خوارج کے اصولِ عقائد
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
خوارج کی فکر کی بنیاد چند چیزوں پرتھی :
۱۔ علی، عثمان، معاویہ، اصحابِ جمل اور اصحابِ حکمیت ( جو حکمیت پر راضی ہوئے) سب کے سب کافر ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جنہوں نے حکمیت کا مشورہ دیا مگر بعد میں توبہ کر لی۔
۲۔ ایسے تمام لوگ جو حضرت علی، حضرت عثمان اورمذکورہ بالا دوسرے لوگوں کے کفر کے قائل نہ ہوں، وہ سب بھی کافر ہیں۔
۳۔ ایمان محض دل سے عقیدہ رکھنے کا نام نہیں، بلکہ واجبات پر عمل اور منکرات کو ترک کرنا بھی ایمان میں شامل ہے۔ایمان، اعتقاد اور عمل کا مجموعہ ہے۔
۴۔ ظالم پیشوااور حکمراں کے خلاف بغاوت بغیر کسی شرط کے واجب ہے۔ وہ کہتے تھے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے کسی چیز کی شرط نہیں، اوراس حکمِ الٰہی کو ہر جگہ بغیر کسی استثنا کے انجام دیا جانا چاہیے۔(۱)
یہ لوگ انہی عقائد کے ساتھ جیا کرتے تھے اور اپنے سوا روئے زمین پر زندگی بسر کرنے والے تمام لوگوں کو کافر، واجب القتل اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنے والا سمجھتے تھے۔
خلافت کے بارے میں خوارج کا عقیدہ
خوارج کی واحد فکر جو عصرِ حاضر کے جدیدیت پسندوں کے یہاں اچھی نظر سے دیکھی جاتی ہے، وہ خلافت کے بارے میں اُن کا نظریہ ہے۔ اس بارے میں اُن کا نظریہ جمہوریت کی طرف پلٹتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خلافت آزادانہ انتخاب کے ذریعے قائم ہونی چاہیے اور اسکے لیے موزوں ترین شخص وہ ہے جو ایمان اور تقویٰ کاحامل ہو، خواہ اُس کا تعلق قریش سے ہو یا غیر قریش سے، ممتازاور مشہور قبیلے سے ہو یا گمنام اور پسماندہ قبیلے سے، عرب ہو یا غیر عرب۔انتخاب اور بیعت کے بعد اگر خلیفہ اسلامی معاشرے کے مفاد کے خلاف گامزن ہو، تو وہ خلافت سے معزول کر دیاجائے گااور اگر وہ انکار کرے، تو اُسکے خلاف جنگ کی جانی چاہیے، یہاں تک کہ وہ مارا جائے۔ (۲ )
خلافت کے بارے میں اُن کا نظریہ شیعوں کے نظریئے کے برخلاف ہے، جو کہتے ہیں کہ خلافت ایک امرِ الٰہی ہے اور خلیفہ کا تعین صرف اور صرف خدا کی طرف سے ہونا چاہیے، اور اسی طرح اُن کا نظریہ اہلِ سنت کے بھی برخلاف ہے، جو کہتے ہیں کہ خلافت کے حقدار صرف قریش ہیں اورجواس سلسلے میں ”اِنَّمَاالْاَءِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ“ کے جملے کو سَنَد قرار دیتے ہیں۔
بظاہر خلافت کے بارے میں ان کا یہ نظریہ ایسی چیز نہیں ہے جس کے وہ ابتدا ہی سے قائل رہے ہوں، بلکہ جیسا کہ ان کا مشہور نعرہ ”لاحُکْمَ اِلاِّﷲ“ عکاسی کرتا ہے اورنہج البلاغہ (۳) سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ ابتدا میں اس بات کے قائل تھے کہ افراد اور معاشرے کو کسی امام یاحکومت کی ضرورت نہیں ہے اور لوگوں کو خود کتابِ خداپر عمل کرنا چاہیے، لیکن بعد میں اُنہوں نے اس عقیدے کو ترک کر دیا اور خود عبداﷲ بن وَھَب راسِبی کی بیعت کر لی۔(۴ )
خلفا کے بارے میں خوارج کا عقیدہ
وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کو صحیح مانتے تھے۔ اس تصور کے ساتھ کہ اِن دونوں کوایک صحیح انتخاب کے ذریعے خلافت ملی تھی، مصالح کی راہ سے بھی منحرف نہیں ہوئے اور کسی جرم کے بھی مرتکب نہیں ہوئے۔ وہ حضرت عثمان اور حضرت علی کے انتخاب کو بھی صحیح سمجھتے تھے ۔ البتہ یہ کہتے تھے کہ حضرت عثمان اپنی خلافت کے چھٹے سال کے آخر میں راہ سے ہٹ گئے، اور اُنہوں نے مسلمانوں کے مصالح کونظرانداز کیا، لہٰذا وہ خلافت سے معزول قرار پائے، لیکن کیونکہ اُنہوں نے خلافت نہیں چھوڑی اس لیے کافر اور واجب القتل ہو گئے۔ حضرت علی نے بھی کیونکہ تحکیم کو قبول کیا اور اسکے بعد توبہ نہیں کی، لہٰذا وہ بھی کافر اور واجب القتل تھے۔ اسی لیے وہ حضرت عثمان کی خلافت کے ساتویں سال سے اورحضرت علی کی خلافت سے تحکیم کے بعد اعلانِ بیزاری( تبریٰ) کرتے تھے۔( ۵ )
وہ بقیہ خلفا سے بھی بیزاری کا اظہار کرتے تھے، اور ہمیشہ اُن کے ساتھ برسرِ پیکار رہے۔
۱۔ضحی الاسلام۔ج۳۔ص ۳۳۰۔نقل از کتاب ”الفَرق بین الفِرَق“
۲۔ضحی الاسلام۔ج۳۔ ص ۳۳۲
۳۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ ۴۰، شرح ابن ابی الحدید ۔ج ۲۔ ص ۳۰۸
۴۔ کامل ابن اثیر۔ ج ۳۔ ص ۳۳۶
۵۔الملل والنحل شہر ستانی