جاذبہ ودافعۂ علی

قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کی سیاست

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

تیرہ سو سال سے مسلمانوں کے درمیان ” قرآن کو نیزے پر بلند کرنے“ کی سیاست کسی نہ کسی صورت سے رائج ہے ۔خاص طور پرجب مقدس مآب اور ظاہردار لوگوں کی تعداد زیادہ ہوجائے اور زہد و تقویٰ کی نمائش کا بازار گرم ہو، تو موقع پرست افرادکی طرف سے قرآن کو نوکِ نیزہ پر بلند کرنے کی سیات رائج ہو جاتی ہے۔اس صورتحال سے جو سبق حاصل کیے جانے چاہئیں وہ یہ ہیں:

الف: پہلا سبق یہ ہے کہ جب بھی جاہل، نادان اور بے خبر لوگ تقدس اور تقویٰ کے مظہر سمجھے جانے لگیں اور لوگ انہیں باعمل مسلمان کا نمونہ (model) سمجھنے لگیں، تو اس وقت چالاک مفاد پرستوں کو اچھا موقع ہاتھ آجاتا ہے ۔یہ عیارافراد ان لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے آلۂ کار بنا لیتے ہیں اور ان کی مدد سے حقیقی مصلحین کے افکار کی راہ میں مضبوط رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں ۔

کثرت سے دیکھا گیا ہے کہ اسلام دشمن عناصر نے اس ذریعے سے باقاعدہ فائدہ اٹھایا ہے۔ یعنی اُنہوں نے اسلام کی طاقت کو خود اسلام ہی کے خلاف استعمال کیا ہے ۔مغربی استعمار کو اس ذریعے سے فائدہ اٹھانے کا وسیع تجربہ حاصل ہے، اور وہ اپنے مفاد کے لیے مسلمانوں کے درمیان جھوٹے جذبات ابھارتا ہے، بالخصوص مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کر نے کے لیے ان سے استفادہ کرتا ہے ۔

کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایک دردمند مسلمان بیرونی اثرو نفوذ ختم کرنے کے لیے اٹھے اورجن لوگوں کو وہ نجات دلانا چاہتا ہے، وہی لوگ دین اور مذہب کے نام پر اسکی راہ کا کانٹا بن جائیں۔

جی ہاں ! اگرعوام جاہل اور بے خبر ہوں، تومنافقین خود اسلام کے مورچے سے اسلام کے خلاف فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے اپنے ایران میں، جہاں کے لوگ اہلِ بیتِ اطہار ؑ کی ولایت اور اُن سے محبت پر فخر کرتے ہیں، وہاں منافقین!اہلِ بیت ؑ او ر ’ولا ئے اہلِ بیت ؑ کے مقدس نام پر قرآن، اسلام اور اہلِ بیت ؑ کے خلاف اور غاصب یہودیوں کے مفاد میں مورچے تعمیر کرتے ہیں اور یہ اسلام، قرآن، پیغمبر اکرمؐ اور اہلِ بیتِ کرام ؐپر روا رکھا جانے والا سب سے زیادہ گھناؤ نا ظلم ہے۔ (۱)

رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

اِنّی مااَخافُ عَلیٰ اُمَّتِیَ الْفَقْرَوَلٰکِنْ اَخافُ عَلَیْھِمْ سوءَ التَّدْ بیرِ۔

میں اپنی اُمت کے لیے اُسکے فقر و تنگدستی کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں، بلکہ اپنی اُمت کے حوالے سے جو چیزمیری پریشانی کا باعث ہے، وہ کج فکری ہے ۔ میری اُمت کے لیے جتنامضرفکری افلاس ہے اُتنا ضرررساں اقتصادی فقر نہیں۔

ب: دوسرا سبق یہ ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ قرآنِ کریم سے استنباط کرنے کا ہمارا طریقہ صحیح ہو۔ قرآنِ کریم اسی صورت میں رہنما اور ہادی ہے، جب اُس پر صحیح طریقے سے غورو فکر کیا جائے، اسکی عالمانہ تفسیر کی جائے اور اہلِ قرآ ن (جو راسخینِ علومِ قرآن ہیں) کی رہنمائی سے استفادہ کیا جائے ۔جب تک قرآنِ کریم سے ہمارے استنباط کا طریقہ درست نہ ہو، اور جب تک ہم قرآن سے استفادے کی راہ اور اسکے اصول نہ سیکھیں، اس وقت تک اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے ۔کبھی کبھی مفاد پرست یا نادان لوگ قرآنِ کریم کو پڑھ کر با طل احتمال پر چل پڑتے ہیں ۔

قرآنِ کریم مسائل کو کلی اور اصولی صورت میں پیش کرتا ہے، لیکن کُل کو جزو پرمنطبق کرنے کا انحصار ہمارے صحیح فہم و ادراک پر ہے۔مثلاً قرآنِ مجید میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ فلاں روز علی اور معاویہ کے درمیان جو جنگ ہوگی، اُس میں حق علی کے ساتھ ہو گا۔قرآن میں صرف اتنا آیا ہے کہ : وَ اِنْ طَآءِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْداٰاہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓءَ اِلآی اَمْرِ اﷲِ ( اگر مؤمنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں، تو اُن کے درمیان صلح کرا دو اور اگراُن میں سے ایک دوسرے پر سرکشی اور ظلم کرے، تو جو ظالم ہے اُس کے خلاف جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔سورۂ حجرات ۴۹۔ آیت۹)

یہ ہے قرآن اور اس کا طرزِ بیان۔ لیکن قرآنِ کریم یہ نہیں کہتا کہ فلاں جنگ میں فلاں حق پر ہے اور اس کا مخالف باطل پر۔

قرآن ایک ایک کا نام نہیں لیتا ۔وہ یہ نہیں کہتا کہ چالیس سال بعدیا اسکے لگ بھگ معاویہ نام کا ایک آدمی پیدا ہوگا اور علی سے جنگ کرے گا، تم علی کی حمایت میں جنگ کرنا۔ اور جزئیات میں جانا بھی نہیں چاہیے ۔قرآن کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ موضوعات کو علیحدہ علیحدہ کرے اور حق اور با طل پر انگلی رکھ کے بتا دے۔ ایسا ممکن نہیں ہے ۔قرآن ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے۔ پس اسے چاہیے کہ اصول اور کلیات کو واضح کرے، تاکہ جب بھی کسی زمانے میں کوئی باطل حق کے مقابلے پر کھڑا ہو، تو لوگ ان اصولوں کو معیار بنا کر عمل کریں ۔یہ لوگوں کی اپنی ذمے داری ہے کہ وہ یہ اصول دیکھ کر کہ:وَ اِنْ طَآءِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْااپنی آنکھیں کھولیں اور باغی اور غیر باغی گروہ کو پہچانیں ۔ اگر سرکش گروہ واقعاً اپنی سرکشی سے باز آ جائے، تو اسے قبول کریں اور اگر باز نہ آئے اور حیلہ کرے اور اپنے آپ کوشکست سے بچاکر نئے حملے کے لیے موقع تلاش کرنے اور دوبارہ سرکشی کی نیت سے پھر سرکشی کے لیے اس آیت کا سہارا لے: ”فَاِنْ فَآءَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا۔“ تو اسکے حیلے کو قبول نہ کریں ۔

ان تمام امور کی تشخیص خود لوگوں کا کام ہے ۔قرآنِ کریم چاہتاہے کہ مسلمان عقلی اور اجتماعی طور پر بلوغ حاصل کریں اور اسی عقلی بلوغ کے ذریعے مردِ حق اور غیر مردِ حق میں تمیز کریں۔

قرآن کریم اس لیے نہیں آیا ہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اس طرح عمل کرے جیسے بچے کا ولی بچے کے ساتھ کرتا ہے۔ان کی زندگی کی جزئیات کو ایک سر پرست کی حیثیت سے انجام دے اور ہر معاملے کی نشاندہی ایک مخصوص علامت اور محسوس اشاروں کی مدد سے کرے ۔

بنیادی طور پر اشخاص کی پہچان اوراُن کی صلاحیتوں، اہلیتوں اور اسلام اور اسلام کے حقائق کے ساتھ اُن کی وابستگی کو پرکھنا بذاتِ خود ایک فریضہ ہے اور ہم اکثر اس اہم فریضے سے غافل ہیں۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

اَنَّکُمْ لَنْ تَعْرِفُواالرُّشْدَحَتّیٰ تَعْرِفُواالَّذی تَرَکَہُ۔

تم ہر گز حق کونہیں پہچان سکتے اور راہِ راست کی شناخت نہیں کر سکتے، جب تک اس شخص کو نہ پہچان لو جس نے راہِ راست کو چھوڑدیا ہے ۔ (۲)

یعنی صرف اصول اور کلیات کی شناخت کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جب تک مصداق اور جزئیات سے اُن کی تطبیق نہ ہو۔کیونکہ ممکن ہے افراد یا اشخاص کے بارے میں غلط فہمی کی وجہ سے یا موضوع کو نہ پہچاننے کی وجہ سے تم اسلام، حق اور اسلامی نعروں کے زیرِ سایہ اسلام اور حق و حقانیت کے خلاف اور باطل کے مفاد میں مصروفِ عمل ہو۔

قرآنِ کریم میں ظلم، ظالم، عدل اور حق کا ذکر آیا ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے مصادیق کو پہچانا جائے، تاکہ کسی ظلم کو حق اور حق کو ظلم نہ سمجھ بیٹھیں اور پھر انہی اصولوں کے تحت (اپنے خیال میں) قرآنی احکام کے مطابق عمل کریں، لیکن در حقیقت حق و عدالت کا قلع قمع کر رہے ہوں !

۱۔}یاد رہے کہ یہ ایران میں انقلابِ اسلامی سے پہلے کام کرنے والے کچھ گروہوں کی جانب اشارہ ہے۔مترجم{ جیسا کہ آپ نے نہج البلاغہ کی زبان سے سنا کہ وہ حق بات کہتے ہیں جبکہ اس سے ان کی مراد با طل ہوتی ہے ۔ یہ چیز قرآن پر عمل اور اس کا احیا نہیں ہے، بلکہ یہ قرآن کو مار ڈالنا ہے۔ قرآن پر عمل تب ہے جب اس سے صحیح مفہوم اخذ کیا جائے ۔

۲۔نہج البلاغہ۔خطبہ ۱۴۵