اسلامی فرقوں کا ایک دوسرے پر اثر
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
خوارج کے حالات کا مطالعہ ہمارے لیے اس نقطۂ نظر سے اہمیت کا حامل ہے کہ ہم یہ بات سمجھ سکیں کہ اُنہوں نے سیاسی وعقیدتی لحاظ سے نیز مزاج و طبیعت، فقہ اور احکام کے اعتبار سے اسلامی تاریخ پر کس قدر اثرات مرتب کیے ہیں۔
ہر چند مختلف فرقے اور گروہ اپنے شعائر کے اعتبار سے ایک دوسرے سے دور ہیں، لیکن کبھی کبھی ایک مذہب کی روح دوسرے مذہب میں حلول کر جاتی ہے اور وہ فرقہ باوجود یہ کہ اس مذہب کامخالف ہوتا ہے، لیکن پھر بھی اسکی روح اور مفہوم اپنائے ہوئے ہوتاہے ۔آدمی کی فطرت چور ہے ۔کبھی کبھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو مثلاً سنّی ہوتے ہیں لیکن اُن کی روح اور باطن شیعہ ہوتے ہیں، اور کبھی اسکے برعکس بھی ہوتا ہے۔کبھی کبھی کوئی شخص طبیعتاً شریعت اور اسکے ظواہر کا پابند ہوتا ہے، لیکن روح کے اعتبار سے صوفی ہوتا ہے اور کبھی اسکے بر عکس ہوتاہے۔اسی طرح بعض لوگ ممکن ہے دکھاوے کے طور پر اور شعار کے اعتبار سے شیعہ ہوں، لیکن روحاًاور عملاً خوارج ہوں ۔ یہ بات افراد پر بھی صادق آتی ہے اور اُمتوں اور اقوام پر بھی ۔
جب مختلف مذاہب کے لوگ ایک ہی معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوں، تو ہر چند ان کے شعائر محفوظ ہوں، لیکن اُن کے عقائد اور طبائع ایک دوسرے میں سرایت کر جاتے ہیں ۔مثلاً قمہ زنی اور طبل اور بگل بجانے کی رسوم نے قفقاز کے آرتھوڈکس کے یہاں سے ایران میں سرایت کر گئیں اور کیونکہ لوگوں کی طبیعت انہیں قبول کرنے پر آمادہ تھی، اس لیے بجلی کی طرح ہر سو پھیل گئیں۔
لہٰذا ہمیں مختلف فرقوں کی روح کو سمجھنا چاہیے ۔ کبھی کوئی فرقہ حُسنِ ظن اور ”ضَعْ فِعْلَ اَخیکَ عَلیٰ اَحْسَنِہ۔“کی پیدا وار ہوتا ہے، برادرانِ اہلِ سنت کی مانند جو شخصیتوں کے ساتھ حُسنِ ظن کی پیدا وار ہیں ۔ اور کوئی فرقہ ایک خاص طرزِ فکر اور اس نظریئے کی پیداوار ہوتاہے کہ افراد اور شخصیات کی بجائے اسلامی اصولوں کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ایسے لوگ فطرتاً نقّاد ہوتے ہیں، جیسے ابتدائی دور کے شیعہ ۔کوئی فرقہ باطن اور روح کی اہمیت کا قائل اور باطن کی تاویل کرنے والا ہوتا ہے، جیسے صوفیہ اور کوئی فرقہ تعصب اور جمود کی پیدا وار جیسے خوارج ۔
اگر ہم فرقوں کی روح اور اُن کے ابتدائی تاریخی حوادث کو جانتے ہوں، تو بہتر طور پر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ بعد کی صدیوں میں کون سے عقائد ایک سے دوسرے فرقے تک پہنچے اور اپنے شعائر اور ناموں کو محفوظ رکھنے کے باوجود ایک فرقے نے دوسرے کی روح کو اپنا لیا ۔اس اعتبار سے عقائد اور افکار زبانوں کی مانند ہیں، کہ بغیر کسی شعوری کوشش کے ایک قوم کی زبان کے الفاظ دوسری قوم کی زبان میں شامل ہو جاتے ہیں، جیسا کہ ایران کی فتح کے بعد مسلمانوں کے ذریعے عربی زبان کے الفاظ فارسی زبان میں داخل ہوگئے اور اسکے برعکس فارسی کے الفاظ اور وہ بھی کئی ہزار عربی زبان میں داخل ہو گئے ۔ اسی طرح عربی اور فارسی زبانوں پر ترکی زبان کے اثرات ہیں۔ مثلاً متوکّل کے دور کی ترکی اور سلجو قیوں اور مغلوں کے دور کی ترکی ۔ یہی حال دنیا کی دوسری زبانوں کاہے اور اسی طرح ذوق اور سلیقے بھی ہوتے ہیں۔
خوارج کا طرزِ تفکر اور اُن کے افکار کی روح( فکری جمود اور دین سے عقل کو جدا کرنا )نے طولِ تاریخ میں کئی شکلوں میں اسلامی معاشرے کے اندر رخنہ پیدا کیا ہے ۔اگرچہ تمام اسلامی فرقے اپنے آپ کو ان کا مخالف قرار دیتے ہیں، لیکن ہمیں خوارج کی روح ان کے طرزِ فکر میں کار فرما نظر آتی ہے، اور اسکی وجہ وہی ہے جس کے متعلق ہم نے عرض کیا ہے کہ: آدمی کی فطرت چور ہے اور باہمی میل جول نے اس چوری کو آسان کر دیا ہے ۔
ہمیشہ کچھ لوگ خوارج کے مسلک پرہوتے ہیں، جن کا وطیرہ ہر نئی چیز کی مخالفت کرناہے، یہاں تک کہ وہ وسائلِ زندگی کو (جن کے متعلق ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلام میں کسی مادّی وسیلے اور ظاہر شکل کو تقدس حاصل نہیں) بھی تقدس کا رنگ دیتے ہیں اور ہر نئے وسیلے سے استفادے کو کفر اور لا دینیت قرار دیتے ہیں۔
اسلام کے اعتقادی، علمی اور اسی طرح فقہی مکاتب میں بھی، ہم ایسے مکاتب کو دیکھتے ہیں جو تعقل اور تدّین میں علیحدگی کی روح کی پیداوار ہیں، اور ان کامکتب ہو بہو خوارج کی فکر کاعکاس ہے۔ ان کے یہاں حقیقت کو جاننے یا کسی فرعی قانون کے استخراج کے لیے عقل کے استعمال کو مکمل طور پر مسترد کیاگیا ہے، وہ عقل کی پیروی کو بدعت اور بے دینی کہتے ہیں، حالانکہ قرآنِ مجیدنے بہت سی آیات میں انسان کو عقل کی طرف بلایا اور انسانی بصیرت کو دعوتِ الٰہی کی پشت پناہ قرار دیا ہے ۔
معتزلہ، جو دوسری صدی ہجری کے اوائل میں وجود میں آئے۔ اُن کی پیدائش کفراور ایمان کے مفہوم اور تفسیر پر بحث کے نتیجے میں ہوئی، کہ آیا گناہِ کبیرہ کا ارتکاب موجبِ کفر ہے یا نہیں ۔اور یوں لامحالہ ان کی پیدائش کا تعلق خوارج کے ساتھ ہے۔ وہ کسی قدر آزادانہ طور پر غور و فکر کرنا چاہتے تھے، اور ایک حیاتِ عقلی وجود میں لانے کے خواہشمند تھے۔ اگرچہ وہ علمی اصول و مبانی سے محروم تھے، تاہم اسلامی مسائل کوایک حد تک آزاد نہ غور و فکر اور تدّبر کا موضوع قرار دیتے تھے، احادیث پر کسی حد تک تنقید کرتے تھے اور صرف اُن آراء اور نظر یات کو قابلِ پیروی سمجھتے تھے، جن پر اُن کے اپنے عقیدے کے مطابق تحقیق یا اجتہاد کیا گیا ہو ۔
ان لوگوں کو شروع ہی سے اہلِ حدیث اور ظاہر پرستوں کی مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔وہ جو صرف حدیث کے ظواہر کو حجت سمجھتے اور قرآن و حدیث کی روح سے کوئی واسطہ نہ رکھتے تھے اور عقل کے صریح حکم کوکوئی اہمیت نہیں دیتے تھے ۔جتنے معتزلہ غور و فکر کی اہمیت کے قائل تھے، وہ اتنے ہی صرف ظواہر کی قدر و قیمت کے قائل تھے ۔
مکتبِ اعتزال کی عمر ڈیڑھ سو سال ہونے تک یہ لوگ عجیب قسم کے نشیب و فراز سے دوچار رہے۔ یہاں تک کہ آخرکار اشعری مذہب وجود میں آیا، اور یہ لوگ یکبارگی مطلق عقلی تفکر اور خالص فلسفیانہ محاسبات کے منکر ہو گئے ۔ان کا دعویٰ تھا کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ جو روایات ان تک پہنچی ہیں، آنکھیں بند کرکے ان کی ظاہری تعبیر پر عمل کریں اور معنی کی گہرائی میں تدّبر اور تفکر نہ کریں، اس سلسلے میں ہر قسم کا سوال و جواب اور چوں و چرا بدعت ہے۔امام احمد بن حنبل جو اہلِ سنت کے ائمۂ اربعہ میں سے ہیں، معتزلہ کے طرزِ فکر کی سخت مخالفت کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ انہیں قید میں ڈال دیاگیااور انہیں کوڑوں کی سزا دی گئی۔ لیکن اسکے باوجود انہوں نے اپنی مخالفت جاری رکھی ۔
آخرکار اشعری کامیاب ہوئے اور اُنہوں نے عقلی طرزِ فکر کی بساط لپیٹ دی، ان کی یہ کامیابی عالمِ اسلام کی عقلی زندگی پر ایک سنگین ضرب ثابت ہوئی ۔
اشاعر ہ، معتزلہ کو اصحابِ بدعت سمجھتے تھے۔ ایک اشعری شاعر نے اپنے مذہب کی کامیابی کے بعد کہا :
ذَھَبَتْ دَوْلَۃُ اَصحابِ الْبِدَع
وَوَھیٰ حَبْلُھُمْ ثُمَّ انْقَطَع
وَتَداعیٰ بِا نْصِرافِ جَمْعِھِمْ
حِزْبُ اِبْلیسَ الَّذی کانَ جَمَع
ھَلْ لَھُمْ یاقَوْمُ فی بِدْعَتِھِمْ
مِنْ فَقیہٍ اَوْاِمامٍ یُتَّبَع
(المعتزلہ۔تالیف زہدی جار اﷲ ۔ص ۱۸۵)
”صاحبانِ بدعت کی قدرت کا زمانہ ختم ہوا، ان کی رسی ڈھیلی پڑ ی اور پھر ٹوٹ گئی۔ وہ گروہ جسے شیطان نے اکٹھا کر دیا تھا ۔انہوں نے ایک دوسرے کو پکا را کہ گروہ کو منتشر کر دیں۔اے ہم مسلکو ! کیا اپنی بدعتوں میں ان کا کوئی قابلِ تقلید فقیہ یا امام تھا؟“
مکتبِ اخباریت بھی (جو ایک شیعی فقہی مکتب ہے اورجو گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری میں اپنی قدرت کے عروج پر تھا، اہلِ سنت کے ظاہریوں اور اہلِ حدیث کے بہت قریب ہے، اورفقہی راہ و روش کے اعتبار سے دونوں ہی مکاتب ایک ہی راہ پر ہیں۔ ان کا واحد اختلاف اُن احادیث کے بارے میں ہے جن کی پیروی کرنی چاہیے) تعقل اور تدّین میں جدائی کی ایک قسم ہے ۔
اخباری حضرات جنہوں نے عقل کو مکمل طور پر معطل کر دیا ہے، اور متون سے اسلامی احکام کے استخراج کے سلسلے میں ادراکِ عقلی کی اہمیت اور حجیت کو ترک کر چکے ہیں اور اسکی پیروی کو حرام سمجھتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی تالیفات میں اصولیوں (ایک دوسرے شیعی فقہی مکتب کے حامیوں) پر سخت تنقید کی ہے اورکہتے ہیں کہ صرف کتاب و سنت حجت ہیں ۔ البتہ قرآن کے حجت ہونے کو بھی وہ سنت اور حدیث کی تفسیرکی راہ سے تسلیم کرتے ہیں، اور اُنہوں نے در حقیقت قرآن کو بھی حجیت سے گرادیا ہے اور صرف حدیث کے ظاہر کو پیروی کے قابل سمجھتے ہیں۔
ہم اِس وقت اسلام میں مختلف طرز ہائے فکر کا جائزہ لینے اور اُن مکاتب پر بحث کرنا نہیں چاہتے جو دین کو عقل سے جدا کرتے ہیں، جو کہ خوارج کے مذہب کی روح ہے ۔اس بحث کا دامن بہت وسیع ہے۔ ہمارا واحدمقصد مختلف فرقوں کے ایک دوسرے پر اثرات کی جانب اشارہ کرنا اور یہ بتانا ہے کہ اگر چہ خوارج کا مذہب زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا لیکن اسکی روح تمام اسلامی ادوار اور ہر صدی میں جلوہ گر رہی ہے ۔یہاں تک کہ آج بھی دنیائے اسلام کے چند روشن فکر اور اہلِ قلم ان کے طرزِ فکر کو جدید اور عصری زبان میں لے آئے ہیں اور اُنہوں نے اسے حسی فلسفے (Empirical Philosophy) سے جوڑ دیا ہے ۔