جاذبہ ودافعۂ علی

مؤمنوں کی باہمی محبت

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

اِنَّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے، عنقریب رحمان (خدا) لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کر دے گا۔ (سورۂ مریم۱۹۔آیت۹۶)

وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ۔

(خدا) نے تمہارے (میاں بیوی کے) درمیان مودّت اور رحمت قرار دی ہے۔ (سورۂ روم۳۰۔آیت۲۱)

اور یہی وہ محبت اور لگاؤ ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذرّیت کے لیے طلب کیا (۱) اور پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی خدا کے حکم سے اپنے رشتے داروں کے لیے طلب فرمایا (۲) اور جیسا کہ روایات سے پتاچلتا ہے، دین کی روح اور اس کا جوہر محبت کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔

برید عجلی کہتے ہیں :

” میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا ۔ایک مسافر، جو ایک طویل مسافت پیدل طے کر کے خراسان سے آیا تھا، امام کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ جب اُس نے اپنے جوتے اتارے، تو اسکے پیر زخمی تھے ۔کہنے لگا: خدا کی قسم ! مجھے اہلِ بیت کی محبت کے سوا کوئی اور چیز وہاں سے کھینچ کر نہیں لائی۔ امام ؑ نے فرمایا :

خدا کی قسم! اگر کوئی پتھر بھی ہم سے محبت کرے، تو خدا اس کو ہمارے ساتھ محشور کرے گا اور ہمارا قرب عطا فرمائے گا :

وَھَلِ الدّینُ اِلاَّالْحُبُّ۔

کیا دین محبت کے سوا کچھ اور ہے ؟ (۳)

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا:

”ہم اپنے بچوں کے نام آپ اور آپ کے اجداد کے ناموں پر رکھتے ہیں، کیاہمیں اس عمل کا کوئی فائدہ ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ”ہاں! کیوں نہیں، خدا کی قسم ”وَھَلِ الدّینُ اِلاَّالْحُبُّ۔)کیا دین محبت کے سوا کچھ اور ہے؟(“ اسکے بعدآپ نے (اپنی بات کی)تائید میں آیۂ شریفہ: اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(سورۂ آلِ عمران۳۔آیت۳۱) کی تلاوت فرمائی۔“(۴)

بنیادی طور پر محبت ہی ہے جومطیع بناتی ہے ۔عاشق کی مجال نہیں کہ وہ معشوق کی خواہش سے سرتابی کرے ۔ہم اس بات کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ایک جوان عاشق اپنی محبوبہ کی خاطر سب کچھ کر گزرتا ہے، اور اس پر اپنی ہر چیز قربان کر دیتا ہے ۔

جتنا انسان کو خداوند عالم سے عشق ہوتا ہے، جتنی اُس سے محبت ہوتی ہے، اتنا ہی وہ اسکی اطاعت اور پرستش کرتا ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایاہے :

تَعْصَی الْاِلٰہَ وَاَنْتََ تُظْھِرُ حُبَّہُ
ھٰذا لَعَمْری فِی الْفِعالِ بَدیعْ
لَوْکانَ حُبُّکَ صادِقاً لَاَ طَعْتَہُ
اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مُطیعُ

”خداکی نافرمانی کرواور اسکی محبت کا دم بھر و؟! میری جان کی قسم ! یہ عجیب و غریب طرزِ عمل ہے ۔ اگر تمہاری محبت سچّی ہوتی، تو تم یقیناًً اُسکی اطاعت کرتے، کیونکہ محب اپنے محبوب کا مطیع ہوتا ہے ۔“

۱۔ سورۂ ابراہیم۱۴۔آیت۳۷

۲۔ سورۂ شوریٰ، ۴۲۔آیت ۲۳

۳۔ سفینۃ البحار۔ج ۱۔ص۲۰۱۔مادۂ ”حب“

۴۔ سفینۃ البحار، ج ۱۔ص۶۶۲۔مادۂ ”سما“