جاذبہ ودافعۂ علی

تہذیبِ نفس کا بہترین ذریعہ

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

عشق و محبت کے حوالے سے کی جانے والی ہماری اب تک کی گفتگوئیں مقدمہ تھیں، اب ہم آہستہ آہستہ نتیجے تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ہماری اہم ترین بحث(جو درحقیقت ہمارا اصل موضوع ہے) یہ ہے کہ اولیا سے عشق اورنیکوکارافرادسے محبت رکھنابذاتِ خود ہدف ہے، یایہ تہذیبِ نفس، اصلاحِ اخلاق اورانسانی فضائل و خصائل کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ؟

حیوانی عشق میں، عاشق کی تمام تر توجہ معشوق کی صورت، اسکے متناسب اعضااور اسکی جلد کی زیبائی اوررنگت پر ہوتی ہے۔اور یہ غریزہ (instinct)ہوتا ہے جو انسان کومائل کرتا اور مجذوب بناتا ہے ۔لیکن غریزے کی تسکین کے بعد یہ آگ مزید نہیں بھڑکتی، بلکہ رفتہ رفتہ سرد ہوکر بجھ جاتی ہے۔

لیکن انسانی عشق (جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں)حیات اور زندگی ہے، اطاعت پرتیار کرنے اور پیروکار بنانے والا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جو عاشق کو معشوق کا ہمرنگ بناتاہے اور وہ کوشش کرتا ہے کہ معشوق کا ایک جلوہ اور اسکی روش کا ایک عکس ہو ۔جیسا کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے اشاراتِ بوعلی کی شرح میں کہا ہے :

”وَالنَّفْسانِیُّ ھُوَالَّذی یَکونُ مَبْدَؤُہُ مُشاکَلَۃَ نَفْسِ الْعاشِقِ لِنَفْسِ الْمَعْشوقِ فِی الْجَوْھَرِ، وَیَکونُ أَکْثَرُاِعْجابِہِ بِشَماءِلِ الْمَعْشوقِ

لِاَنَّھاآثارٌصادِرَۃٌ عَنْ نَفْسِہِ۔۔۔۔وَھُوَ یَجْعَلُ النَّفْسَ لَیِّنَۃً شَیِّقَۃً ذاتَ وُجْدٍ وَرِقَّۃٍ مُنْقَطِعَۃً عَنِ الشَّواغِلِ الدُّنْیَوِیَّۃِ۔“

” نفسانی عشق وہ ہے جس کی بنیاد ذاتاً عاشق اور معشوق کی ہمرنگی پر ہو، عاشق کی زیادہ توجہ اپنے معشوق کی روش اور اسکے نفس سے ظاہر ہونے والے آثار پر ہوتی ہے ۔یہ عشق نفس کورقیق، پُرشوق اور سر شار بنا دیتا ہے، اور ایسی رِقّت پیدا کرتا ہے، جو عاشق کو دنیا کی آلودگیوں سے بیزار کر دیتی ہے۔“(۱)

محبت، مشابہت اور موافقت کی طرف راغب کرتی ہے اور اسکی قوت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ محب اپنے محبوب کی صورت میں ڈھل جائے۔محبت اس برقی تار کی مانند ہے جو عاشق و معشوق کو باہم متصل کر دیتا ہے، اور محبوب کی صفات محب میں منتقل کرتا ہے۔ لہٰذااسی وجہ سے محبوب کا انتخاب بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔اسی لیے اسلام نے دوست اور ہم نشین کے چناؤ کے معاملے کو بہت اہمیت دی ہے اور اس ضمن میں ہمیں بہت سی آیات اوراحادیث ملتی ہیں۔کیونکہ دوستی ہمرنگ بناتی ہے، (محبوب کو ) خوبصورت جلوہ گر کرتی ہے اور باعث غفلت بن جاتی ہے، یہ جہاں اپنا سایہ ڈالتی ہے وہاں انسان عیب کو ہنر اور خار کو گل سمجھنے لگتا ہے۔(۲)

بعض آیات و روایات میں ناپاک اور آلودہ لوگوں کی ہم نشینی اور دوستی اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیاگیاہے، اور بعض میں نیک لوگوں کے ساتھ دوستی کی دعوت دی گئی ہے۔

ابن عباس نے کہا کہ ہم پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، لوگوں نے پوچھا کہ بہترین ہم نشین کون ہے ؟ حضرت نے فرمایا :

”مَنْ ذَکَّرَکُمْ بِا ﷲِ رُؤْیَتُہُ وَزادَکُمْ فِی عِلْمِکُمْ مَنْطِقُہُ

عشق، فہم کو تیز ترکرتا ہے، لیکن توجہ کو یکسو اور مرتکزکر دیتا ہے اور اسی لیے جیسا کہ متن میں کہا گیاہے کہ عشق کی خاصیت یکسو کر دینا ہے، اور یہی یکسوئی اور ارتکاز ہے جس کی وجہ سے خامی پیدا ہوتی ہے اور دوسرے امور کی طرف توجہ میں کمی آجاتی ہے ۔

اس سے بڑھ کر، عشق نہ صرف عیب کو چھپاتا ہے بلکہ عیب کو خوبی بنا کے ظاہرکرتا ہے ۔کیونکہ عشق کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ جہاں اس کا سایہ پڑتا ہے اس جگہ کو خوبصورت بنا دے ۔حُسن کے ایک ذرّے کو آفتاب، بلکہ سیاہ کو سفید اور ظلمت کو نورظاہرکرتاہے ۔ بقول وحشی :

اگر در کا سۂِ چشمم نشینی
بہ جز از خوبی لیلی نہ بینی

اگر تم میری آنکھوں سے دیکھو
تو تمہیں لیلیٰ میں حسن کے سواکچھ نظر نہیں آئے گا

اور اسکی وجہ بظاہر یہ ہے کہ عشق علم کی طرح نہیں ہے جو سو فیصد معلوم کے تابع ہو ۔عشق کا داخلی اور نفسیاتی پہلو اسکے خارجی اور ظاہری پہلو سے زیادہ ہے۔ یعنی عشق کا میزان حُسن کے معیار کا تابع نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر عاشق کی استعداد اورصلاحیت کے تابع ہے ۔درحقیقت عاشق ایسی صلاحیت اور مادّے کا حامل ہے جو راکھ میں دبی چنگاری کی مانند موقع ملتے ہی بھڑک اٹھنے کے لیے تیار ہو۔ (جوں ہی یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے)وہ داخلی قوت اپنا اثر دکھانے لگتی ہے اور محبوب میں موجودحُسن کی بجائے اپنی توانائی کے تناسب سے (محبوب میں)حُسن کی تخلیق کرتی ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ عاشق کو معشوق کا عیب ہنر اور خار، گل نظر آتا ہے۔گرچہ ابھی تک اس موافقت کا سبب معلوم نہیں ہو سکا، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ عشق کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔

وَذَکَّرَکُمْ باِ لْآخِرَۃِ عَمَلُہُ۔“

”وہ جس کا دیدار تمہیں اللہ کی یاد دلائے، جس کی گفتار تمہارے علم میں اضافہ کرے، اور جس کا کر دار تمہیں آخرت اور قیامت کی یاد دلائے ۔“ (۳)

نیکوکار اور پاک طینت لوگوں کی اِکسیرِ محبت انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اسے چاہیے کہ اُن سے محبت کرے اور پاک طینت لوگوں کی یہ محبت اسے ان کا ہمرنگ وہم شکل بنائے ۔

اصلاحِ اخلاق اور تہذیبِ نفس کے لیے مختلف طریقے تجویز کئے گئے ہیں اور طرح طرح کے مکاتب وجود میں آئے ہیں۔انہی میں سے ایک سقراطی مشرب ہے۔اسکے مطابق انسان کو چاہیے کہ اپنی اصلاح کے لیے عقل اور تدبیر کا راستہ اختیار کرے۔ آدمی کوچاہیے کہ پہلے پاکیزگی کے فوائد اوربد اخلاقی کے نقصانات پر مکمل ایمان پیدا کرے، اسکے بعد عقل کے سہارے ایک ایک مذموم صفت کا سراغ لگائے ۔(اس شخص کی طرح جو اپنی ناک سے ایک ایک بال نوچ کر نکالتا ہے، یا اس کسان کی طرح جو اپنے کھیت سے غیر ضروری گھاس پھونس کو ایک ایک کر کے نکالتا ہے، یا اس شخص کی طرح جو اپنے ہاتھوں سے گندم میں شامل ریت اور مٹی صاف کرنا چاہتا ہے) اور یوں ان سے اپنے وجود کو پاک کرے ۔ اس طریقے کے مطابق انسان کو چاہیے کہ صبر، حوصلے، دِقَّت اور سوچ سمجھ کراپنے اندر سے اخلاقی برائیوں کو تدریجاً ختم کرے، اور آلودگیوں سے اپنا زرّیں وجود پاک کرے۔اور شاید یہ بات کہی جاسکے کہ عقل یہ کام نہیں کرسکتی۔

فلسفی حضرات غوروفکر اور حساب کتاب کے ذریعے اخلاق کی اصلاح کرناچاہتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ پاکدامنی اور قناعت لوگوں کے درمیان انسان کی عزت و وقار بڑھانے کا سبب ہیں، اور حرص و لالچ ذلّت و پستی کا باعث ہیں۔ یا وہ کہتے ہیں کہ علم قدرت اور طاقت کے حصول کا ذریعہ ہے، علم میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں۔ ”خاتمِ ملکِ سلیمان است علم“ علم ایک ایسا چراغ ہے جو انسان کی راہ میں موجود گڑھوں کو نمایاں کردیتا ہے۔ یا وہ کہتے ہیں کہ حسد اور بدخواہی روحانی بیماریاں ہیں اور اجتماعی نقطۂ نظر سے ان کے بُرے نتائج نکلتے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک صحیح راستہ اور ایک اچھا وسیلہ ہے ۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کسی دوسرے راستے کے مقابلے میں اسکی اہمیت کیا ہے۔ مثلاً موٹرکار، سفر کا ایک اچھا وسیلہ ہے، لیکن ہوائی جہاز کے ساتھ اس کا موازنہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ اسکے مقابل اسکی کیا قدر و قیمت ہے ۔

ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ رہنمائی کے نقطۂ نظر سے عقل کے راستے کی کیا اہمیت ہے۔یعنی یہ کہ عقلی کہلائے جانے والے استدلال اخلاقی مسائل میں کس حد تک حقیقت کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرتے ہیں، کتنے درست اور معیار کے مطابق ہیں اورکس حد تک خطا و اشتباہ کا شکار نہیں۔ ہم صرف اتنا کہیں گے کہ اخلاق و تربیت کے فلسفیانہ مکاتب بے حد و حساب ہیں، اور استدلال کے نقطۂ نظر سے یہ مسائل ابھی تک بحث و اختلاف کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کلی طور پر اہلِ عرفان کاکہنا یہ ہے کہ :

پای استدلالیان چوبین بود
پای چوبین سخت بی تمکین بود(۴)

فی الحال ہم اس پہلو سے گفتگو نہیں کر رہے، بلکہ اس بارے میں بات کر رہے ہیں کہ ان وسائل کی کامیابی کی مقدارکیاہے؟

اہلِ عرفان اور صاحبانِ سیرو سلوک، عقل و استدلال کی راہ اختیار کرنے کی بجائے محبت و عقیدت کا راستہ تجویز کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں : ” ایک انسانِ کامل تلاش کرو اور اسکی محبت و عقیدت دل میں بسا لو یہ راستہ عقل و استدلال کے مقابلے میں بے خطر اور سریع ترہے۔“

اگر موازنہ کیاجائے تو یہ دونوں وسائل قدیم دستی اور جدید مشینی اوزار کی مانند ہیں ۔دل سے اخلاقی برائیوں کو زائل کرنے کے سلسلے میں محبت و عقیدت وہی تاثیر رکھتے ہیں جو دھاتوں کے لیے کیمیائی مواد کی تاثیر ہوتی ہے۔مثلاً چھپائی کے لیے لکڑی یا پتھر پر نقوش کند ہ کرنے والا کاریگر اپنے بنائے ہوئے نقوش کے کناروں کو تیزاب کے ذریعے صاف کرتا ہے، ناخن، یا چاقو وغیرہ کی نوک سے نہیں۔

جبکہ اخلاقی برائیوں کی اصلاح کے لیے عقل کا استعمال با لکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی مٹی میں ملے ہوئے لوہے کے ذرّوں کو اپنے ہاتھوں سے چننے کی کوشش کرے۔

یہ کس قدر مشکل اور محنت طلب کام ہے؟

اگر اسکے ہاتھ میں ایک طاقتور مقناطیس ہو، تو ممکن ہے وہ ایک ہی گردش میں اُن تمام ریزوں کو الگ کر لے ۔محبت اور عقیدت کی قوت مقناطیس کی طرح تمام صفاتِ رذیلہ کو یکجا کر کے دور پھینک دیتی ہے ۔اہلِ عرفان کے عقیدے کے مطابق پاک طینت اور کامل انسانوں کی محبت ایک خود کار آلے کی مانند برائیوں کو خود بہ خود یکجا کرکے باہر پھینک دیتی ہے۔اگر مجذوبیت کی حالت حاصل ہو جائے، تو یہ بہترین حالت ہے، یہ روح کوپاکیزگی عطا کرکے عظمت بخشتی ہے ۔

جی ہاں! جو لوگ اس راہ پر چلے ہیں، اُنہوں نے محبت کی قوت کے ذریعے اخلاق کی اصلاح کرنا چاہی ہے۔ ایسے لوگ عشق وعقیدت کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہیں ۔تجربے نے ثابت کیا ہے کہ روح پر جتنی نیک طینت لوگوں کی ہم نشینی اور اُن کی عقیدت و محبت اثر انداز ہوتی ہے، اتنا اثر اخلاقیات کی سینکڑوں کتابیں پڑھ کر بھی نہیں ہوسکتا ۔

مولاناروم نے محبت کے پیام کو نالۂ نے (بانسری کی آواز) سے تعبیر کیا ہے، وہ کہتے ہیں :

ہمچونی زہری و تریاقی کہ دید ؟
ہمچونی دمسازومُشتاقی کہ دید ؟

نے کی مانند زہر و تریاق کس نے دیکھا ہے ؟
نے کی طرح دمساز و مشتاق کس نے پایا ہے ؟

ہر کہ را جامہ زعشقی چاک شُد
اوزِ حرص و عیب کلُّی پاک شُد

جس کا جامہ عشق کی بدولت چاک ہوا
وہ لالچ اور عیب سے بالکل پاک ہو گیا

شادباش ای عشق خوش سودائی ما
ای طبیب جملہ علّتہای ما(۵)

سدا خوش رہو اے دیوانہ بنا دینے والے عشق
اے میری تمام بیماریوں کے معالج

کبھی کبھی ہم ایسے بزرگوں کو دیکھتے ہیں جن کے عقیدت مند اُن کے چلنے پھرنے، لباس پہننے، طرزِعمل، حتیٰ اُن کے اندازِگفتگو کی تقلید کرتے ہیں۔ یہ تقلیداختیاری نہیں ہوتی، بلکہ خود بہ خود اورقدرتی طورپرہوتی ہے ۔محبت اورعقیدت کی قوت ہے جو محب کے پورے وجود پر اثر انداز ہوتی ہے، اور اسے ہر طور سے اپنے محبوب کا ہمرنگ بنادیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی اصلاح کے لیے کسی مردِ حق کو تلاش اور اس سے عشق کرنا چاہیے، تاکہ صحیح معنوں میں اپنی اصلاح کر سکے ۔

گردر سرَت ہوائیِ وصال است حافظا

باید کہ خاکِ درگہِِ اہلِِ ہُنر شوی(۶)

ایسا انسان جو اس سے پہلے عبادت یا کسی عملِ خیر کی انجام دہی کا کتنا ہی ارادہ کرتا، سستی اسکی ہمت اور ارادے کو توڑ ڈالتی تھی، لیکن جب اس میں محبت اور عقیدت پیداہوگئی، تو پھروہ سستی اور کاہلی ختم ہوجاتی ہے، اور اس کا عزم راسخ اور ہمت قوی ہو جاتی ہے۔

مہر خوبان دل و دین از ہمہ بی پروابُرد
رُخِ شطرنج نُبرد آنچہ رُخِ زیبا بُرد

محبت نے دل و دین سب سے بے پروا کردیا
شطرنج کا مہرہ نہیں، خوبصورت چہرہ یہ سب لے اڑا

تو مپند ار کہ مجنون سرِ خود مجنون شد
از سمک تابہ سماکش کشش لیلیٰ بُرد

یہ نہ سمجھوکہ مجنوں از خود مجنوں بن گیا
لیلیٰ کی کشش اسے زمین سے آسمان پرلے گئی

من بہ سرچشمۂ خورشید نہ خود بُردم راہ
ذرّہ ای بودم و عشقِ تو مرا با لا بُرد

میں از خود سر چشمۂ خورشید تک نہیں پہنچا ہوں
ایک ذرّہ تھا لیکن تیرے عشق نے عروج عطا کردیا

خِم ابروی تو بود وکفِ مینوی تو بود
کہ دراین بزم بگردید و دلِ شیدابُرد(۷)

یہ تیرے ابروکا خم اور بہشتی ہاتھ ہی تو تھا
جو اس محفل میں نمودارہوا اور دیوانے کادل لے گیا

تاریخ ہمیں ایسے بزرگوں سے روشناس کراتی ہے، جن کے جسم و جان میں صاحبانِ کمال سے پائے جانے والے عشق و عقیدت نے(کم از کم عقیدت مندوں کے خیال میں) ایک انقلاب پیدا کر دیا۔

مولانا روم بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں ۔وہ ابتدا میں اس قدر پُرسوز اور پُر جوش نہیں تھے، ایک عالم تھے لیکن اطمینان اور خاموشی کے ساتھ شہر کے ایک گوشے میں تدریس میں مشغول تھے ۔جس دن سے اُن کی شمس تبریزسے ملاقات ہوئی، اور اُن کی عقیدت نے اُن کے دل اور روح کو اپنی گرفت میں لیا، اُسی دن سے اُن کے اندر ایک انقلاب بپا ہو گیا۔اُن کے وجود میں ایک آگ سی بھڑک اٹھی، گویا ایک چنگاری بارود کے انبار پر جاگری اور شعلے اٹھنے لگے۔

وہ خود اشعری مسلک ہیں، لیکن اُن کی مثنوی بے شک دنیا کی عظیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اُن کے تمام اشعار ایک طوفان اورایک تحریک ہیں ۔اُنہوں نے ”دیوانِ شمس“ کو اپنے محبوب و مرادکی یاد میں نظم کیا ہے اورمثنوی میں بھی کثرت سے اُن کویاد کیا ہے۔

مثنوی میں ہم مولاناروم کو دیکھتے ہیں کہ وہ ایک نکتہ بیان کرنا چاہتے ہیں، لیکن جوں ہی اُنہیں ”شمس“کی یاد آتی ہے، اُن کی روح میں ایک طوفان سا برپا ہوجاتا ہے اور اُن کے وجود میں طوفانی لہریں سی اٹھنے لگتی ہیں، وہ کہتے ہیں :

این نفس جان دامنم برتافتہ است
بوی پیراہان یوسف یافتہ است

اس نے میرے دامن کو اپنا اسیر کرلیا ہے
گویا پیرہنِ یوسف کی خوشبو پالی ہے

کز برائی حق صحبت سالہا
باز گو رمزی آزان خوش حالہا

سالہا سال کی رفاقت کی خاطر
ان حسین لمحات کا راز پھر سے دہرادے

تا زمین و آسمان خندان شود
عقل و روح و دیدہ صد چندان شود

تاکہ زمین اور آسمان مسکرائیں
عقل و روح اور نگاہیں سوگنا طاقتور ہو جائیں

فتم ای دور اوفتادہ از حبیب
ہمچو بیماری کہ دور است از طبیب

میں نے کہا، وہ جو دوست سے بہت دور ہو گیا ہے
اس بیمار کی مانندہے جو طبیب سے دُورہے

من چہ گویم یک رگم ہشیار نیست
شرحِ آن یاری کہ او را یار نیست

میں کیا کہوں کہ میری کوئی رگ ہوش میں نہیں ہے
اس دوست کے لیے جو اپنے دوست کو کھو چکا ہے

شرحِ این ہجران و این خونِ جگر
این زمان بگذار تا وقتِ دِگر

اس فراق اور اس خونِ جگر کی باتیں
اس وقت کو بھول جا کسی اور وقت تک

فتنہ و آشوب و خونریزی مجو
بیش از این از شمس تبریزی مگو

فتنہ، بلوہ اور خونریزی مت چاہو
اس سے زیادہ شمس تبریز کے بارے میں زبان نہ کھولو

اور یہ حافظ کے اس قول کا حقیقی مصداق ہے :

بلبل از فیض گُل آموخت سخن ورنہ نبود
این ہمہ قول و غزل تعبیہ در منقارش

بلبل نے نغمہ سنجی گُل سے سیکھی ورنہ
یہ فصاحت و نغمگی اس کی منقار میں نہ ہوتی

اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کوشش اور کشش یا جد و جہد اور انجذاب ساتھ ساتھ ہونا چاہیے۔ کشش کے بغیر کوشش بے کار ہوتی ہے، اسی طرح جیسے کوشش کے بغیر کشش کسی کام کی نہیں ہوتی۔

۱۔ شرح اشارات۔ج۳۔ص۳۸۳۔طبع جدید

۲۔ عشق کے چند عیوب بھی ہیں ۔ ان میں سے ایک عیب یہ ہے کہ عاشق، معشوق کے حسن میں غرق ہوجانے کی باعث اسکی خامیوں سے غافل ہوجاتاہے:حُبُّ الشَّیْ ءِ یُعْمی وَیُصِمُّ۔ یعنی کسی بھی شئے کی محبت اندھا اور بہرا بنادیتی ہے : وَمَنْ عَشِقَ شَیْئاً أَعْشیٰ بَصَرَہُ وَاَمْرَضَ قَلْبَہُ۔( جو کوئی کسی چیز سے محبت کرتا ہے، تو یہ محبت اسکی نظر کو ناقص اور دل کو مریض بنادیتی ہے۔ نہج البلاغہ۔خطبہ۱۰۷ )

سعدی، گلستان میں کہتے ہیں: ”ہر شخص کو اپنی عقل کا مل اور اپنا بچہ خوبصورت نظر آتا ہے ۔“ (عشق کا یہ) منفی اثر ہماری گزشتہ گفتگو سے متصادم نہیں ہے، جس میں ہم نے بیان کیا تھا کہ عشق فہم و ادراک کی حساسیت کا باعث ہوتا ہے۔ فہم و ادراک کی حساسیت اس لحاظ سے ہے کہ انسان کو کند ذہنی کی کیفیت سے نکال کر اسکے قوہ کو متحرک کرتا ہے۔ لیکن عشق کا منفی اثر یہ نہیں ہے کہ وہ انسان کو غبی اور کندذہن کرتا ہو، بلکہ یہ ہے کہ اسے غافل کردیتا ہے۔ کند ذہنی اور غفلت دو علیحدہ علیحدہ باتیں ہیں۔بسا اوقات کند ذہن انسان اپنے احساسات میں توازن قائم رکھنے کی باعث غفلت میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔

۳۔بحار الانوار۔ جلد ۱۵۔ ص۵۱۔کتاب العشرہ ۔ طبع قدیم

۴۔اہلِ منطق و استدلال کے پاؤں لکڑی کے ہیں (یعنی وہ بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہیں) اور لکڑی کے پاؤں سخت بے اعتبار ہوتے ہیں ۔

۵۔مثنوئ مولانا روم

۶۔ حافظ، اگر تمہیں وصال (محبوبِ حقیقی ) کی تمنا ہے، تو کسی اہلِ ہنر کی درگاہ کی خاک بن جاؤ۔

۷۔علامہ طبا طبائی