جاذبہ ودافعۂ علی

حبِ علی ؑ ‘ قرآن و سنت میں

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

گزشتہ بحثوں نے محبت کی تاثیر اور اُسکی قدر وقیمت واضح کی، اور ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ پاک طینت لوگوں کے ساتھ عقیدت اور محبت خود مقصد اورمنزل نہیں ہے، بلکہ اصلاح اور تہذیبِ نفس کا ایک ذریعہ ہے ۔ اب ہم یہ جائزہ لیں گے کہ اسلام اور قرآن نے ہمارے لیے کسی محبوب کا انتخاب کیا ہے یا نہیں۔

قرآن گزشتہ انبیا کی بات نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اُن سب (انبیا) نے کہا: ”ہم لوگوں سے کوئی اجر نہیں چاہتے، ہمارا اجر صرف خدا کے ذمے ہے۔“ لیکن خداوندِ عالم پیغمبر خاتم ؐ سے خطاب کرتا ہے:

قُلْ لَّآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی۔

کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، سوائے اپنے اقربا سے محبت کے۔ (سورۂ سبا ۳۴۔ آیت۴۷)

یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تمام پیغمبروں نے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کیا، لیکن نبی اکرمؐ نے اپنی رسالت کے اجر کا مطالبہ کیا، اور لوگوں سے اپنے اقربا کی محبت بطورِ اجر رِسالت طلب فرمائی ؟

خودقرآن اس سوال کا جواب دیتا ہے:

” قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَہُوَ لَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اﷲِ۔“

”کہہ دیجئے کہ جو اجر میں نے مانگا ہے، اس میں تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے، میرا اجر صرف خدا کے پاس ہے۔“( سورۂ شوریٰ۴۲۔ آیت ۲۳)

یعنی میں نے جو کچھ اجرِرسالت کے طورپر طلب کیا ہے، اُس کا فائدہ تمہیں پہنچے گا، مجھے نہیں۔یہ محبت خود تمہاری اصلاح اور تکامل کے لیے ایک کمند ہے۔ اس کا نام ”اجر“ ہے۔ لیکن در حقیقت ایسی بھلائی ہے جو میں خود تمہارے لیے تجویز کر رہا ہوں۔ اس اعتبار سے کہ اہلِ بیت ؑ اور پیغمبر ؐکے اقربا وہ لوگ ہیں جو آلودگی کے نزدیک نہیں جاتے اور جن کا دامن پاک وپاکیزہ ہے۔جو طہارت و پاکیزگی کا خزینہ ہیں (حُجورٌ طابَتْ وَطَھُرَتْ) اُن کے ساتھ عشق و محبت سے حق سے حق کی اطاعت اور فضائل کی پیروی کے سوا کوئی اور نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، اور اُن کی محبت ہی ہے جو اِکسیر کی طرح ماہیت تبدیل کرتی اور کامل بناتی ہے ۔

”قربیٰ“سے مراد جو بھی ہو، یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اس کا واضح ترین مصداق حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

فخر الدین راضی کہتے ہیں:

”زمخشری نے کشاف میں روایت کی ہے: ” جب یہ آیت نازل ہوئی، تو لوگوں نے کہا: یارسول اﷲ ؐ ! وہ قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ نے فرمایا: علی و فاطمہ اور اُن کی اولاد۔“

اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ چار افراد پیغمبرؐ کے ”اقربا“ ہیں اور لوگوں کے لیے ان سے محبت اور ان کا احترام واجب ہے۔اس بارے میں مختلف پہلوؤں سے استدلال کیا جا سکتا ہے:

۱۔ آیت: ”اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی۔“

۲۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اکرم ؐ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے، اور فرماتے تھے: ”فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جواسے آزار پہنچائے وہ مجھے آزار پہنچاتاہے۔“ اور علی و حسنین علیہم السلام سے بھی محبت فرماتے تھے، جیسے کہ اس بارے میں کثرت سے اور متواتر روایات آئی ہیں۔پس ان کی محبت ساری امت پر فرض ہے۔ (۱) کیونکہ قرآن فرماتا ہے: وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ (۲)۔ یعنی پیغمبر کی پیروی کرو، شایدہدایت پاجاؤ۔“ اور پھر فرماتا ہے :لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ(۳) ” تمہارے لیے اﷲ کے رسول کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔“

یہ سب (آیات) اس بات کی دلیل ہیں کہ تمام مسلمانوں پر آلِ محمد، جو علی و فاطمہ اور حسنین علیہم السلام ہیں، کی محبت واجب ہے۔ (۴ )

علی ؑ کی محبت اور دوستی کے متعلق پیغمبر اکرؐم کی اور بھی بہت سی روایات ہم تک پہنچی ہیں:

*۔ ابن اثیر نقل کرتے ہیں پیغمبر اسلام ؐنے حضرت علی ؑ کو مخاطب کر کے فرمایا:

”اے علی خدا نے تمہیں ایسی چیزوں سے زینت دی ہے، کہ اسکے بندوں کے نزدیک ان سے زیادہ محبوب اور کوئی زینت نہیں ہے ۔ تمہارے لیے اس طرح دنیا سے کنارہ کشی قرار دی کہ نہ تم دنیا کی کسی چیز سے فائدہ اٹھاؤ اور نہ دنیا تم سے فائدہ اٹھا سکے، تمہیں مساکین کی محبت سے نوازا، وہ تمہاری امامت سے خوش ہیں اورتم ان کی اطاعت و پیروی پر راضی۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ شخص جو تم سے محبت کرتا ہے اور تمہاری محبت میں سچاہے اور وائے ہو اُس پر جو تم سے دشمنی رکھتاہے اور تمہارے خلاف جھوٹ بولتا ہے۔“ (۵ )

*۔ سیوطی نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم ؐنے فرمایا:

”علی ؑ کی دوستی ایمان ہے اور اُن سے دشمنی نفاق۔“(۶ )

*۔ ابو نعیم سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلامؐنے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا:

”کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز سے آگاہ کروں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا، تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں اے اﷲ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: یہ علی ؑ ہیں، ان سے محبت کرو جس طرح مجھ سے محبت کرتے ہو اور ان کا احترام کرو جیسے میرااحترام کرتے ہو، کیونکہ خداوند عالم نے جبرئیل کے ذریعے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ بات تمہیں بتا دوں۔“ (۷)

نیز اہلِ سنت نے پیغمبر اکرم ؐسے کئی روایتیں نقل کی ہیں جن میں حضرت علی ؑ کے چہرے کی طرف دیکھنے اور حضرت علی ؑ کے فضائل بیان کرنے کو عبادت قرار دیا گیا ہے:

*۔ محب طبری حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

”میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ وہ کثرت سے علی ؑ کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے ہیں، میں نے کہا: بابا جان ! میں دیکھتی ہوں کہ آپ علی ؑ کے چہرے کی طرف بہت زیادہ دیکھتے ہیں؟انہوں نے کہا:اے بیٹی! میں نے پیغمبر خداؐسے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا: علی ؑ کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔“(۸)

*۔ ابن حجر حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر ؐنے فرمایا:

”میرے بھائیوں میں بہترین بھائی علی ہے، اور چچاؤں میں بہترین چچا حمزہ ہیں۔ اور علی کا ذکر اور اُن کے بارے میں گفتگو عبادت ہے۔“(۹)

حضرت علی علیہ السلام خدااور رسول کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ محبوب فرد تھے۔ اور ظاہر ہے کہ آپ محبوبوں میں سے بہترین محبوب تھے۔ انس بن مالک کہتے ہیں:

”ہر روز انصار کی اولاد میں سے ایک شخص پیغمبر ؐکے کاموں کو انجام دیا کرتا تھا۔ ایک دن میری باری تھی، اُمّ ایمن نے ایک بھُنا ہوا پرندہ پیغمبرکی خدمت میں پیش کیا اور کہا: اے اﷲ کے رسول ؐمیں نے خود اس پرندے کو پکڑا ہے اور آپ کی خاطر پکایا ہے۔حضرت ؐنے فرمایا: خدایا!اپنے محبوب ترین بندے کو بھیج، جواس غذا میں میرے ساتھ شریک ہو۔ اسی اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی۔ پیغمبر ؐ نے فرمایا: انس دروازہ کھولو۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ خدا کرے کوئی انصاری ہو، لیکن دیکھا کہ علی ؑ ہیں۔ میں نے اُن سے کہا: پیغمبرؐ مصروف ہیں اور واپس آکر اپنی جگہ کھڑا ہو گیا۔ دوبارہ دستک ہوئی۔ پیغمبر ؐنے فرمایا: دروازہ کھو لو۔ میں پھر دعا کررہا تھا کہ کوئی انصاری ہو۔ میں نے دروازہ کھولا تو دوبارہ علی ؑ تھے۔ میں نے پھراُن سے کہا کہ پیغمبر ؐمصروف ہیں اور اپنی جگہ واپس آ گیا۔ دروازہ پھر کھٹکھٹایا گیا۔ پیغمبر ؐنے فرمایا: انس دروازہ کھولو اور اُنہیں گھر میں لے آؤ، تم پہلے شخص نہیں ہو جسے اپنی قوم سے محبت ہے، آنے والاانصاری نہیں ہے۔ میں گیا اور علی ؑ کو گھر میں لے آیا اور اُنہوں نے پیغمبر ؐکے ساتھ بھنا ہوا پرندہ تناول کیا۔“(۱۰)

۱۔ پیغمبر کی ان سے محبت شخصی اور ذاتی پہلو نہیں رکھتی۔ یعنی صرف اس لیے نہیں ہے کہ مثلا آپ کی اولاد یا اولاد کی اولاد ہیں۔ اور یہ کہ اگر ان کی جگہ کوئی اور بھی ہوتاتو آپ ؐ ان سے محبت کرتے، بلکہ پیغمبر ؐاس لیے ان سے محبت کرتے تھے کہ وہ مثالی افراد تھے اور خدا ان کو پسند کرتا تھا، ورنہ پیغمبرکی اور بھی اولادیں تھیں جن سے نہ خودآپ کو اس طرح کی محبت تھی اور نہ ہی اُمت پران کی محبت اس طرح فرض کی گئی۔

۲۔سورۂ اعراف۷۔ آیت۱۵۸

۳۔سورۂ احزاب ۳۳۔ آیت۲۱

۴۔تفسیرکبیر فخرالدین رازی ۔ج ۲۷۔ص ۱۶۶۔ طبع مصر

۵۔اسد الغابہ۔ ج۴۔ص ۲۳

۶۔کنز العمال۔ جمع الجوامع سیوطی ۔ج ۶۔ص ۱۵۶

۷۔ حلیۃ الاولیاء۔ ج ۱۔ ص ۶۳( اس سلسلے میں بہت زیادہ روایات موجود ہیں اور ہم نے اہلِ سنت کی کتابوں میں نوے سے زیادہ ایسی احادیث دیکھی ہیں، جو سب امیر المومنین حضرت علی ؑ سے محبت کے موضوع پر ہیں۔ شیعہ کتب میں بھی بہت زیادہ روایات آئی ہیں اورمرحوم مجلسی نے بحار الانوار کی جلد۳۹۔طبع جدید میں ”حب و بغضِ امیر المومنین“ کے بارے میں ایک باب رکھا ہے اور اس باب میں ایک سو تئیس روایات نقل کی ہیں)

۸۔ الریاض النضرۃ۔ج۲۔ ص ۲۱۹( جہاں تک ہم نے دیکھا ہے تقریبا بیس مزید روایات اسی موضوع پر ہیں جو کتبِ اہلِ سنت میں نقل کی گئی ہیں)

۹۔صواعقِ محرقہ ۔ ص۷۴( اسی موضوع پر پانچ اور روایات اہلِ سنت کی مختلف کتابوں میں نقل کی گئی ہیں)

۱۰ ۔ مستدرکِ صحیحین ۔ج ۳۔ص ۱۳۱( یہ واقعہ مختلف انداز سے اٹھارہ سے زیادہ طریقوں سے اہلِ سنت کی معتبر کتابوں میں نقل کیا گیا ہے)