جاذبہ ودافعۂ علی

ہم اپنی گفتگو کو حضرت علی علیہ السلام کے چار سال اور چند ماہ پر محیط دورِ خلافت تک محدود رکھیں گے۔ علی ؑ ہمیشہ سے دو قوتوں کی حامل شخصیت تھے۔اُن میں جاذبہ بھی موجود تھا اور دافعہ بھی پایا جاتا تھا۔ خاص طور پر اسلام کے ابتدائی دور ہی سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گروہ اکثر علی ؑ کے گرد نظر آتا ہے جبکہ ایک اور گروہ کو دیکھتے ہیں جس کے تعلقات علی ؑ کے ساتھ خوشگوار نہیں ہوتے اوربسا اوقات آپ اُس گروہ کی طرف سے تکالیف کا سامنا کرتے ہیں۔

لیکن حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانے اوراُن کی وفات کے بعد کے ادوار میں، یعنی آپ کے تاریخی ظہور کا دور آپ کے جاذبے اور دافعے کے زیادہ ترمظاہروں کا دور ہے۔ خلافت سے پہلے، معاشرے سے اُن کا رابطہ جتنا کم تھا اُسی نسبت سے اُن کا جاذبہ اور دافعہ بھی کم تر ظاہر ہوا تھا۔

حضرت علی علیہ السلام لوگوں کو اپنا دشمن بنانے اور اُن کو ناراض کرنے والے شخص تھے ۔اور یہ اُن کا ایک اور بڑا افتخار ہے۔ ہر ایسا انسان جو کسی مسلک کاپابند ہو، کسی مقصد کی سمت گامزن ہو، مجاہد ہو اور بالخصوص ایسا انقلابی ہو جو اپنے مقدس مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہو، اور خدا کے اس قول کا مصداق ہو کہ : یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لااَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لااَآءِمٍ(وہ اللہ کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اورملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کرتے۔سورۂ مائدہ۵۔ آیت ۵۴)وہ لوگوں کو دشمن بنانے والااور اُنہیں خود سے ناراض کرنے والا ہوتا ہے۔ لہٰذا خاص کر حضرت علی ؑ کے اپنے زمانے میں اُن کے دشمن اگر اُن کے دوستوں سے زیادہ نہیں، تو کم بھی نہ تھے اورنہ ہیں۔

اگر آج حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت میں تحریف نہ کی جائے اور جیسے وہ تھے اُسی طرح اُنہیں پیش کیا جائے، تو اُن سے دوستی کے بہت سے دعویدار اُن کے دشمنوں کی صف میں کھڑے ہوجائیں گے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر یمن روانہ کیا۔ واپسی میں انہوں نے پیغمبر ؐسے ملاقات کے لیے مکہ جانے کا فیصلہ کیا۔ مکہ کے قریب پہنچنے پر آپ نے اپنے لشکر میں شامل ایک شخص کو اپنی جگہ مقررکیا اور خود سفر کی رپورٹ دینے کی غرض سے ذرا پہلے رسول اﷲکی طرف چل دیئے۔ اس شخص نے وہ تمام لباس جو علی ؑ (یمن سے) اپنے ہمراہ لائے تھے، سپاہیوں میں تقسیم کر دیئے، تاکہ وہ نئے لباس پہن کر مکہ میں داخل ہوں۔ حضرت علی ؑ جب واپس آئے، تو آپ نے ان کے اس عمل پر اعتراض کیا اور اسے نظم و ضبط کی خلاف ورزی قرار دیا۔کیونکہ پیغمبرؐ سے حکم حاصل کیے بغیر ان کپڑوں کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ در حقیقت حضرت علی ؑ کی نظر میںیہ عمل مسلمانوں کے پیشوا کو اطلاع اور اجازت کے بغیر بیت المال میں ایک قسم کا تصرف تھا۔ لہٰذا حضرت علی ؑ نے اُنہیں یہ لباس اتار دینے کا حکم دیا اور پھر اُن لباسوں کو ایک مخصوص مقام پر رکھ دیا، تاکہ پیغمبرؐ کے سپرد کیا جائے اور آنحضرت خود ان کے بارے میں فیصلہ فرمائیں۔ حضرت علی ؑ کے لشکر میں شامل لوگوں کو آپ کا یہ عمل ناگوار گزرا ۔ لہٰذا جب وہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرت نے اُن کا حال احوال دریافت کیا، تو انہوں نے اُن کپڑوں کے سلسلے میں حضرت علی ؑ کی سخت گیری کی شکایت کی۔ پیغمبر اکرم ؐنے اُنہیں مخاطب کر کے فرمایا:

یااَیُّھَاالنّاسُ! لا تَشْکواعَلِیّاً فَوَاﷲِ اِنَّہُ لْأَخْشَنُ فی ذاتِ اﷲِ مِنْ اَنْ یُشْکیٰ۔

اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، خدا کی قسم وہ خدا کی راہ میں اس سے زیادہ سخت ہیں کہ کوئی ان کے خلاف شکایت کرے۔ (۱)

حضرت علی علیہ السلام راہِ خدا میں کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ بلکہ اگر آپ کسی پر مہربانی کرتے اور کسی کا لحاظ کرتے، تو وہ بھی خدا ہی کے لیے ہوتا تھا۔یہ کیفیت لازماً دشمن ساز ہوتی ہے اور لالچی اور حریص طبیعتوں کو ناگوار گزرتی ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو بھی ایسے فداکار دوست نہیں ملے جیسے علی ؑ کے حصے میں آئے، یہی حال آپ کے دشمنوں کا بھی تھا، کسی کو ایسے گستاخ اور خطرناک دشمن بھی نہیں ملے۔آپ ایسے شخص تھے کہ مرنے کے بعد بھی آپ کا جنازہ دشمنوں کے حملے کا نشانہ بنا۔ آپ خود اس بات کو جانتے تھے اور آپ نے اِس کی پیش بندی کررکھی تھی، لہٰذا آپ نے وصیت کی تھی کہ آپ کی قبرمخفی رکھی جائے، اور آپ کی اولاد کے سوا کوئی اسے نہ جانتا ہو، یہاں تک کہ تقریباً ایک صدی گزر نے کے بعد جب اموی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا، خوارج بھی ختم یا سخت کمزور ہو گئے، کینے اور کینہ توزیاں کم ہو گئیں، تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کے مزارِ مقدس کو ظاہر کیا۔

۱۔سیرۂ ابن ہشام۔ ج۴۔ ص ۲۵۰