جاذبہ ودافعۂ علی

فارسی زبان کے شعرا نے عشق کو ”اکسیر“ کا نام دیا ہے ۔

کیمیا گر عقیدہ رکھتے تھے کہ دنیا میں ”اکسیر“ یا ”کیمیا“ کے نام سے ایک ایسا مادہ موجود ہے جو ایک مادے کو دوسرے مادے میں تبدیل کر سکتا ہے۔صدیوں وہ اسکی تلاش میں رہے۔ شعرا نے اس اصطلاح سے کام لیا اور کہا کہ وہ واقعی اِکسیر جو بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ عشق اور محبت ہے ۔کیونکہ عشق قلبِ ماہیت کر سکتا ہے۔

اِکسیر کے بارے میں برہانِ قاطع میں آیا ہے: ”پگھلانے والا، باہم ملانے والااور کامل کرنے والا ایک جوہر ہے۔ یعنی تانبے کو سونا بناتا ہے۔ فائدہ مند دواؤں اور مرشدِ کامل کی نظر کو بھی مجازاً اِکسیر کہا جاتاہے“ ۔ اتفاقاً عشق میں بھی یہ تینوں خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔پگھلانے والا بھی ہے، باہم ملانے والا بھی ہے، اور کامل کرنے والابھی ہے۔ لیکن اس شباہت کی مشہور و معروف وجہ وہی تیسری خصوصیت ہے۔ یعنی کامل کردینے والا تغیر۔لہٰذا شعرا نے عشق کو طبیب، دوا، افلاطون اور جالینوس بھی کہا ہے۔مولوی (مولانا روم) مثنوی کے دیباچے میں کہتے ہیں :

شادباش ای عشق خوش سودای ما
ای طبیب جملہ علّتہا ی ما

اے ہمارے عشق خوش سودا تو خوش رہ
اے ہماری تمام بیماریوں کے طبیب

ای دوای نخوت و ناموس ما
ای تو افلاطون و جالینوس ما

اے ہمارے فخر و ناموس کی دوا
اے ہمارے افلاطون اور جالینوس

عشق مکمل اِکسیر ہے اور کیمیا کی تاثیر رکھتا ہے۔یعنی ایک دھات کو دوسری دھات میں تبدیل کرسکتا ہے۔لوگ بھی مختلف دھاتوں جیسے ہیں:

”اَلنّاسُ مَعادِنُ کَمَعادِنِ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ۔“

”انسان سونے اور چاندی کی کانوں کی مانند ہیں“۔

عشق ہے جو دل کو دل بناتا ہے، اگر عشق نہ ہو، تو دل، دل نہیں بلکہ آب و گل ہوتا ہے ۔

ہر آن دِل راکہ سوزی نیست دل نیست
دِل افسردہ غیر از مُشت گلِ نیست

جس دل میں سوز نہ ہو وہ دل ہی نہیں
دلِ افسردہ مٹھی بھر مٹی کے سوا کچھ نہیں

الٰہی ! سینہ ای دہ آتش افروز
در آن سینہ دلی وان دل ہمہ سوز (۱)

خدایا، ایک بھڑکتا ہوا سینہ عطا فرما
اور اس سینے میں دل اور دل میں سوز و گداز

عشق کے آثار میں طاقت و قدرت بھی شامل ہے ۔محبت قوت پیدا کرتی ہے، بزدلوں کو بہادربنا تی ہے ۔ایک پالتومرغ جب تک تنہاہوتاہے اپنے پروں کو پشت پر سمیٹ کر رکھتا ہے، آہستہ آہستہ چلتا ہے، کبھی گردن اٹھا کر کیڑے تلاش کرتا ہے اور ان سے اپنا پیٹ بھرتا ہے، ذرا سی آواز پر بھاگ کھڑا ہوتا ہے، ایک چھوٹے سے بچے کے سامنے مقابلے کی سکت نہیں رکھتا۔لیکن اسی مرغ کے جب چوزے ہو جاتے ہیں، اور اس کا وجود ان کے عشق اور محبت سے سرشار ہو جاتا ہے، تو اسکی کیفیت ہی بدل جاتی ہے، اب پشت پر جمع شدہ پر دفاع کی علامت کے طور پر نیچے گرا دیتا ہے، خودپرجنگ کی سی حالت طاری کر لیتا ہے، حتیٰ اسکی آواز بھی پہلے سے زیادہ کڑکدار اور دلیر انہ ہوجاتی ہے ۔پہلے کسی خطرے کے خیال ہی سے بھاگ کھڑا ہوتا تھا لیکن اب معمولی ساخطرہ بھی محسوس کرے تو حملہ کر دیتا ہے، بہادری کے ساتھ حملہ کرتا ہے ۔یہ عشق اور محبت ہے جو ڈرپوک مرغ کو ایک دلیر جانور کا روپ دے دیتی ہے ۔

عشق اور محبت کاہل اور سست انسان کوچست و چالاک بنادیتی ہے۔ حتیٰ کند ذہن انسان کو بھی تیز طرار بنا دیتی ہے ۔

وہ لڑکا اور لڑکی جو شادی سے پہلے براہِ راست اپنی ذات سے تعلق رکھنے والے امور کے سوا کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے تھے، جوں ہی اُن کے دل آپس میں ملتے ہیں اور وہ اپنا گھر بساتے ہیں، تو وہ اپنے آپ کو پہلی بار کسی دوسرے کے بارے میں دلچسپی لیتے دیکھتے ہیں۔ اُن کی آرزؤں کا دائرہ وسیع ترہو جاتاہے۔ اور جب اُن کے یہاں اولاد کی ولادت ہوتی ہے، تواُن کا مزاج یکسر بدل جاتا ہے ۔اب وہ سست اور کاہل لڑکا ہوشیار اور فعال ہو جاتا ہے، اور وہ لڑکی جو زبردستی اٹھانے سے بھی اپنا بستر نہیں چھوڑتی تھی، جوں ہی جھولے میں پڑے اپنے بچے کی آواز سنتی ہے، بجلی کی طرح اسکی جانب لپکتی ہے۔

بھلاوہ کون سی طاقت ہے جس نے اس جوان سے سستی اور کاہلی کا خاتمہ کر کے، اسے اس قدر حساس بنا دیا؟

وہ عشق اور محبت کی طاقت کے سوا کوئی اور چیز نہیں؟

عشق ہی ہے جو بخیل کو سخی اور کمزور اور بے صبر ے کو متحمل مزاج اور صابر بناتا ہے ۔

یہ عشق ہی کااثر ہے جو ایک خودغرض مرغ کو، جو صرف اپنے دانے پانی اور اپنے تحفظ سے غرض رکھتا تھا ایسا سخی بنا دیتا ہے کہ جوں ہی اسے دانا ملتا ہے، وہ فوراً اپنے چوزوں کو آواز دیتا ہے۔ یا ایک ماں کو جو کل تک ایک بگڑی ہوئی، کھانے اور سونے والی، نخریلی اورنازک سی لڑکی تھی اسے بھوک، بے خوابی اور جسمانی تھکاوٹ کے مقابلے میں صبرو تحمل کی عظیم قوت عطا کرتا ہے اور اسے ایک ماں کی حیثیت سے تمام زحمتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔

روح سے سختی اور تند خوئی کو دور کر کے، اس میں نرمی و لطافت پیدا کرنا۔ باالفاظِ دیگر اس میں نرم و نازک جذبات و احساسات کی نشو و نماکرنا، اسی طرح اسکی قوتوں سے انتشار و افتراق کا خاتمہ کر کے ان میں اتحاد، یک جہتی اور مرکزیت پیدا کرنا، اور اس یک جہتی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی قدرت و طاقت، سب کچھ عشق و محبت کے آثار میں سے ہے۔

شعر و ادب کی زبان میں، عشق کے آثار میں سے جس اثر کا ذکراکثر سناکرتے ہیں، وہ عشق کی الہام بخشی اور فیاضی ہے۔

بلبل از فیضِ گُل آموخت سخن ورنہ نبود
ایں ہمہ قول و غزل تعبیہ درمنقارش(۲)

فیضِ گل اگرچہ ظاہری لفظ کے اعتبار سے بلبل کی ذات سے خارج ایک امر ہے، لیکن درحقیقت یہ عشق کی قوت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔

تو مپند ار کہ مجنوں سرِ خود مجنون شد
از سمک تابہ سماکش کشش لیلی برد

یہ نہ سمجھوکہ مجنوں از خود مجنوں بن گیا تھا، بلکہ یہ لیلیٰ کی کشش تھی جو اسے زمین سے اٹھا کرآسمان تک لے گئی (علامہ طباطبائی)

عشق خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار اور بندھی اور جکڑی ہوئی قوتوں کو آزاد کر دیتا ہے۔جیسے ایٹموں میں شگاف پیدا کرنا اور ایٹمی توانائیوں کو آزاد کرنا۔یہ الہام بخش ہے اور با عظمت شخصیات جنم دیتا ہے ۔کتنے ہی شاعر، فلسفی اور فنکارایسے ہیں جنہیں ایک عشق اور طاقتور محبت نے پیدا کیا ہے ۔

عشق، نفس کی تکمیل اور حیرت انگیز باطنی صلاحیتوں کو آشکار کرتا ہے، ادراک کی قوتوں کے لحاظ سے یہ الہام بخش ہے اور احساس کی قوتوں کے اظہار سے ارادے اورہمت کو تقویت پہنچاتا ہے۔ اور جب یہ معنوی بلندیوں سے ہمکنار ہوتا ہے، تواسکے سبب کرامات اور عجائب ظہور میں آتے ہیں۔

روح کو آمیزشوں اور آلودگیوں سے پاک کرتا ہے، باالفاظِ دیگر عشق ]باطن کی[ صفائی کرنے والا ہے۔گرم جوش نہ ہونے اور خود غرضی سے پیدا ہونے والی گھٹیا صفات جیسے بخل، کنجوسی، بزدلی، کاہلی، تکبر اور خودپسندی کو جڑ سے اکھاڑدیتا ہے ۔آپس کی نفرتوں اور کینوں کو زائل کرتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ عشق میں محرومیت اور نا کامی بھی نفسیاتی پیچیدگی پیدا ہونے اور کینے کا سبب بن جائے۔

از محبت تلخہا شیرین شود
از محبت مسہا زرین شود(۳)

محبت تلخیوں کومٹھاس میں بدل دیتی ہے
محبت تانبے کو سونے میں بدل ڈالتی ہے

عشق، روح کے لیے شادابی اور اسکی تعمیر و آبادی کا سبب ہوتا ہے۔ جبکہ جسم کے لیے زوال اور خرابی کا باعث بنتا ہے۔ جسم پر پڑنے والا عشق کا اثر، اُس اثر کے بالکل برعکس ہوتا ہے جو عشق روح پر مرتب کرتا ہے۔ عشق بدن کی کمزوری، چہرے کی زردی، اعضائے بدن کی لاغری، اعصاب میں خلل اور ہاضمے کی خرابی کا باعث ہوتا ہے۔ عشق، بدن پر جو اثرات ڈالتا ہے، شاید وہ سارے کے سارے ہی تخریبی ہوں۔ لیکن روح کے لیے اسکے اثرات ایسے نہیں ہیں۔البتہ یہ اس بات سے وابستہ ہے کہ عشق کس چیز سے کیا جا رہا ہے اور انسان اس سے کیسے مستفید ہو رہا ہے۔

اسکے اجتماعی آثار سے قطع نظر، روح اور فرد کے لحاظ سے اسکے اکثر آثار تکمیلی ہیں۔ کیونکہ یہ قوت، نرمی، صفا، یک جہتی اور ہمت پیدا کرتا ہے۔ ضعف، زبوں حالی، کدورت، افتراق اور کاہلی کو ختم کرتا ہے ۔آلود گیوں کو (جنہیں قرآنِ مجید ”دَسّ“ کا نام دیتا ہے) مٹاتاہے، کھوٹ کوزائل کرتا ہے اور ملاوٹ کو اخلاص سے بد ل ڈالتا ہے۔

شاہ جان مرجسم را ویران کند
بعد ویرانیش آبادان کند

دل کا بادشاہ جسم کو ویران کرتا ہے
اور اسے ویران کرنے کے بعد آباد کرتا ہے

ای خنک جانی کہ بھرِ عشق و حال
بذل کرد او خان ومان وملک ومال

نیک دل وہ ہے جو عشق اور خوشی کی خاطر
اپنا گھر بار مال و متاع لٹا دے

کرد ویران خانہ بہر گنجِ زر
وز ہمان گنجش کند معمور تر

اس نے اپنا گھر خزانۂ زر کیلیے ویران کیا
پھر اسی خزانے سے اسے اور بھر دیا

آب را ببر یدو جُو راپاک کرد
بعد ازان درجو روان کردآب خورد

وہ پانی لے گیا اور نہر صاف کردی
پھر اس نہر میں میٹھا پانی جاری کردیا

پوست را بشکافت پیکان راکشید
پوست تازہ بعد از آتش بردمید

چھلکا جدا کرکے کانٹا نکال لیا
اس کے بعد اس پر تازہ چھلکا چڑھا دیا

کاملان کز سرِّ تحقیق آگھند
بی خود و حیران و مست و والہ اند

کامل لوگ جو رازِحقیقت کو جانتے ہیں
وہ مدہوش، حیران، مست اور مجذوب ہیں

نہ چنین حیران کہ پُشتش سوی اوست
بل چنان حیران کہ غرق ومست دوست

ایسے حیران نہیں کہ اس سے منہ موڑ لیا ہو
بلکہ اس طرح کہ اس (کی محبت) میں غرق و مست ہو گئے ہیں

۱۔ وحشی کرمانی

۲۔لسان الغیب، حافظ(بلبل نے نغمگی گُل سے سیکھی ہے ورنہ اُسکی منقار میںیہ نغمگی نہ تھی)

۳۔مثنوی معنوی