ طبیعت کے مالک تھے اور اپنے عقیدے اور نظرئیے کی راہ میں جان توڑ کوشش کرتے تھے۔ خوارج کی تاریخ میں ہم ایسی فداکاریاں دیکھتے ہیں جن کی نظیر حیاتِ انسانی کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اس فداکاری اور ایثار نے اُنہیں دلیر اور طاقتور بنا دیا تھا۔
ابن عبد ربّہ ان کے بارے میں کہتا ہے:
وَلَیْسَ فِی الْاَفْراقِ کُلِّھاأشَدُّ بَصاءِرَمِنَ الْخَوارِجِ، وَلاأَشَدُّ اجْتِھاداً، وَلا أَ وْطَنُ أَنْفُساً عَلَی الْمَوْتِ مِنْھُمُ الَّذی طُعِنَ فَأَنْفَذَہُ الرُّمْحُ فَجَعَلَ یَسْعیٰ اِلیٰ قاتِلِہِ وَیَقولُ:وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبٌ لِتَرْضیٰ۔
تمام فرقوں میں کوئی فرقہ خوارج سے زیادہ اپنے عقیدے میں پختہ اور کوشش کرنے والا کوئی نہ تھا ۔کوئی نہیں ملتا جو اُن سے زیادہ مرنے پر تیار رہتا ہو، اُن میں سے ایک کے نیزہ لگا، نیزے کا یہ زخم کاری تھا، اسکے باوجود وہ اپنے قاتل کی طرف بڑھتا جاتاتھا اور کہتا جاتا تھا کہ: خدایا! میں تیری طرف بڑھ رہا ہوں تاکہ تو خوش ہو جائے۔ (۱)
معاویہ نے ایک شخص کواُسکے خارجی بیٹے کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے واپس لے آئے ۔ لیکن باپ اپنے بیٹے کو اسکے ارادے سے باز نہ رکھ سکا۔ آخر اس نے کہا: بیٹا ! میں تیرے نو عمر بچے کو لاتاہوں، تاکہ تو اسے دیکھے اور تیری محبتِ پدری بیدار ہو اور تو دست بردار ہو جائے۔ اُس نے کہا: خدا کی قسم! میں اپنے بیٹے سے زیادہ ایک کاری ضرب کا مشتاق ہوں۔(۲ )
*۔ وہ عبادت گزار اور زاہد لوگ تھے۔ راتیں عبادت میں بسر کرتے تھے، دنیا اور اسکی زیب و زینت سے اُنہیں کوئی رغبت نہ تھی۔ جب حضرت علی ؑ نے اصحابِ نہروان کو نصیحت کی غرض سے اُن کے پاس ابن عباس کوبھیجا توواپس آنے کے بعداُنہوں نے ان الفاظ میں ان کی خصوصیات بیان کیں :
لَھُمْ جِباہٌ قَرِحَۃٌ لِطولِ السُّجودِ وَاَیْدٍ کَثَفَناتِ الْاِبِلِ عَلَیْھِمْ قُمُصٌ مُرَحَّضَۃٌ وَھُمْ مُشَمِّرونَ۔
بارہ ہزار آدمی ہیں جن کی پیشانیوں پر کثرتِ عبادت کی وجہ سے نشان پڑ گئے ہیں، خدا کے حضور سجدے کرتے ہوئے، اُنہوں نے اس کثرت سے اپنے ہاتھ تپتی ہوئی خشک ریت پررکھے ہیں کہ وہ اونٹ کے پیروں کی مانند سخت ہوگئے ہیں۔ اُنہوں نے پرانے اورگھسے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں لیکن ٹھوس عزم و ارادے کے مالک لوگ ہیں۔ (۳ )
خوارج اسلام کے احکام اور ظواہر کے سخت پابند تھے ۔جس چیز کو گناہ سمجھتے تھے اُسے ہاتھ نہ لگاتے تھے ۔اُن کے اپنے معیارstandard) (تھے، جن کی وہ خلاف ورزی نہیں کرتے تھے، اورجس سے کوئی گناہ سرزد ہوتا اس سے ناخوش رہتے تھے ۔
زیاد بن ابیہ نے اُن کے ایک آدمی کو قتل کر دیا۔ اسکے بعد اسکے غلام کو بلوا کر اسکے حالات معلوم کیے ۔اس نے کہا: نہ تو میں نے دن کو کبھی اُسے کھانا پہنچایا اور نہ رات اسکے لیے بستر لگایا۔ وہ دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات عبادت میں گزاردیتا تھا۔ (۴ )
وہ جو بھی قدم اٹھاتے اُسکی بنیاد اُن کا عقیدہ ہوتاتھا، تمام افعال میں اصول پسند تھے اور اپنے عقائد کی ترویج کے لیے کوشاں رہتے تھے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے بارے میں فرمایاہے :
لا تَقْتُلُواالْخَوارِجَ بَعْد ی فَلَیْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَاَخْطأَ ہُ کَمَنْ طَلَبَ الْباطِلَ فَاَدْرَکَہُ۔
میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا، کیونکہ جو حق کی تلاش کرتے ہوئے بھٹک جائے، وہ اُسکی طرح نہیں ہے جو باطل کو چاہے اور اسے پالے ۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ۵۹)
یعنی اُن میں اور اصحابِ معاویہ میں فرق ہے۔یہ لوگ حق کو چاہتے ہیں، لیکن بھٹک گئے ہیں، جبکہ وہ شروع سے ہی دھوکے باز رہے ہیں اور اُن کا راستہ ہی باطل ہے ۔ اگر تم اسکے بعد اُنہیں قتل کروگے، تو اس کا فائدہ معاویہ کو پہنچے گا، جو ان سے بدتر اور زیادہ خطرناک ہے ۔
قبل اسکے کہ ہم خوارج کی تمام خصوصیات بیان کریں، ضروری معلوم ہوتاہے کہ یہاں ایک نکتے کا ذکر کردیں(یہ نکتہ خوارج کے تقدس و تقویٰ اور ان کی زاہد مآبی کے بارے میں ہے) وہ نکتہ یہ ہے کہ حضرت علی ؑ کی زندگی کی حیران کن، نمایاں، غیر معمولی اور بے نظیر خصوصیات میں سے ایک، آپ کا وہ دلیرانہ اور شجاعانہ اقدام ہے جو آپ نے ان تنگ نظر اور مغرور زاہدانِ خشک کے مقابلے میں اٹھایا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے ان بظاہراصلاح یافتہ، آراستہ، حق بجانب نظر آنے والے چہروں اور گدڑی پوش عابدوں پر تلوار کھینچی اور انہیں موت کے گھاٹ اتارا ۔ اگر آپ کے اصحاب کی جگہ ہم ہوتے اور اس طرح کے چہرے دیکھتے، تو یقیناًً ہمارے جذبات بھڑک اٹھتے اور حضرت علی ؑ پر اعتراض کرتے کہ کیا ایسے لوگوں پر بھی تلوار اٹھائی جاتی ہے ؟!
تاریخِ تشیّع کی بالخصوص اور تاریخِ اسلام کی بالعموم، انتہائی سبق آموز داستانوں میں سے ایک یہی خوارج کی داستان ہے۔حضرت علی ؑ بھی اس اعتبار سے اپنے اس کام کی اہمیت اور اسکے غیر معمولی پن سے واقف تھے، لہٰذا اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فَاَنَا فَقَأْتُ عَیْنَ الْفِتْنَۃِ وَلَمْ یَکُنْ لِیَجْتَرِئَ عَلَیْھااَحَدٌغَیْری بَعْدَاَنْ ماجَ غَیْھَبُھا وَاشْتَدَّکَلَبُھا۔
میں ہوں جس نے اس فتنے کی آنکھ پھوڑ ڈالی ہے ۔میرے علاوہ کسی میں اسکی جرأت نہ تھی، جبکہ اسکی تاریکی اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والی موجویں تہ و بالا ہو رہی تھیں اور اسکی دیوانگی میں شدت آ چکی تھی ۔ ( نہج البلاغہ۔ خطبہ۹۱ )
اس عبارت میں امیر المومنین ؑ کی دو دلچسپ تعبیر یں موجود ہیں :
ایک اس معاملے کا شک اور شبہ پیدا کرنا ۔خوارج کی مقدس وضع و قطع اور اُن کا ظاہری تقویٰ ایسا تھا جو راسخ الایمان مومن کو شک و شبہے میں مبتلا کر دیتا تھا ۔لہٰذا ایک تاریک، مبہم اور شک و شبہے سے بھرپور فضا وجود میں آ گئی تھی ۔
دوسری تعبیر میں آپ نے ان خشک مقدسین کی حالت کو کَلَب (کاف اور لام پر زبر) سے تشبیہ دی ہے ۔کَلَب یعنی وہ دیوانگی جو کُتّے میں ایک جرثومے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور وہ ہر ایک کو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے ۔ اس بیماری میں مبتلا کتے کے دانت جس انسان یا حیوان کے جسم میں پیوست ہوجائیں، اور یہ چیز لعابِ دہن کے ذریعے انسان یا حیوان میں داخل ہو جائے، تو وہ انسان یا حیوان بھی اس پاگل پن میں مبتلا ہو کر دوسروں کو کاٹ کر انہیں بھی دیوانہ بناتا ہے۔اگر یہ صورتِ حال جاری رہے، تو غیر معمولی طور پر خطر ناک ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحبانِ عقل ایسے کتوں کو فوراً مارڈالتے ہیں، تاکہ کم از کم دوسرے دیوانگی کے خطرے سے محفوظ رہ سکیں۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ لوگ پاگل کتے کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اور قابلِ علاج نہیں رہے تھے، وہ دوسروں کو کاٹ کر اُنہیں بھی دیوانگی میں مبتلا کرکے دیوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کر رہے تھے ۔
اس وقت کے مسلمان معاشرے کی حالتِ زار پر افسوس، جہاں ہٹ دھرم، جاہل، بے خبر، بے دماغ مقدسین کا مختصر گروہ اپنی ضد پر قائم رہتے ہوئے جس پرچاہتا پل پڑتاتھا ۔ کس میں قوت تھی جو ان بے قابو سانپوں کا مقابلہ کر سکے؟ وہ کونسی قوی اور طاقتور شخصیت ہے جو ان زاہد اور متقی دکھائی دینے والے چہروں کے سامنے ٹھہر سکے؟ وہ کونسا ہاتھ ہے جو ان کے سروں پر وار کے لیے اٹھے اوراس میں لرزش پیدا نہ ہو ؟
یہی وجہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ”وَلَمْ یَکُنْ لِیَجْتَرِئَ عَلَیْھااَحَدٌ غَیْری۔“ یعنی: ”میرے سوا کسی میں اس قسم کے اقدام کی جرأت نہ تھی“ ۔ علی ؑ کے سوااورعلی ؑ کی بصیرت اور علی ؑ کے راسخ ایمان کے سوا، خدا، رسول ؐ اور قیامت پر ایمان رکھنے والے کسی مسلمان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ ان پر تلوار اٹھائے ۔ایسے لوگوں کوکوئی عام مسلمان قتل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے لیے ایک عظیم افتخار کے طور پر کہتے ہیں : یہ میں تھا اور صرف میں، جس نے اِن خشک مقدسین کی طرف سے اسلام کولاحق اس بڑے خطرے کو محسوس کیا۔ اِن کی پیشانیوں پر پڑے گٹیّ، اِن کے زاہدانہ لباس، ہمیشہ ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنے والی اِن کی زبان، حتیٰ اِن کا محکم اور استوار عقیدہ بھی میری بصیرت کی راہ میں حائل نہ ہو سکا۔یہ میں تھا جس نے جان لیاتھا کہ اگر اِن کے قدم جم گئے، تویہ بقیہ سب لوگوں کوبھی اپنی بیماری میں مبتلا کر دیں گے اور دنیائے اسلام کو جمود، ظاہر پرستی، سطحیت اور جمود سے دوچار کردیں گے، یہاں تک کہ اسلام کی کمر جُھک جائے گی۔کیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایاتھاکہ دوگروہوں نے میری کمر توڑ ڈالی ہے، ایک لا ابالی عالم اور دوسرا مقدس نما جاہل۔
اس طرح حضرت علی علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر میں نے عالمِ اسلام میں موجود خوارج کی تحریک کا مقابلہ نہ کیا ہوتا، تو کوئی اور پیدا نہ ہوتا جس میں اس قسم کی جنگ کی جرأت ہوتی۔ وہ گروہ جن کی پیشانیوں سے کثرتِ سجود کی علامت نمایاں تھی اور جو (بظاہر) دیندار اور مذہبی، لیکن دراصل اسلام کی راہ میں رکاوٹ تھے، جو اپنے خیال میں اسلام کے مفاد میں کام کر رہے تھے لیکن درحقیقت اسلام کے حقیقی دشمن تھے، میرے سوا کوئی نہ تھا جو اِن کے ساتھ جنگ کر سکتا اور ان کا خون بہا سکتا، میں ہوں جس نے یہ کام کیا ۔
حضرت علی علیہ السلام کے اِس عمل نے بعد کے خلفا اور حُکاّم کے لیے بھی خوارج سے جنگ کو آسان کردیا ۔سپاہیانِ اسلام بھی اس لیے بلا چوں وچرا ان کے خلاف تلوار اٹھالیتے تھے کہ علی ؑ نے ان کے خلاف جنگ کی ہے۔ درحقیقت حضرت علی ؑ کی سیرت نے دوسروں کے لیے یہ راستہ کھول دیا کہ وہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر بظاہر نمازی، دیندار اور مقدس نما لیکن ایک احمق گروہ سے بر سر پیکار ہوں۔
*۔ خوارج جاہل اور نادان لوگ تھے ۔وہ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے حقائق کو نہیں سمجھتے تھے اور ان کی غلط تفسیر کرتے تھے۔ یہی کج فہمیاں آہستہ آہستہ اُن کے لیے ایک مذہب اور مسلک کی شکل اختیار کر گئیں، جس کے استحکام کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ شروع شروع میں ”نہی عن المنکر“کے اسلامی فریضے نے اُن کو یک گروہ کی شکل دی۔ اُن کا واحد مقصد ایک اسلامی سنت کو زندہ کرنا تھا۔
یہاں ہمیں کچھ دیر ٹھہر کر تاریخِ اسلام کے ایک نکتے پر گہرائی کے ساتھ غور کرناچاہیے:
جب ہم سیرتِ نبویؐ کامطالعہ کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ؐنے پورے تیرہ سالہ مکی دور میں کسی کو جہاد، حتیٰ دفاع کی اجازت بھی نہیں دی تھی، یہاں تک کہ مسلمان تنگ آ گئے اور ایک گروہ نے آنحضرت کی اجازت سے حبشہ کی طرف ہجرت اختیارکی۔ لیکن بہت سے لوگ یہیں رہے اور اُنہوں نے تکلیفیں برداشت کیں ۔ مدینہ ہجرت کے دوسرے سال، جہاد کی اجازت دی گئی۔
مکی دور، مسلمانوں نے تعلیم و تربیت لیتے گزارا، وہ اسلام کی حقیقت سے آشنا ہوئے، اسلامی تہذیب اُن کی روح کی گہرائیوں میں رچ بس گئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ پہنچنے کے بعد اُن میں سے ہر ایک اسلام کا حقیقی مبلغ واقع ہوا۔ اور جب رسولِ اکرؐم اُن کو اطراف و اکناف میں بھیجتے تو وہ اپنی ذمے داریوں سے بخوبی عہدہ بر آ ہوتے ۔جب وہ جہاد کے لیے روانہ ہوتے، تو اُنہیں اچھی طرح معلوم ہوتا کہ وہ کس مقصد اور نظرئیے کے لیے جنگ کر رہے ہیں ۔امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے الفاظ میں :
حَمَلوابَصاءِرَھُمْ عَلیٰ اَسْیافِھِمْ۔
وہ اپنی بصیرتوں، نیز روشن اور منظم افکار کو اپنی تلواروں پر اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ ( نہج البلاغہ ۔خطبہ۱۴۸ )
ایسی صیقل شدہ تلواریں اور ایسے ہی تعلیم یافتہ انسان تھے جو اسلام کے بارے میں اپنی ذمے داریاں ادا کرسکے۔جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی گفتگو دیکھتے ہیں، (جو چند سال پہلے تک }یعنی قبل از اسلام{ تلواراور اونٹ کے سوا کسی اور چیز سے واقف ہی نہ تھے) تو اُن کے با عظمت افکاراور اسلامی تہذیب دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں ۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ خلفا کے دور میں زیادہ تر توجہات فتوحات کی طرف مبذول ہو گئیں، اس بات سے غفلت برتتے ہوئے کہ دوسروں کے لیے اسلام کے دروازے کھولنے اور انہیں اسلام کی طرف لانے کے ساتھ ساتھ( بہرحال اسلام کے نظریۂ توحید اور اسکے نظامِ عدل و مساوات کی جاذبیت نے عرب اور عجم کو اسکی جانب جذب کیا )اسلامی تہذیب و تمدن کی تعلیم بھی دی جانی چاہیے تھی اور لوگوں کو اسلام کی روح سے گہرائی کے ساتھ آشنا کیا جانا بھی ضروری تھا۔
خوارج کی اکثریت عرب تھی اور اُن میں کچھ غیر عرب بھی تھے، لیکن وہ سب کے سب (چاہے عرب ہوں یاغیر عرب ) جاہل اور اسلامی تہذیب سے ناآشنا تھے، وہ اپنی تمام خامیوں کی طویل رکوع و سجود کے زورپر تلافی کرنا چاہتے تھے۔ حضرت علی ؑ اِن کے اسی مزاج کی عکاسی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جُفاۃٌ طَغامٌ وَعَبیدٌاَقْزامٌ، جُمِعوامِنْ کُلِّ اَوْبٍ وَتُلُقِّطوامِنْ کُلِّ شَوْبٍ، مِمَّنْ یَنْبَغی اَنْ یُفَقَّہَ وَیُؤَدَّبَ وَیُعَلَّمَ وَیُدَرَّبَ وَیُوَلّیٰ عَلَیْہِ وَیُؤْخَذَعَلیٰ یَدَ یْہِ، لَیْسوامِنَ الْمُھاجِرینَ وَالْاَنْصارِوَلامِنَ الَّذینَ تَبَوَّؤُاالدّارَوَالْایمانَ۔
وہ سخت مزاج رکھنے والے، بلندافکاراورلطیف احساسات سے عاری لوگ، پست، غلامانہ ذہنیت رکھنے والے اور اوباش افرادہیں، جو کونوں کھدروں سے اکھٹے ہوگئے ہیں اور ہر طرف سے چلے آئے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سب سے پہلے تعلیم کی ضرورت ہے، اُنہیں اسلامی آداب سکھائے جائیں، تاکہ یہ اسلامی علم و تمدن میں طاق ہو سکیں۔ ان پر کسی کو نگراں مقرر کیا جائے، جو ان کی کلائی پکڑ کر رکھے، نہ کہ یہ آزادی سے گھومیں پھریں اور تلواریں ہاتھ میں رکھیں اور اسلام کے بارے میں اظہارِ رائے کریں۔ ان کا تعلق نہ تومہاجرین سے ہے جنہوں نے اپنے گھروں کو اسلام کی خاطر ترک کیا اور نہ ہی یہ انصار ہیں جنہوں نے مہاجرین کو اپنے جوار میں قبول کیا ۔ (نہج البلاغہ ۔ خطبہ ۲۳۵ )
جاہل مسلک، مقدس نما طبقے کی پیدائش، جس کا ایک جزو خوارج بھی تھے، اسلام کے لیے انتہائی مہنگی ثابت ہوئی۔ خوارج سے قطع نظر جو تمام عیوب کے باوجود شجاعت اور فداکاری جیسی فضیلت سے بہرہ مند تھے، اسی گروہ میں سے کچھ اور ایسے لوگ پیدا ہوئے جن میں یہ ہنر بھی نہ تھا۔ اُن لوگوں نے اسلام کو رہبانیت اور گوشہ نشینی کی طرف کھینچا اور ظاہرداری اور ریاکاری کابازار گرم کیا ۔ یہ لوگ کیونکہ طاقت ور لوگوں پر آہنی تلواریں کھینچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے صاحبانِ فضیلت کے خلاف زبان کی تلوار استعمال کی ۔کافراورفاسق قرار دینے کا بازار گرم کیا اور ہر صاحبِ فضیلت کو بے دین کہنے کا رواج عام کیا ۔
بہر حال خوارج کی ایک نمایاں خصوصیت اُن کی جہالت اور نادانی تھی۔ اُن کی جہالت کا ایک مظہر قرآن کے ظاہر یعنی اسکے الفاظ اور اسکی جلد(cover) اوراسکے معنی کے درمیان فرق نہ کرنا ہے۔اسی لیے وہ معاویہ اور عمر و عاص کی ایک معمولی سی چال سے دھوکا کھاگئے ۔
ان لوگوں میں جہالت اور عبادت ساتھ ساتھ پائی جاتی تھی ۔حضرت علی ؑ ان کی جہالت کے خلاف جنگ کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کے زہد و تقویٰ اور عبادت کے پہلو کو ان کی جہالت کے پہلوسے جداکیا جائے۔ان کی عبادت، عین جہالت تھی۔ حضرت علی ؑ پہلے درجے کے اسلام شناس تھے، ان کی نظر میں ایسی عبادت کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی جو جہالت کے ہمراہ ہو۔ لہٰذا آپ نے ان کی سرکوبی کی، اور اُن کا زہد و تقویٰ اور عبادت حضرت علی ؑ کے مقابلے میں اُن کے لیے ڈھال ثابت نہ ہو سکی ۔
ایسے افراد اور گروہوں کی جہالت کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ مکّار و عیار لوگوں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں اور اسلام کی اعلیٰ مصلحتوں کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ بے دین منافق لوگ، ہمیشہ بیوقوف مقدّسین کو اسلامی اہداف کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور یہ لوگ ان کے ہاتھوں کی تلوار اور ان کے کمان کا تیر بن جاتے ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے ان کی اس حالت کو کس قدر اعلیٰ اور لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
ثُمَّ اَنْتُمْ شِرارُالنّاسِ وَمَنْ رَمیٰ بِہِ الشَّیْطانُ مَرامِیَہُ وَضَرَبَ بِہِ تیھَہُ۔
تم بدترین لوگ ہو۔تم شیطان کے ہاتھ کے تیر ہو، جوتمہارے ناپاک وجود کو اپنے نشانوں کے لیے استعمال کرتا ہے اور تمہارے ذریعے سے لوگوں کو سرگردانی، شک و شبہے اور گمراہی میں مبتلا کرتا ہے ۔ (نہج البلاغہ۔خطبہ ۱۲۵ )
ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ شروع شروع میں خوارج کی جماعت ایک اسلامی سنت کے احیا کی خاطر وجود میں آئی تھی، لیکن عدم بصیرت اور نادانی نے ان کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ وہ قرآنی آیات کی غلط تفسیر کرنے لگے اور یہیں سے اُنہوں نے ایک مذہب کی بنیاد ڈھونڈ نکالی اور ایک مذہب اورطرزِ حیات کے عنوان سے کچھ مواد ترتیب دیا۔
قرآنِ مجید کی ایک آیت میں ارشادِ خداوندی ہے:
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَ ہُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ۔ (سورۂانعام۶۔ آیت ۵۷)
اس آیت میں ”حُکم“ ذاتِ الٰہی کے لیے مخصوص قرار دیا گیا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حُکم سے مراد کیاہے ؟
بغیر کسی شک و شبہے کے یہاں حُکم سے مراد انسانی زندگی کا آئین اور اسکے قوانین ہیں۔
اس آیت کی رو سے قانون بنانے کا حق غیرِ خدا سے سلب کر لیا گیا ہے اوراسے خداوند عالم، یا جسے خداوند عالم نے اختیار دیا ہو اس کا حق قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن خوارج نے حُکم کو جس میں حَکمیت بھی شامل ہے، حکومت کے معنی میں لیا ۔ اور اپنے لیے ایک نعرہ وضع کیا اور کہنے لگے کہ: ”لاحُکْمَ اِلاّلِلّٰہِ۔“
ان کی مراد یہ تھی کہ قانون سازی کی طرح حکومت، حَکمیت اور رہبری کا حق بھی صرف خدا کے لیے مخصوص ہے اورجس طرح کسی اور کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں، اُسی طرح خدا کے سوا کسی کو حق نہیں کہ کسی صورت بھی لوگوں کے درمیان حَکم یاحاکم ہو۔
کبھی امیر المومنین علیہ السلام نماز میں مشغول ہوتے، یا منبر پر خطبہ دے رہے ہوتے، تو یہ لوگ نعرے لگاتے اورآپ سے مخاطب ہو کر کہتے : ” لاحُکْمَ اِلاّ لِلّٰہِ، لا لَک وَ لِاَصْحابِکََ۔“یعنی اے علی ؑ ! حاکمیت کا حق خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں، آپ اور آپ کے اصحاب کے لیے حکومت یاحَکمیت کرنا جائز نہیں ہے ۔ اس پر حضرت علی ؑ جواب دیتے کہ :
کَلِمَۃُ حَقٍّ یُرادُ بِھَاالْباطِلُ۔ نَعَمْ اِنَّہ لاحُکْمَ اِلاّ لَلّہِ وَلٰکِنْ ھَؤُلاءِ یَقولونَ لااِمْرَۃَ اِلاّلِلّہِ، وَاِنَّہُ لابُدَّلِلنّاسِ مِنْ اَمیرٍبَرٍّاَوْفاجِرٍیَعْمَلُ فی اِمْرَتِہِ الْمُؤُمِنُ وَیَسْتَمْتِعُ فیھَاالْکافِرُوَیُبَلِّغُ اﷲُ فیھَاالْاَجَلَ وَیُجْمَعُ بِہِ الْفَیْ ءُ وَیُقاتَلُ بِہِ الْعَدُوُّوَتَأْمَنُ بِہِ السُّبُلُ وَیُؤْخَذُبِہِ لِلضَّعیفِ مِنَ الْقَوِیِّ حَتّیٰ یَسْتَریحَ بَرُّوَیُسْتَراحَ مِنْ فاجِرٍ۔
ان کی بات حق ہے، لیکن اس سے ان کا جو مقصد ہے، وہ باطل ہے ۔یہ بات درست ہے کہ قانون سازی صرف خدا کاحق ہے، لیکن یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی کے لیے حکومت کرنااور امیر بنناجائز نہیں ۔ (جبکہ) لوگوں پر ایک حاکم ضروری ہے، خواہ وہ نیک ہو یا(اگرکوئی نیکوکارمیسّر نہ ہوتو) بد۔اسکی حکومت کے زیرِ سایہ مؤمن (خدا کے لیے)اپنا کام انجام دیتا ہے اور کافر اپنی دنیاوی زندگی سے بہرہ مند ہوتا ہے، یہاں تک کہ خدا وند عالم اس کا وقت پورا کردیتا ہے ۔ حکومت ہی کے ذریعے اور اسکے زیر سایہ مالیات جمع ہوتے ہیں، دشمن کے خلاف جنگ لڑی جاتی ہے، راستے محفوظ اور پُر امن بنائے جاتے ہیں، کمزور اور ناتواں کا حق قوی اور ظالم سے دلایا جاتا ہے، تاکہ نیکوکار سکون پائیں اور بدکار افراد کے شر سے محفوظ رہیں ۔ ( نہج البلاغہ۔ خطبہ ۴۰ )
خلاصہ یہ کہ قانون خود بخودنافذ نہیں ہوتا، بلکہ ضروری ہے کہ کوئی فرد یا جماعت ہو، جو اسکے اجرا و نفاذ کی کوشش کرے ۔
*۔ وہ تنگ نظر اور کوتاہ اندیش لوگ تھے، ان کی سطح فکری انتہائی پست تھی۔ اُنہوں نے اسلام اور مسلمانی کو اپنے محدود افکار کی چاردیواری میں محصور کر دیا تھا۔دوسرے تمام کوتاہ فکر لوگوں کی طرح وہ بھی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ باقی سب غلط سمجھتے ہیں یا سرے سے سمجھتے ہی نہیں، سب غلط راہ پر گامزن ہیں اور تمام کے تمام لوگ جہنمی ہیں ۔
اس قسم کے کوتاہ فکر افراد سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ اپنی تنگ نظری کو ایک دینی عقیدہ بنا لیتے ہیں، خدا کی رحمت کو محدود کر دیتے ہیں، خدا وند عالم کو ہمیشہ غضبناک ظاہر کرتے ہیں جو اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ جوں ہی اسکے کسی بندے سے کوئی لغزش سرزد ہو، وہ اسے دائمی عذاب کی طرف دھکیل دے ۔
خوارج کے اصولِ عقائد میں سے ایک اصول یہ تھا کہ گناہِ کبیرہ(مثلاً جھوٹ، غیبت، یا شراب نوشی) کا ارتکاب کرنے والا شخص کافر اور اسلام سے خارج ہے اور ہمیشہ کے لیے جہنم کا مستحق ہے ۔اس بنیاد پر گنتی کے چند افراد کے سوا دوسرے تمام انسان ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
مذہبی تنگ نظری خوارج کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہے، لیکن آج ہم ایک مرتبہ پھر اسے اسلامی معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم بیان کر چکے ہیں کہ خوارج کے شعار مر چکے ہیں، لیکن اُن کے مذہب کی روح کم و بیش بعض افراد اور طبقات میں اُسی طرح زندہ اور باقی ہے ۔ہم بعض تند خو اور بے عقل افراد کو دیکھتے ہیں، جو اپنے سوا اور اپنے جیسے گنتی کے چند دوسرے افراد کے سوائے، دنیا کے تمام لوگوں کو کافر اور ملحد سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں اسلام اور مسلمانی کا دائرہ انتہائی تنگ اور محدود ہے۔
گزشتہ فصل میں ہم نے کہا تھا کہ خوارج اسلامی تمدن کی روح سے ناآشنا تھے، لیکن بہادر تھے، کیونکہ جاہل تھے، اس لیے تنگ نظر تھے اور کیونکہ تنگ نظر تھے اس لیے بہت جلد کفر اور فسق کا فتوا صادر کردیتے تھے، یہاں تک کہ صرف اپنے نکتۂ نظر کو اسلام اور صرف خود کو مسلمان سمجھتے تھے اور اپنے اصولِ عقائد کو قبول نہ کرنے والے تمام مسلمانوں کو کافر کہتے تھے ۔ کیونکہ شجاع تھے اس لیے زیادہ تر صاحبانِ قدرت کے پیچھے لگتے، اپنے خیال میں اُنہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے اور مارے جاتے تھے۔
جیسا کہ ہم نے کہا تھا، بعد کے ادوار میں اُن کا جمود، اُن کی جہالت، اُن کی ظاہرداری، اُن کی مقدس مآبی اور اُن کی تنگ نظری دوسروں میں سرایت کر گئی لیکن اُن کی سی شجاعت، بے باکی اور فداکاری کا خاتمہ ہو گیا۔ بزدل خوارج، یعنی ڈرپوک مقدس مآبوں نے آہنی شمشیریں اٹھانا چھوڑ دیں اور صاحبانِ قدرت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرناچھوڑ دیا، کیونکہ وہ اُن کے لیے باعثِ خطر ہوتے تھے اور اپنی زبان کی تلوار سے صاحبانِ فضیلت سے الجھ پڑے ۔
اُنہوں نے ہر صاحبِ فضیلت پر کوئی نہ کوئی تہمت لگائی، یہاں تک کہ تاریخِ اسلام میں شاید ہی کوئی صاحبِ فضیلت شخصیت ایسی بچی ہو جو ان کی طرف سے پھینکے گئے تہمت کے تیر کا نشانہ نہ بنی ہو ۔ وہ ایک کو منکرِ خدا کہتے، دوسرے کو منکرآخرت، تیسرے کو معراجِ جسمانی کا منکر کہتے اور چوتھے کو صوفی، اسی طرح پانچویں کو کچھ اور۔
اگر ہم ان احمقوں کی رائے کو معیار قرار دیں، تو پھر ماننا پڑے گا کہ کبھی بھی کوئی سچا مسلمان عالم نہیں رہا ۔ جب علی ؑ کو کافر قرار دے دیا گیا تواوروں کا معاملہ تو واضح ہے۔ بو علی سینا، خواجہ نصیر الدین طوسی، صدر المتألّہین شیرازی، فیض کاشانی، سید جمال الدین اسد آبادی }افغانی{، اورحال ہی میں }علامہ{ محمد اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں الزامات کا یہ تلخ جام پینا پڑا ہے۔
بو علی نے اسی سلسلے میں کہاہے:
کفر چومنی گزاف و آسان نبود
محکمتراز ایمانِ من ایمان نبود
میری طرح کافر بننا آسان نہیں ہے
میرے ایمان سے زیادہ مضبوط کوئی ایمان نہیں ہے
در دھر یکی چومن وآنہم کافر
پس درہمہ دھر یک مسلمان نبود
زمانے میں مجھ جیسا ایک ہو اور وہ بھی کافر
پس سارے زمانے میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے
خواجہ نصیر الدین طوسی جو ایک ایسے شخص کی طرف سے تکفیر کا نشانہ بنے جو ”نظام العلما“ کے عنوان سے مشہور تھا، وہ کہتے ہیں:
نظامِ بی نظام از کافرم خواند
چراغِ کذب را نبود فروغی
نظامِ بے نظام نے اگر مجھے کافرکہہ دیا
جھوٹ کا چراغ زیادہ دیر نہیں جل پاتا
مسلمان خوانمش زیرا کہ نبود
دروغی را جوابی جز دروغی
میں اسے مسلمان کہتا ہوں اگرچہ وہ نہیں تھا
کیونکہ جھوٹ کا جواب جھوٹ ہوتا ہے
بہرحال خوارج کی ایک پہچان اور اُن کی ایک نمایاں خصوصیت اُن کی تنگ نظری اور کوتاہ بینی تھی، جس کی بنا پر وہ سب کو بے دین اور لامذہب سمجھتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام نے ان کی اس تنگ نظری کے خلاف استدلال کیا، کہ آخرتم کس غلط فکر کے پیچھے چل پڑے ہو؟
آپ نے فرمایا: پیغمبرؐ ایک قاتل کو سزا دیتے تھے، پھر اسکی نمازِ جنازہ پڑھتے تھے ۔ حالانکہ اگر گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کفر کا سبب ہوتا، تو پیغمبرکبھی ان لوگوں کی نمازِ جنازہ نہ پڑھتے۔ کیونکہ کافر کی نمازِ جنازہ جائز نہیں ہے اور قرآن نے اس سے منع کیا ہے(۵) حضور ؐنے شرابی پرحدجاری کی، چورکے ہاتھ کاٹے اور کنوارے زناکار کو کوڑے لگائے، پھران سب کو مسلمانوں کے حلقے میں جگہ دی، بیت المال سے ان کا وظیفہ بند نہ کیااور اُنہوں نے دوسرے مسلمانوں میں شادیاں کیں۔ پیغمبر ؐنے ان پر اسلامی سزاؤں کو جاری کیا، لیکن ان کانام مسلمانوں کی فہرست سے خارج نہیں کیا۔ (۶)
آپ نے فرمایا: فرض کرو کہ میں نے خطا کی ہے اور اسکے نتیجے میں کافر ہو گیا ہوں، اب تم سارے اسلامی معاشرے کو کیوں کافر قرار دیتے ہو؟ کیا کسی کی گمراہی اس بات کاسبب بنتی ہے کہ دوسرے بھی گمراہی اور خطاپر سمجھے جائیں اور اُن سے بھی باز پرس کی جائے؟ کیوں تم شمشیر بکف (اپنی نظر میں)ہر گناہگارا ور بے گناہ کو تلوار کی دھار سے گزارتے ہو؟!( نہج البلاغہ۔خطبہ ۱۲۵)
یہاں امیر المومنین علیہ السلام دو اعتبار سے ان کے عیوب کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کا دافعہ دو طرف سے خوارج کو رد کرتا ہے۔ایک اس اعتبار سے کہ اُنہوں نے گناہ کو بے گناہ پر بھی لاگو کر دیا اور اس کابھی مواخذہ کیا۔ دوسرے اس اعتبار سے کہ اُنہوں نے گناہ کے ارتکاب کوکفرکا باعث اور اسلام سے خارج ہونے کا سبب قرار دیا ۔ یعنی اُنہوں نے دائرۂ اسلام کو محدود کر دیااور کہا کہ جس نے بھی بعض قوانین سے سرتابی کی وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔
حضرت علی علیہ السلام نے یہاں تنگ نظری اور کوتاہ بینی کی مذمت کی ہے، اور در حقیقت حضرت علی ؑ کی خوارج کے خلاف جنگ اس طرزِفکر کے خلاف جنگ ہے، نہ کہ افراد کے ساتھ پیکار، کیونکہ اگر وہ لوگ اس طرزِ فکر کے مالک نہ ہوتے، تو علی ؑ بھی ان کے ساتھ یہ طرزِ عمل اختیار نہ کرتے۔ آپ نے اُن کا خون بہایا، تاکہ اُن کی موت کے ساتھ اُن کی فکر بھی دم توڑ دے، قرآن کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور مسلمان قرآن اور اسلام کو اُسی طرح سمجھیں جیسے کہ وہ ہے اور جس طرح اُسکے قانون ساز (خدا) نے چاہا ہے۔
یہ خوارج کی کوتاہ بینی اور کج فہمی کا نتیجہ تھا کہ وہ قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کی سیاست سے دھوکا کھا گئے اور اسلام کے لیے عظیم ترین خطرات وجود میں لانے کا باعث بنے اور حضرت علی ؑ کو جنگ سے روک دیا، جو نفاق کی بیخ کنی اورمعاویہ اور اُن کی فکر کو ہمیشہ کے لیے نابود کرنے کی غرض سے آگے بڑھ رہے تھے۔ اسکے نتیجے میں اسلامی معاشرہ کیسے کیسے منحوس حوادث سے دوچار ہوا۔(۷)
خوارج اپنی اس تنگ نظر ی کی وجہ سے عملی طور پر دوسرے تمام مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے، اُن کے ذبیحے کو حلال نہیں مانتے تھے، اُن کا خون بہاناجائز سمجھتے تھے اور اُن کے ساتھ شادیاں نہیں کرتے تھے۔
اسلام میں کسی ایسے مادّی وسیلے یا ظاہری شکل کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا جوتقدس کاپہلو رکھتا ہو اور مسلمان اس شکل اور ظاہرکی حفاظت کو اپنا فریضہ سمجھتے ہوں۔ لہٰذا علم و تمدن کی وسعت کے مظاہرے کے ساتھ تصادم سے گریزاُن پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے جنہوں نے اس دین کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھناآسان کر دیا اور اسکی ہمیشگی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ دور کر دی ۔
یہ عقل اوردین کا امتزاج ہے جس نے ایک طرف اصولوں کو ثابت اور پائیدارقرار دیا اور دوسری جانب انہیں ظاہری شکلوں سے الگ کیا ۔کلیاّت کو معین کیا۔ یہ کلیات مختلف مظاہر کے حامل ہیں اور مظاہر میں تغیر حقیقت کو متغیر نہیں کرتا۔
لیکن مظاہر اور مصادیق پر حقیقت کی تطبیق خود اتناآسان کام نہیں جسے ہر کس و ناکس انجام دے سکے۔ بلکہ اس کے لیے ایک گہرے ادراک اور صحیح سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔جبکہ خوارج جامد فکر لوگ تھے، اور جو بات اُن کے کان میں پڑ جاتی اس سے آگے کسی اورچیز کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذاجب امیر المومنین ؑ نے اُنہیں سمجھانے کے لیے ابن عباس کو اُن کے پاس بھیجا، توانہیں تاکید فرمائی کہ:
لا تُخا صِمْھُمْ بالْقُرْاٰنِِ فَاِنَّ الْقُرْاٰنَ حَمّالٌ ذووُجوہٍ تَقولُ وَیَقولونَ وَلٰکِنْ حاجِجْھُمْ بِالسُّنَّۃِ فَاِنَّہُمْ لَنْ یَجِدواعَنْھامَحیصاً۔
اُن کے سامنے قرآن کے ذریعے استدلال نہ کرنا، کیونکہ قرآن کے بہت سے احتمالات اور جہات ہوتی ہیں، تم کچھ کہو گے وہ کچھ اور کہیں گے۔بلکہ سنت اور پیغمبر ؐکے ارشادات کے ذریعے اُن سے بحث اور استدلال کرنا، جو صریح ہے اور اُن کے پاس اس سے فرار کی راہ نہیں ہو گی۔ (نہج البلاغہ۔مکتوب۷۷)
یعنی قرآن اصولوں پر مشتمل ہے۔بحث کے مقام پر وہ ایک چیز کو مصداق بنا ئیں گے اور استدلال کریں گے اور تم کسی اور چیز کو۔ اور یہ صورتحال بحث و مباحثے کے مقام پر نتیجہ بخش نہیں ہے ۔وہ اس قدر سمجھ بوجھ نہیں رکھتے کہ قرآن کے حقائق سمجھیں اور اُنہیں اُن کے صحیح مصادیق پر منطبق کرسکیں ۔بلکہ اُن کے ساتھ سنت کی بنیاد پر گفتگو کرنا، جو جزی ہے اور جو مصداق کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہاں حضرت نے اُن کی دینداری کے باوجود، اُن کے فکری جمود اور بے عقلی کی طرف اشارہ کیا ہے، جس سے تدّین اور تعقل کے درمیان علیحدگی کی نشاندہی ہوتی ہے۔
خوارج صرف جہالت اور فکری جمود کی پیداوار تھے۔ ان میں تجزیئے اور تحلیل کی صلاحیت نہ تھی، وہ اصول کو مصداق سے جدا نہیں کرپاتے تھے ۔اُن کے خیال میں اگر کسی خاص مقام پر حَکمیت ایک غلطی تھی، تو پھر اسکی اساس ہی باطل اور غلط ہے ۔حالانکہ ممکن ہے کہ اسکی بنیاد مضبوط اور صحیح ہو، لیکن کسی مقام پر اس کا درست اجرا نہ کیا گیا ہو ۔لہٰذا ہم تحکیم کے واقعے میں تین مراحل دیکھتے ہیں :
۱۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علی ؑ حَکمیت پر راضی نہیں تھے۔ آپ معاویہ اور اُن کے ساتھیوں کی تجویز کو فریب اور مکاری سمجھتے تھے، اور اس بات پر سختی سے جمے ہوئے تھے۔
۲۔آپ کا کہنا تھا کہ اگر تحکیم کے لیے شوریٰ کی تشکیل ناگزیر ہے، تو ابو موسیٰ ایک تیز بین شخص نہیں ہے اور اس کا م کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس کام کے لیے ایک اہل آدمی کاانتخاب کیا جانا چاہیے اور آپ نے اس مقصد کے لیے ابن عباس یا مالکِ اشتر کا نام تجویز کیا ۔
۳۔ حَکمیت کا اصول بذاتِ خود درست ہے، اور غلط نہیں ہے ۔اس بات پر بھی حضرت علی ؑ کو اصرار تھا۔
ابو العباس مبرّد الکامل فی اللُّغۃ والادب، جلد۲صفحہ ۱۳۴پر کہتا ہے :
”علی ؑ نے ذاتی طور پر خوارج کو قائل کرنے کی کوشش کی اور اُن سے کہا : تمہیں خدا کی قسم ! کیا تم میں سے کوئی بھی میری طرح تحکیم کا مخالف تھا؟ وہ بولے : خدایا ! توگواہ ہے کہ نہیں تھا ۔ فرمایا: کیا تم نے مجھے (تحکیم) قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا ؟ بولے : خدایا تو گواہ ہے کہ ایسا ہی تھا۔ فرمایا! پس تم کیوں میری مخالفت کرتے ہو اور مجھے مسترد کردیا ہے ؟ بولے : ہم ایک بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں اور ہمیں توبہ کرنی چاہیے۔ہم نے توبہ کر لی ہے، آپ بھی توبہ کر لیں ۔آپ نے فرمایا : ”اَسْتَغْفِرُاﷲَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ۔“ وہ بھی جو تقریباً چھ ہزار لوگ تھے لوٹ گئے اور کہنے لگے کہ علی ؑ نے توبہ کر لی ہے، اب ہم منتظر ہیں کہ وہ حکم دیں اور ہم شام کی طرف کوچ کریں ۔اشعث ابن قیس حضرت علی ؑ کی خدمت میں آیا اور کہا : لوگ کہتے ہیں کہ آپ تحکیم کو گمراہی اور اس پر قائم رہنے کو کفر سمجھتے ہیں ؟ حضرت منبر پر گئے، خطاب کیا اور فرمایا : جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں تحکیم سے پھر گیا ہوں، وہ جھوٹ بولتا ہے، اور جو شخص اسے گمراہی سمجھتا ہے، وہ خود گمراہ تر ہے۔ خوارج مسجد سے باہر نکل آئے اور دوبارہ حضرت علی ؑ کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔“
حضرت فرماتے تھے کہ }تحکیم کے لیے{ یہ موقع غلط تھا۔ کیونکہ معاویہ اور اسکے ساتھی مکاری کرنا چاہتے تھے، ا ور اس لیے بھی کہ ابو موسیٰ ایک نالائق آدمی تھا، اور میں شروع سے کہہ رہا تھا لیکن تم ماننے پر تیار نہ تھے۔البتہ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ تحکیم کی اساس ہی غلط ہے ۔
ایک طرف تو لوگ حکومتِ قرآن اور حکومتِ افراد میں فرق نہیں کرتے تھے ۔ قرآن کی حکومت قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی صورتحال کے بارے میں قرآن جو حکم دے اس پر عمل کیا جائے، اور افراد کی حکومت قبول کرنے سے مراد یہ ہے کہ افرادکے ذاتی نظریات اور آراء کی پیروی کی جائے ۔ قرآن خو د تو گفتگو نہیں کرتا، اس لیے ضروری ہے کہ اسکے حقائق کو غور و فکر کے ذریعے حاصل کیا جائے اور یہ عمل افراد کے بغیر ممکن نہیں۔ خود حضرت اس بارے میں فرماتے ہیں :
اِنّالَمْ نُحَکِّمِ الرِّجالَ وَاِنَّما حَکَّمْنَاالْقُرْاٰنَ، وَھٰذَاالْقُرْاٰنُ اِنَّماھُوَخَطٌّ مَسْطورٌبَیْنَ الدَّفَّتَیْنِ، لایَنْطِقُ بِلِسانٍ ولَابُدَّلَہُ مِنْ تَرْجُمانٍ، وَاِنَّمایَنْطِقُ عَنْہُ الرِّجالُ، وَلَمّادَعانَاالْقَوْمُ اِلیٰ اَنْ نُحَکِّمَ بَیْنَنَاالْقُرْاٰنَ لَمْ نَکُنِ الْفَریقَ الْمُتَوَلِّیَ عَنْ کِتابِ اﷲِ تَعالی، وَقَدْ قالَ اللّٰہُ سُبْحانَہُ ”فَاِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیْ ءٍ فَرُدّوہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسولِ۔“ فَرَدُّ ہُ اِلَی اﷲِ اَنْ نَحْکُمَ بِکِتابِہِ، وَرَدُّہُ اِلَی الرَّسولِ اَنْ نأْخُذَبِسُنَّتِہِ، فَاِذاحُکِمَ بِا لصِّدقِ فی کِتابِ اﷲِ فَنَحْنُ اَحَقُّ النّاسِ بِہِ، وَاِنْ حُکِمَ بِسُنَّۃِ رَسولِ اللّٰہِ فَنَحْنُ أَوْلاھُمْ بِہِ۔
ہم نے لوگوں کو حَکم قرار نہیں دیا ہے، بلکہ قرآن کو حَکم بنایا ہے۔ اور یہ قرآن جو دودفتیوں کے درمیان لکھی ہوئی کتاب ہے، زبان سے بولا نہیں کرتا، اسکے لیے ایک بیان کرنے والے کی ضرورت ہے، اور یہ افراد ہوتے ہیں جو اسکی بات بیان کرتے ہیں۔ کیونکہ اہلِ شام نے ہم سے چاہا کہ ہم قرآن کو حاکم قرار دیں، ہم ان لوگوں میں سے نہ تھے جو قرآن سے روگردانی کرتے، جبکہ خداوند عالم نے خود قرآن میں فرمایا ہے : ” اگر تمہارے درمیان کسی چیز کے بارے میں کوئی نزاع پیدا ہو جائے، تو اسکے بارے میں خدا اور اسکے رسول سے رجوع کرو۔“ خدا کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسکی کتاب کو حاکم قرار دیں اور اسکی کتاب کے مطابق فیصلہ کریں اور پیغمبر کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی سنت کی پیروی کریں۔ اور اگر واقعاً خدا کی کتاب کے مطابق فیصلہ کیا جائے، تو ہم اسکے سب سے زیادہ حقدار ہیں اور اگر اسکے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ ہو تب بھی ہم ہی اسکے لیے اولیٰ ہیں ۔ (نہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۲۳)
یہاں ایک اعتراض ہے اور وہ یہ کہ شیعہ عقیدے اور امیر المومنین ؑ (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر دو کے آخری حصے) کے مطابق اسلام میں حکومت اور امامت ”انتصابی“ اور ”نص“ کے مطابق ہے۔ پس پھر کیوں حضرت نے حَکمیت کو قبول کیا اور بعد میں اس کا سختی سے دفاع کرتے رہے ؟
اس اعتراض کا جواب ہم امام ؑ کے اس کلام کے ضمن میں بخوبی سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن میں صحیح تدبر کیا جائے، اور اسکے مطابق درست فیصلہ کیا جائے، تو اس کا نتیجہ ان کی امامت اور خلافت کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا اور سنتِ پیغمبر بھی اسی طرح ۔
۱۔فجر الاسلام۔ص۲۶۳۔ نقل از العِقد الفرید
۲۔فجرالاسلام ۔ص ۲۴۳
۳۔ العقد الفرید۔ج۲۔ص۳۸۹
۴۔ کامل مبّرد۔ج۲۔ص۱۱۶
۵۔ سورۂ توبہ۹۔ آیت ۸۴
۶۔نہج البلاغہ۔خطبہ ۱۲۵
۷۔جن حوادث نے عالمِ اسلام کا رخ کیا اُن کے تجزیئے اور تحلیل کے دوران جو چیز بہت زیادہ اپنی جانب توجہ مبذول کراتی ہے، وہ امتِ اسلامیہ کے جسد پر پڑنے والی روحانی اور معنوی ضربات ہیں ۔قرآنِ کریم نے دعوتِ اسلامی کی بنیاد بصیرت اور تفکّر کو قرار دیا تھا اور خود قرآنِ مجید نے لوگوں کے لیے اجتہاد اور ادراکِ عقل کا راستہ کھلا رکھا تھا:
”فَلَوْ لااَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْن۔“
”پس اِن میں سے ہر گروہ سے کچھ لوگ کیوں کوچ نہیں کرتے تاکہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں؟“ (سورۂ توبہ ۹۔ آیت ۱۲۲)
کسی چیز کے معمولی طور پر سمجھ لینے کو ” اس چیز میں تفقہ“ نہیں کہتے، بلکہ تفقہ گہری نظر اور بصیرت کوکہا جاتاہے۔
”اِنْ تَتَّقُوا اﷲَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا۔“
”اگر تم تقوائے الٰہی اختیار کرو، تو خدا تمہارے دل میں ایک روشنی قرار دیتا ہے، جو اچھے بُرے کی پہچان اور ان میں فرق کا ذریعہ ہے۔“( سورۂ انفال ۸۔ آیت ۲۹)
”وَالَّذِیْنَ جٰہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔“
”وہ لوگ جوہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم اُن کے سامنے اپنی راہیں کھولتے ہیں۔“
(سورۂ عنکبوت۲۹۔ آیت۶۹)
قرآنِ کریم کا یہ طرزِ تعلیم جو چاہتا ہے کہ فقہ اسلامی ہمیشہ متحرک اور زندہ رہے، خوارج نے اسکے بالکل برخلاف جمود کاراستہ اختیارکیا ۔ اُنہوں نے اسلامی معارف کو مردہ اور جامد سمجھ لیا اور ظاہری شکل وصورت کو بھی اسلام میں داخل کر لیا ۔
اسلام نے کبھی بھی زندگی کی ظاہری شکل و صورت پر توجہ نہیں دی ۔اسلامی تعلیمات کی ساری توجہ روح و معنی اور اس راہ پر ہے جو انسان کو ان مقاصد اور معانی تک لے جاتی ہے ۔اسلام نے مقاصد و معانی اور ان مقاصد تک پہنچنے کی راہ دکھانے کو اپنا دائرۂ کار قرار دیااور اسکے علاوہ دوسرے امور میں انسان کو آزاد چھوڑدیا۔ اس طرح اس نے تہذیب و تمدن کے پھیلاؤ سے کسی بھی قسم کے تصادم سے پرہیز کیا ہے ۔