جاذبہ ودافعۂ علی

اس سے قطع نظر کہ عشق و محبت کی نوعیت کیا ہے( حیوانی جنسی ہو یا حیوانی نسلی یا انسانی) اور اس سے قطع نظر کہ محبوب کن صفات و خصوصیات کا حامل ہے (دلیراور شجاع ہے، فنکارہے یا عالم یا پھر مخصوص آداب و صفات اور اخلاق کا مالک ) وہ انسان کو خودی اور خود پرستی سے باہر نکالتا ہے۔ خود پرستی محدودیت اور حصار ہے ۔غیر سے عشق اس حصار کو مکمل طور پر توڑدیتا ہے ۔ جب تک انسان اپنے آپ سے باہر نہیں نکلتا، کمزور، ڈرپوک، بخیل، حاسد، بدخو اہ، بے صبر۱، خود پسند اور مغرور رہتاہے، اُسکی روح چنگاریوں سے عاری ہوتی ہے، اس میں جوش وولولہ نہیں ہوتا، ہمیشہ سرد اور خاموش رہتی ہے ۔لیکن وہ جوں ہی اپنی ذات سے باہر قدم نکالتا ہے اور اپنے خول کو توڑتا ہے، اسکی یہ بُری خصوصیات اور صفات بھی ختم ہوجاتی ہیں ۔

ہر کہ راجامہ زعشقی چاک شد
او ز حرص و عیب کلی پاک شد

وہ لالچ اور عیب سے یکسر پاک ہو گیا
جس کا جامہ عشق کی بدولت چاک ہو گیا

خود پرستی کا حصار توڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اس سے آزاد ہونے کے لیے اپنی ذات کے ساتھ محبت کو یکسر ختم کر دے ۔ حبِ ذات کے خاتمے کی کوشش بے معنی بات ہے ۔اپنی ذات سے محبت جسے ”حبِ ذات“ کہا جاتا ہے، غلطی سے انسان میں نہیں رکھ دی گئی ہے، جسے وہاں سے اٹھا پھینکنا ضروری ہو ۔انسان کی اصلاح اور تکمیل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مثلاً انسان کے وجود میں کچھ اضافی چیزیں رکھ دی گئی ہیں، اُن اضافی اور مضر چیزوں کا خاتمہ کر دینا چاہیے ۔باالفاظِ دیگر انسان کی اصلاح اس سے کسی شئے کو کم کردینا نہیں، بلکہ اسکی تکمیل اور اس میں اضافہ کرنا ہے۔

قدرت نے انسان پر فطری راستہ طے کرنے کی ذمے داری ڈالی ہے۔ یعنی تکامل اور افزائش کرنا، کمی اور کاستی نہیں۔

خود پرستی سے مقابلہ، دراصل ”اپنی محدودیت“ سے مقابلہ ہے۔ اسے اپنے آپ کو وسعت دینی چاہیے، اس نے اپنے گرد جس حصار کو کھینچا ہوا ہے، اسے ٹوٹنا چاہیے ۔(کیونکہ اس حصار کی وجہ سے وہ ایک فرد اور ایک شخص کے عنوان سے، اپنے سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کے سوا دوسری اشیا کو بیگانہ، اجنبی اور اپنے آپ سے باہر سمجھتا ہے)اسکی شخصیت کو اس قدر وسعت اختیارکرنی چاہیے کہ وہ تمام دوسرے انسانوں کو، بلکہ پوری کائنات کواپنے دامن میں سمیٹ لے۔

پس خودپرستی سے مقابلے کے معنی اپنی ذات کی محدودیت سے مقابلہ کرناہے۔لہٰذا خود پرستی افکار اور رجحانات کی محدودیت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

عشق، انسان کی محبت اور اسکے میلان کو اسکے وجود سے باہر کی جانب متوجہ کرتا ہے ۔ اسکے وجود کو وسعت عطا کرکے اسکی ہستی کے محور اور مرکز کو بدل دیتا ہے ۔ اسی لیے عشق اور محبت ایک بڑا اخلاقی اور تربیتی عنصر ہے، بشرطیکہ صحیح سمت میں اسکی رہنمائی کی جائے اور درست طریقے سے اس سے استفادہ کیا جائے ۔