حضرت علی ؑ کی جاذبیت کا سبب
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
کیا وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں علی ؑ کی محبت اور دوستی پائی جاتی ہے؟
محبت کی وجہ کاآج تک کوئی کھوج نہیں لگا سکا ہے۔ یعنی اس کا کوئی لگا بندھا فارمولا نہیں بتایاجا سکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر یوں ہوا تویہ ہو گااور ایسا ہوا تو ویسا ہوگا۔ لیکن کوئی وجہ ہے ضرور۔ محبوب میں ایسی کوئی چیز ضرور پائی جاتی ہے جس کا حُسن چاہنے والے کی نظر کو خیرہ کر دیتا ہے اور اُسے اپنی جانب کھینچتا ہے۔
جاذبے اور محبت کے اعلیٰ مراتب کو عشق کہا جا تا ہے۔ علی ؑ دلوں کے محبوب اور انسانوں کے معشوق ہیں۔
کیوں؟ کس لحاظ سے؟
علی ؑ میں کونسی غیر معمولی چیز ہے جو عشق کو ابھارتی ہے، دلوں کو اپنا شیدا بناتی ہے اور جس نے ابدیت کا رنگ اختیار کیا ہے اور ہمیشہ زندہ ہے؟
کیا وجہ ہے کہ دل ہمیشہ خود کو اُن سے مانوس سمجھتے ہیں، کبھی اُنہیں مردہ تصور نہیں کرتے، بلکہ زندہ پاتے ہیں؟
یقیناً اُن سے محبت کی بنیاد اُن کا جسم نہیں ہے۔ کیونکہ اُن کا جسم اِس وقت ہمارے درمیان موجودنہیں ہے، اور ہم اُن(کے مادّی وجود) کو اپنے درمیان محسوس نہیں کرتے۔اسی طرح علی ؑ کی محبت ہر قوم میں پائی جانے والی اُس محبت کی طرح بھی نہیں ہے جو وہ اپنے اپنے ہیروز سے کرتی ہیں۔
یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ علی ؑ سے محبت اس بنا پر ہے کہ انسانی و اخلاقی فضیلتوں سے محبت کی جاتی ہے، اور علی ؑ سے محبت (دراصل) انسانیت سے محبت ہے۔
یہ بات درست ہے کہ علی ؑ ؑ انسانِ کامل کا مظہر ہیں، اور یہ بھی صحیح ہے کہ انسان انسانیت کے اعلیٰ نمونوں سے محبت رکھتا ہے۔ لیکن اگر علی ؑ اُن تمام انسانی فضائل کے حامل ہوتے جو اُن میں موجود تھے، یعنی حکمت، علم، قربانی، ایثار، انکساری، ادب، لطف و محبت، ضعیف نوازی، عدالت، حریت پسندی، احترامِ انسانیت، شجاعت، دشمن کے مقابل مروت و مردانگی اور بقول مولانا روم:
در شجاعت شیر ربّا نیستی
در مروّت خود کہ داند کیستی؟
”شجاعت میں تو آپ شیر خدا ہیں لیکن مروت میں کوئی آپ کی تعریف نہیں کر سکتا کہ آپ کیا ہیں؟“
وہ سخاوت اور جودوکر م وغیرہ، اگر علی ؑ اُن تمام صفات کے حامل ہوتے، جو کہ اُن میں پائی بھی جاتی تھیں، لیکن الٰہی رنگ کے مالک نہ ہوتے، تو یقیناًً آپ لوگوں کی اس قدر محبتوں کا مرکز نہ ہوتے، جیسے کہ آج ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اِس لیے محبوب ہیں کہ آپ خدا سے وابستہ ہیں۔ ہمارے دل لاشعوری طور پر اپنی گہرائیوں میں حق سے پیوستہ ہیں، اورکیو نکہ ہم علی ؑ کو حق کی عظیم آیت اور صفاتِ حق کا مظہر سمجھتے ہیں، اس لیے ان سے محبت کرتے ہیں۔ در حقیقت علی ؑ سے عشق کا سبب حق کے ساتھ روح کا وہ رشتہ ہے جو ہمیشہ کے لیے فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے اور کیونکہ فطرتیں جاویدانی ہیں لہٰذاعلی ؑ کی محبت بھی جاویداں ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کے وجود میں بکثرت روشن پہلو پائے جاتے ہیں، لیکن جس چیز نے اُنہیں ہمیشہ روشن اور پُرنور بنا رکھا ہے، وہ اُن کا ایمان اور اخلاص ہے، اور یہی وہ چیز ہے جس نے انہیں جذبۂ الٰہی عطا کیا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کی ایک فداکار اور محب خاتون ”سودہ ہمدانی“نے معاویہ کے سامنے حضرت علی ؑ پر درود بھیجا اور اُن کی شان میں کہا:
صَلَّی الْاِلٰہُ عَلیٰ روحٍ تَضَمَّنَھا
قَبْرٌ فَاَ صْبَحَ فیہِ الْعَدْلُ مَدْفونا
قَدْ حالَفَ الْحَقَّ لا یَبْغی بِہِ بَدَلا
فَصارَ بِالْحَقِّ وَالْا یمانِ مَقْرونا
” خداکی رحمت ہو اُس وجود پرجسے مٹی نے ڈھانپ لیا اور اسکے ساتھ ہی عدل بھی دفن ہوگیا۔ اُس نے حق کے ساتھ عہد کیاتھا کہ وہ (حق کے سوا) کسی چیزکو نہیں اپنائے گا، پس وہ حق اور ایمان کے قریب ہوا۔“
”صعصہ بن صوحان عبدی“ بھی حضرت علی علیہ السلام کے عاشقوں میں سے ایک تھے، وہ اُن چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اُس رات علی ؑ کی تدفین میں شرکت کی تھی۔ حضرت کو دفن کرنے اور اُن کے جسمِ مبارک کو خاک تلے چھپانے کے بعد صعصعہ نے اپنا ایک ہاتھ سینے پر مارا اور دوسرے ہاتھ سے سر پر خاک ڈالتے ہوئے کہا:
”آپ کو موت مبارک ہو!آپ کی جائے ولادت پاک تھی، آپ کا صبر قوی اور جہاد عظیم تھا۔آپ نے اپنی سوچ پر غلبہ پایا اورآپ کی تجارت نفع بخش رہی۔
آپ اپنے خالق سے جا ملے اور اس نے آپ کو بخوشی قبول کیا اور اُسکے فرشتے آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ کو پیغمبرکی ہمسائیگی نصیب ہوئی اور خدا نے آپ کو اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائی، اورآپ اپنے بھائی محمد مصطفی ؐکے درجے پر پہنچے اور اُن کے بھرے ہوئے جام سے سیراب ہوئے۔
ہم خداسے چاہتے ہیں کہ آپ کی پیروی کریں اورآپ کے طریقوں پر عمل کریں، آپ کے دوستوں سے دوستی کریں اورآپ کے دشمنوں سے دشمنی رکھیں، اورآپ کے دوستوں کے ساتھ محشور ہوں۔
آپ نے وہ پا لیا، جو دوسرے نہ پا سکے اور وہاں پہنچے جہاں دوسرے نہ پہنچ سکے۔ آپ نے اپنے بھائی پیغمبر کے ہمراہ جہاد کیا اور دین خدا کے لیے شایانِ شان طریقے سے قیام کیا۔ آپ نے سنتوں کو قائم کیا، خرابیوں کی اصلاح کی، یہاں تک کہ ایمان و اسلام منظم ہو گئے۔آپ پر بہترین درود ہوں۔
آپ کے ذریعے سے مومنوں کی پشت مضبوط ہوئی، راہیں روشن اور سنتیں قائم ہوئیں۔ کوئی بھی اپنے اندرآپ جیسی رفعتوں اور فضیلتوں کو اکٹھا نہ کر سکا۔آپ نے پیغمبر اکرؐم کی صدا پر لبیک کہا اور اس میں دوسروں پر سبقت حاصل کی۔آپ اُن کی نصرت کے لیے لپکے اور اپنی جان سے اُن کی حفاظت کی۔ خوف و خطر کے موقعوں پر اپنی شمشیر ذوالفقار سے حملے کئے اور ظالموں کی کمر توڑ ڈالی۔کفر اور شرک کی بنیادوں کو مسمار کیا اور گمراہوں کو خاک وخون میں غلطاں کیا۔پس مبارک ہو اے مؤمنوں کے سردار۔
آپ لوگوں میں سب سے زیادہ پیغمبر ؐ کے قریب تھے، آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام اپنایا، آپ یقین سے سرشار، قوی دل اور سب سے زیادہ فداکار تھے۔ آپ کا حصہ نیکی میں زیادہ تھا۔ خدا ہمیں آپ کی مصیبت کے اجر سے محروم نہ کرے، اور آپ کے بعد ہمیں خوار نہ کرے۔
خدا کی قسم آپ کی زندگی نیکیوں کی کُنجی تھی اور شر کے لیے قُفل۔آپ کی موت ہر شر کے لیے چابی ہے اور ہر خیر کے لیے قُفل۔ اگر لوگ آپ کو قبول کر لیتے تو اُن پر زمین و آسمان سے نعمتوں کی بارش ہوتی۔ لیکن اُنہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو منتخب کیا۔“ (۱ )
جی ہاں! لوگوں نے دنیا کو منتخب کیااور وہ علی ؑ کے عدل اوراُن کے غیر لچکدار طرزِ عمل کی تاب نہ لا سکے اور آخر کار لوگوں کے جمود اورتعصب کے ہاتھ باہر نکلے اور اُنہوں نے علی ؑ کو شہید کر دیا۔
حضرت علی علیہ السلام ایسے دوستوں اور محبت سے سرشار دیوانوں کے حوالے سے بے مثال ہیں جنہوں نے اُن کی محبت اور ولا میں جان کی بازی لگائی اور جو سولی پر چڑھ گئے۔ ایسے لوگوں کے حیرت انگیز واقعات بیان کرنے پر تاریخِ اسلام کے صفحات فخر کرتے ہیں۔ زیاد بن ابیہ، اس کا بیٹا عبیداﷲ، حجاج ابن یوسف، متوکل عباسی اور سب سے بڑھ کر معاویہ ابن ابی سفیان جیسے لوگوں کے ہاتھ کہنیوں تک انسانیت کے ان اعلیٰ نمونوں کے خون سے آلودہ ہیں۔
۱۔ بحارالانوار ۔ج ۴۲۔ص۲۹۵، ۲۹۶۔طبع جدید