تشیّع‘مکتبِ عشق و محبت
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
دوسرے مذاہب پر شیعیت کو جوعظیم امتیازات حاصل ہیں، ان میں سے ایک امتیازیہ ہے کہ اسکی اساس اور بنیاد محبت پر قائم ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے ہی سے، جب اس مذہب کی بنیاد پڑی، محبت اور دوستی اسکے ساتھ ساتھ رہی ہے۔ جہاں ہم رسولِ اکرؐم کی زبان سے ”عَلِیٌّ وَ شیعَتُہُ ھُمْ الْفاءِزونَ۔“(۱) کا جملہ سنتے ہیں، وہیں علی ؑ کے گرد ایسے افراد کوبھی دیکھتے ہیں جو ان کے عشق میں سرشار، ان کے محب اور ان کے دیوانے ہیں۔
لہٰذا تشیع عشق و شیفتگی کا مذہب ہے۔ حضرت علی ؑ کے ساتھ تولاّ عشق و محبت کا مکتب ہے۔ تشیع میں محبت کا عنصرانتہا درجے کادخل رکھتاہے۔شیعیت کی تاریخ عاشقوں، شیدائیوں اورسر دھڑ کی بازی لگا دینے والے جانبازوں سے بھری پڑی ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام وہ ہیں جو لوگوں پرحدودِ الٰہی جاری کیا کرتے، انہیں تازیانے مارا کرتے اور بسا اوقات شرعی قوانین کے عین مطابق کسی کا ہاتھ کاٹتے، لیکن اس کے باوجود لوگ ان سے منہ نہ پھیرتے تھے، اورآپ کے لیے اُن کی محبت میں کوئی کمی نہ آتی تھی ۔آپ خود فرماتے ہیں:
لَوْضَرَبْتُ خَیْشومَ الْمُؤْمِنِ بِسَیْفی ھٰذا عَلیٰ اَنْ یُبْغِضَنی ما اَبْغَضَنی، وَلَوْصَبَبْتُ الدُّنْیا بِجَمّا تِھا عَلَی الْمُنافِقِ عَلیٰ اَنْ یُحِبَّنی ما أَحَبَّنی، وَذٰلِکَ اَنَّہُ قُضِیَ فَا نْقَضیٰ عَلیٰ لِسانِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ اَنَّہُ قالَ: یاعَلیُّ لایُبْغِضُکَ مُؤْمِنٌ وَلا یُحِبُّکَ مُنافِقٌ۔
اگر میں اپنی اس تلوار سے مومن کی ناک پر ضرب لگاؤں کہ وہ میرا دشمن ہو جائے، تو وہ ہرگز مجھ سے دشمنی نہیں کرے گا، اور اگر ساری دنیا کسی منافق کے قدموں میں ڈھیر کردوں کہ وہ مجھے سے محبت کرنے لگے، تب بھی وہ کسی صورت مجھ سے محبت نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ تو گزر چکا اور پیغمبر امیؐ کی زبان پر جاری ہو چکا ہے کہ : اے علی مومن تم سے دشمنی نہیں رکھتا اور منافق تمہیں دوست نہیں رکھتا۔ ( نہج البلاغہ۔کلماتِ قصار۴۵)
علی ؑ فطرتوں اور طینتوں کو پرکھنے کا پیمانہ ہیں۔جس شخص کی فطرت سلامت اور طینت پاکیزہ ہو، وہ اُن سے رنجیدہ نہیں ہوتا، چاہے اس پر ان کی شمشیر برس جائے، اور ایسا شخص جس کی فطرت آلودہ ہو، وہ آپ سے محبت نہیں کر سکتا، چاہے وہ اس پر احسانات کی بارش ہی کیوں نہ کر دیں۔کیونکہ علی ؑ حقیقتِ مجسّم کے سواکچھ اور نہیں ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں میں ایک با فضیلت اور با ایمان شخص تھا، افسوس کہ اس سے ایک لغزش سرزد ہوگئی، اور اس پر حد جاری کرنا ضروری ہوگیا ۔امیر المومنین ؑ نے ا س کا داہنا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس نے اس (کٹے ہوئے ہاتھ) کو بائیں ہاتھ سے پکڑا، اس سے خون ٹپک رہا تھا اور وہ اسے لیے جارہا تھا کہ سرکش خارجی ابن الکوَّاء نے اس موقع سے اپنے گروہ کے حق میں اور علی ؑ کے خلاف فائدہ اٹھانا چاہا، لہٰذا ہمدردانہ شکل بنا کر اسکے سامنے گیا اور کہنے لگا : تمہارا ہاتھ کس نے قطع کیا ہے ؟
اس نے جواب دیا :
قَطَعَ یَمینی سَیِّدُالْوَصِیّینَ وَقاءِدُ الْغُرِّالْمُحَجِّلینَ وَاَوْلَی النّاسِ
بِالْمُؤمِنینَ عَلیُّ بْنُ اَبی طالِبٍ، اِمامُ الْھُدیٰ ۔۔۔اَلسّابِقُ اِلیٰ جَنّاتِ النَّعیمِ، مُصادِمُ الْاَبْطالِ، اَلْمُنْتَقِمُ مِنَ الْجُھّالِ، مُعْطِی الزَّکاۃِ۔۔۔ اَلْھادی اِلَی الرَّشادِوَالنّاطِقُ بِا لسَّدادِ، شُجاعٌ مَکِّیٌّ، جَحْجاحٌ وَفِیٌّ...“
” میرا ہاتھ پیغمبروں کے جانشینوں کے سردار، قیامت کے دن سرخرو ہونے والوں کے پیشوا، مومنوں پر سب سے زیادہ حق رکھنے والے علی ابن ابی طالب، ہدایت کے امام، نعمت والی جنتوں کی طرف پہل کرنے والے، بہادروں کا مقابلہ کرنے والے، جاہلوں سے انتقام لینے والے، زکات ادا کرنے والے ۔۔۔، رشد و کمال کا راستہ دکھانے والے، سچ بات کہنے والے، مکّہ کے شجاع اور بزرگوارِ باوفا نے، قطع کیا ہے ۔۔ ۔“(۲)
ابن الکواء نے کہا: افسوس ہے تم پر ! انہوں نے تمہارا ہاتھ کاٹ دیا اور تم ان کی اس طرح تعریفیں بیان کر رہے ہو ؟
اس نے جواب دیا:
” میں کیوں نہ ان کی تعریف کروں ؟جبکہ ان کی محبت میرے گوشت اور خون میں گندھ چکی ہے! خدا کی قسم انہوں نے میرا ہاتھ خدا کے مقرر کردہ قانون کے تحت قطع کیا ہے۔“
عشق اور عقیدت کے ایسے مظاہرے جو ہم علی ؑ اور اُن کے دوستوں کی تاریخ میں دیکھتے ہیں، ہمیں عشق و محبت کے مسئلے اور اس کے آثار کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
۱۔جلال الدین سیوطی درمنثور میں سورۂ بیّنہ کی ساتویں آیت کے ذیل میں ابن عساکر سے اور وہ جابر بن عبداﷲ انصاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہاہم پیغمبراسلام کی خدمت میں حاضر تھے، جہاں علی بھی حضور کی خدمت میں تشریف لا رہے تھے ۔حضور نے فرمایا : ”وَالَّذی نَفْسی بِیَدِہِ اِنَّ ھٰذا وَشیعَتَہُ ھُمُ الْفاءِزونَ یَوْمَ الْقِیامَۃِ۔“ یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، یہ شخص اور اسکے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہوں گے ۔“ اور مناوی کنوز الحقائق میں اس کو دو روایتوں سے نقل کرتے ہیں اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اور ابن حجر نے صواعق محرقہ میں اسی مضمون کو دوسرے طریقے سے نقل کیا ہے ۔
۲۔بحار الانوار ۔ج ۴۰۔ ص ۲۸۱، ۲۸۲۔طبع جدید، تفسیر کبیر فخر رازی سورۂ کہف۱۸ کی آیت ۹ ]اُمْ حَسِبْتَ۔۔۔[ کے ذیل میں۔