جاذبہ ودافعۂ علی

تاریخِ اسلام سے کچھ مثالیں

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

تاریخِ اسلام میں ہمیں رسولِ اکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ساتھ مسلمانوں کی شدید اور والہانہ محبت کی واضح اور بے نظیر مثالیں نظر آتی ہیں۔ انبیااور فلاسفہ کے مکاتب کے درمیان یہی ایک بنیادی فرق ہے، کہ فلسفیوں کے شاگرد صرف طالبِ علم ہوتے ہیں اور فلاسفہ اُن پر ایک معلم سے زیادہ کوئی اثر نہیں رکھتے ۔لیکن انبیا کا اثر ایک محبوب کے اثر جیسا ہوتا ہے، ایسا محبوب جو محب کی روح کی گہرائیوں تک پر اثر انداز ہو اور اسے اپنے پنجے میں جکڑے ہوئے ہو اور اسکی پوری زندگی کو اس نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہو۔

رسول اکرمؐ کے شیفتہ اور شیدا حضرات میں سے ایک ابو ذرِ غفاریؓ ہیں ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبوک (مدینہ منورہ کے شمال میں سو فرسخ اور شام کی سرحدکے قریب) کی طرف کوچ کا حکم دیا، کچھ لوگوں نے بہانے بازیاں کیں، منافقین نے خلل اندازی کی اوررکاوٹیں کھڑی کیں ۔ آخرکارایک بڑا لشکر روانہ ہوا، اس لشکرکے پاس فوجی سازوسامان ناپید تھا، کھانے پینے کی اشیا کی بھی شدید کمی تھی، ایسا بھی تھا کہ کچھ لوگ ایک کھجور پر گزارا کرتے تھے ۔ لیکن سب کے سب پُر جوش اور پُر ولولہ تھے ۔عشق نے اُن میں قوت بھردی تھی، اور رسولِ اکرم کی محبت نے اُنہیں قدرت عطا کر رکھی تھی ۔

اس لشکر کے ساتھ ابوذرؓ بھی تبوک کی جانب رواں دواں تھے ۔راستے میں تین افراد یکے بعد دیگرے واپس ہوئے۔ جو بھی واپس جاتا پیغمبر اکرؐم کو اسکی اطلاع دی جاتی، اور ہر بارآپ فرماتے :

”اگر اس میں کوئی خیر ہے، تو خدا اسے واپس پلٹادے گا، اور اگر اس میں کوئی خیر نہیں پایا جاتا، تو اچھا ہوا کہ وہ چلا گیا ۔“

حضرت ابوذرؓ کے کمزور اور لاغر اونٹ نے مزید چلنے سے انکار کر دیا ۔لوگوں نے دیکھا کہ ابوذرؓ بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ کہنے لگے :یا رسول اﷲؐ! ابو ذر بھی پلٹ گئے ہیں، حضرت نے پھر وہی جملہ دُہرایا ۔

”اگر اس میں کوئی خیر ہے، تو خدا اسے واپس پلٹا دے گا، اور اگر اس میں کوئی خیر نہیں پایا جاتا، تو اچھا ہوا کہ وہ چلا گیا ۔“

لشکر اسی طرح اپنی راہ پر گامزن ہے، جبکہ حضرت ابوذرؓ پیچھے رہ گئے ہیں۔نافرمانی کی بنا پر نہیں، بلکہ اُن کا اونٹ چلنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ اُنہوں نے حتیٰ الامکان کوشش کر دیکھی، لیکن جانور آگے بڑھ کر نہ دیا ۔ وہ کئی میل پیچھے رہ گئے۔ اُنہوں نے اپنے اونٹ کو وہیں چھوڑا، اپناسامان کاندھے پر لادا اور شدید گرمی میں سلگتی ریت پر چلنا شروع کر دیا ۔پیاس اُنہیں مارے ڈال رہی تھی۔ایک بار اُنہوں نے دیکھا کہ ایک پہاڑ تلے چٹانوں کے بیچ بارش کا پانی جمع ہے۔ پانی چکھا تو اسے بہت ٹھنڈا اور میٹھا پایا۔ اپنے آپ سے کہنے لگے کہ میں اُس وقت تک یہ پانی نہیں پیوں گا جب تک میرے محبوب اور اﷲ کے رسولؐ اپنی پیاس نہ بجھا لیں ۔اپنی مشک بھر ی، اسے بھی کاندھے پر اٹھایا اور تیزی سے مسلمانوں کی جانب روانہ ہوگئے ۔

لوگوں نے دُور سے ایک ہیولہ دیکھا، اور کہا کہ اے اﷲ کے رسولؐ ! لگتا ہے کوئی ہماری طرف آرہا ہے ۔فرمایا یقیناً ابوذر ہوں گے ۔وہ ہیولہ قریب آیا، دیکھاکہ ابوذرؓ ہی ہیں۔ لیکن تھکن اور پیاس سے اُن کابُر ا حال ہے، یہاں تک کہ قریب پہنچتے ہی گر پڑے ۔پیغمبر ؐنے فرمایا : جلدی سے انہیں پانی لاکرپلاؤ۔ ابوذرؓ نے نحیف آواز میں کہا: پانی میرے ہمراہ ہے۔ پیغمبر ؐنے فرمایا: پانی تمہارے پاس ہے اور تم پیاس کی وجہ سے ہلاکت کے قریب ہو؟جی ہاں، اے اﷲکے رسولؐ! جب میں نے پانی چکھا تومجھے اچھا محسوس نہیں ہواکہ میں اپنے محبوب اﷲکے رسول سے پہلے اسے پی لوں۔(۱)

سچ بتائیے دنیا کے اورکس مکتب میں ایسی شیفتگی، بے قراری اور ایثار ہمیں دکھائی دیتا ہے؟!

ایسے بے قرار عاشقوں کی ایک اور مثال بلال حبشیؓ ہیں ۔ مکہ میں قریش اُنہیں انتہائی اذیت ناک شکنجوں میں جکڑتے، چلچلاتی دھوپ میں سلگتے ہوئے پتھروں پر لٹا کر اُنہیں بتوں کا نام لینے اور ان پر ایمان لانے نیز حضرت محمد ؐ سے اظہارِ بیزاری پر مجبور کرتے۔

مولانا روم نے مثنوی کی چھٹی جلد میں اُنہیں اذیت رسانی کی داستان بیان کی ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ مولاناروم نے شاہکاررقم کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اُنہیں اپنا عقیدہ پوشیدہ رکھنے کامشورہ دیتے تھے، لیکن اُن میں اسے چھپانے کی تاب نہ تھی کیونکہ عشق تو ہوتا ہی سرکش ہے:

تن فدای خار می کرد آن بلال
خواجہ اش می زد برای گوشمال

بلال جسم کو کانٹوں پر قربان کرتے تھے
مالک انہیں سزا کے طور پر مارتا تھا

کہ چرا تو یاد احمد می کنی؟!
بندۂ بد منکرِ دین منی

تم کیوں احمد کو یاد کرتے ہو
برے غلام ہو اور میرے دین سے انکاری ہو

می زد اندر آفتابش او بہ خار
او ”اَحَد“ می گفت بہر افتخار

وہ انہیں دھوپ میں کانٹوں سے مارتا
لیکن وہ فخر سے ”اَحَد“ پکارتے

تاکہ صدیق آن طرف برمی گذشت!
آن ”اَحَد“ گفتن بہ گوشِ او برفت

یہاں تک کہ حضرت ابو بکر کا وہاں سے گزر ہوا
اور ”اَحَد“ کہنے کی آواز ان کے کانوں تک پہنچی

بعد از آن خلوت بدیدش پند داد
کز جہودان خفیہ می دار اعتقاد

پھر تنہائی میں انہوں نے مشورہ دیا
کہ ان یہودیوں سے اپنا ایمان پوشیدہ رکھو

عالم السّر است پنہان دار کام
گفت کردم توبہ پیشت ای ہمام

وہ (خدا) رازوں کا جاننے والاہے
کہا میں نے آپ کی نصیحت سے پہلے توبہ کی ہے

توبہ کر دن زین نمط بسیار شد
عاقبت از توبہ او بیزار شد

اس طرح میری توبہ بہت ہو گئی ہے
اور آخر کار وہ پشیمانی سے بیزار ہوا

فاش کرد، اسپرد تن را در بلا
کای محمد ای عدوّ توبہ ہا

خود کو فاش کر دیا اور جسم کو مصیبت کے سپرد
کہ اے محمد اے پشیمانیوں کے دشمن

ای تن من وی رگ من پُر زتو
توبہ را گنجا کجا باشد در او

میرا یہ جسم اور اس کی ہر رگ میں تو ہی تو ہے
اس میں پشیمانی کی گنجائش کہاں ہے

توبہ را زین پس زِدل بیرون کنم
از حیات خلد توبہ چوں کنم؟

پشیمانی کو اس کے بعد اپنے دل سے نکال دوں
کیا ابدی زندگی سے پشیمان ہو جاؤں ؟

عشق قہّار است ومن مقہورِ عشق
چون قمر روشن شدم از نور عشق

عشق قہار ہے اور میں عشق کا مقہور
عشق کے نور سے چاند کی طرح روشن ہوا ہوں

برگ کاہم در کَفت ای تُندباد
من چہ دانم تا کجا خواہم فتاد؟

تیزہواکے ہاتھ میں ایک تنکے کی مانند ہوں
مجھے کیا خبر کہ (آخرکار) جا گروں گا

گر ہلالم ور بلالم می دَوم
مقتدی بر آفتابت می شوم

میں ہلال ہوں یا بلال، دوڑتا رہوں گا
تیرے آفتاب کی اقتدا کرتا رہوں گا

ماہ را با زفتی و زاری چہ کار
درپی خورشید پو ید سایہ وار

چاند کو غم و زاری سے کیا کام
(وہ تو ) سائے کی طرح سورج کے پیچھے چلتا ہے

عاشقان در سیلِ تُند افتادہ اند
بر قضای عشق دل بنہادہ اند

عاشقوں نے خود کو تیز طوفان کے سپرد کردیا ہے
اور اپنے آپ کو عشق کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے

ہمچو سنگِ آسیا اندر مدار
روزوشب گردان و نالان بی قرار

وہ چکی کے پاٹ کی طرح گردش میں ہیں
دن رات نالہ کرتے اور بے قرار ہیں

ایک اور مثال:اسلامی مورخین صدرِ اسلام کے ایک مشہور تاریخی حادثے کو ”غزوۃ الرَّجیع“ اور جس دن یہ واقعہ پیش آیااسے ”یوم الرَّجیع“ کہتے ہیں ۔یہ ایک سننے کے لائق دلچسپ داستان ہے ۔

قبیلہ ”عَضَل“ اور ” قَارَۃ“ جوبظاہرقریش کے رشتے دار تھے، اورجو مکہ کے قرب و جوار میں ساکن تھے، اُن کے کچھ لوگوں نے ہجرت کے تیسرے سال رسولِ اکرؐم کی خدمت میں حاضرہو کر عرض کیا :ہمارے قبیلے کے بعض افرادمسلمان ہوگئے ہیں۔آ پ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کو ہمارے یہاں بھیج دیجئے، تاکہ وہ ہمیں دین سکھائیں، ہمیں قرآن کی تعلیم دیں، اور ہمیں اسلام کے اصول و قوانین سے آگاہ کریں۔

رسولِ اکرم ؐنے اپنے اصحاب میں سے چھ اشخاص کو اس مقصد کے لیے اُن کے ہمراہ بھیجا، اور اس جماعت کی سربراہی مرثد ابن ابی مرثد یا عاصم بن ثابت کے سپرد کی ۔

رسولِ خدا ؐکی طرف سے مامور کئے گئے یہ لوگ مدینہ سے آئے ہوئے اُس وفد کے ساتھ روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچے اور وہاں پڑاؤ کیا، جہاں قبیلۂ ہذیل کے لوگ رہا کرتے تھے ۔اصحابِ رسولؐ ہر طرف سے بے خبر آرام کر رہے تھے کہ اچانک قبیلۂ ہذیل کے ایک گروہ نے بجلی کی سی تیزی سے ان پر ننگی تلواروں سے حملہ کر دیا ۔معلوم ہوا کہ مدینہ سے آنے والا وفد، یا تو شروع ہی سے ہی دھوکا دینے کا ارادہ رکھتا تھا، یا جب وہ اس مقام پر پہنچے، تو لالچ میں پڑ گئے اور اپناطرزِ عمل بدل ڈالا ۔بہر حال یہ ظاہر تھا کہ اُنہوں نے قبیلۂ ہذیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا تھا اور اُن کا مقصد ان چھ مسلمانوں کو گرفتار کرنا تھا ۔

اصحابِ رسول ؐجوں ہی معاملے سے آگاہ ہوئے، تیزی سے اپنے ہتھیاروں کی طرف لپکے اور اپنے دفاع کے لیے تیار ہوگئے ۔لیکن ہذیلیوں نے قسم کھائی کہ ہمارا مقصد تمہیں قتل کرنا نہیں ہے، ہم تمہیں قریشِ مکہ کے حوالے کرکے اُن سے کچھ پیسے لینا چاہتے ہیں۔ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے ۔ عاصم ابن ثابت سمیت ان میں سے تین افراد نے یہ کہہ کر کہ ہم مشرک کے ساتھ معاہدے کی رسوائی قبول نہیں کریں گے، ان سے جنگ کی اور مارے گئے، لیکن دیگر تین افراد زید بن دثنہ، خبیب بن عدی اور عبداﷲ بن طارق نے کمزوری دکھائی اور ہتھیار ڈال دیئے۔

ہذیلیوں نے ان تین افراد کو مضبوطی کے ساتھ رسی سے باندھا، اور مکہ کی طرف چل دیئے۔ مکہ کے نزدیک پہنچ کر عبداﷲبن طارق نے اپنے ہاتھ رسی سے چھڑا لیے اور تلوار اٹھالی، لیکن دشمن نے موقع نہ دیا اور اُنہیں پتھر مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ زید اور خبیب مکہ لے جائے گئے اور ہذیل کے دو قیدیوں کے بدلے، جو اہلِ مکہ کے پاس تھے اُنہیں فروخت کردیاگیا۔

صفوان بن امیہ قرشی نے زید کو ان کے مالک سے خرید لیا، تاکہ بدر یا احد میں قتل ہونے والے اپنے باپ کے خون کے انتقام میں اُنہیں قتل کردے۔ لوگ انہیں قتل کرنے کے لیے مکہ سے باہر لے گئے۔ قریش کے لوگ تماشا دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے ۔ زید کو قتل گاہ لے کر آیا گیا۔ وہ سر اُٹھائے ہوئے باوقار انداز میں آگے بڑھے اور ذرّہ برابر کمزوری کامظاہرہ نہ کیا۔ابوسفیان بھی تماشائیوں میں شامل تھا۔ اس نے سوچا کہ زید کی زندگی کے ان آخری لمحات میں اُنہیں جوصورتِ حال درپیش ہیں اُس سے فائدہ اٹھائے۔ شاید وہ اس موقع پرزید سے کوئی اظہارِ ندامت یا رسولِ کریم ؐکی نسبت کسی نفرت کا اظہار کرا سکے ۔ وہ آگے بڑھا اور زید سے بولا: تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں!کیا تو یہ پسند نہیں کرتا کہ اس وقت تیری جگہ محمد ہوتے اور ہم اُن کی گردن اڑا دیتے اور تو آرام سے اپنے بیوی بچوں کے پاس چلاجاتا؟

زید نے کہا:

”خدا کی قسم میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ محمد ؐکے پاؤں میں کوئی کانٹا چبھے اور میں آرام سے اپنے گھر میں بیوی بچوں کے پاس بیٹھا رہوں۔“

ابو سفیان کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اُس نے دوسرے قریشیوں کی طرف رُخ کر کے کہا:

”خدا کی قسم میں نے کسی کے دوستوں کو اس سے اس قدر محبت کرتے نہیں دیکھا جس قدر محمدکے دوست اُن سے محبت کرتے ہیں۔“

تھوڑی دیر کے بعد خبیب بن عدی کی باری آئی۔ اُن کو بھی لوگ پھانسی دینے کے لیے مکہ سے باہر لے گئے۔ وہاں انہوں نے لوگوں سے دورکعت نماز پڑھنے کی اجازت چاہی۔ لوگوں نے اجازت دے دی۔ اُنہوں نے انتہائی خضوع و خشوع کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی۔ اسکے بعد لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

”خداکی قسم، اگرمجھے تمہاری طرف سے یہ الزام لگنے کا خوف نہ ہوتا، کہ تم کہتے کہ میں موت سے خوفزدہ ہوں، تو میں مزید نماز پڑھتا۔“

لوگوں نے خبیب کو تختۂ دار کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا۔عین اسی وقت خبیب بن عدی کی روحانیت میں ڈوبی ہوئی پُر اثر صدا بلند ہوئی، اور ایک گروہ نے توخوفِ خدا سے اپنے آپ کو زمین پر گرا دیا ۔ وہ اپنے خدا سے مناجات کر رہے تھے:

اَللّٰھُمَّ اِنّا قَدْ بَلَّغْنارِسالَۃَ رَسولِکَ فَبَلِّغْہُ الْغَداۃَ مایُصْنَعُ بِنا۔اَللّٰھُمَّ اَحْصِھِمْ عَدَداً وَاقْتُلْھُمْ بَدَداً وَلا تُغادِرٌ مِنْھُمْ اَحَداً۔

بارِ الٰہا! ہم نے تیرے رسول کی طرف سے عائد ذمے داری پور ی کر دی ہے۔ ہم تجھ سے دعاکرتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے ساتھ جوکچھ کیا ہے، اُس سے اُنہیں(رسولِ اکرؐم کو) صبح سویرے ہی آگاہ فرما دے۔ خدایا ان تمام ظالموں کو اپنی نظر میں رکھ اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔ (۲)

ایک اور مثال : جیسا کہ ہم جانتے ہیں احد کا واقعہ مسلمانوں کے لیے غم انگیز صورت میں انجام کو پہنچا۔ ستّر مسلمان، جن میں پیغمبر اکرمؐ کے چچا حضرت حمزہؑ بھی شامل تھے، شہید ہوئے۔ ابتدا میں مسلمان فتحیاب ہوئے، لیکن بعد میں ایک گروہ کی حکم عدولی کی وجہ سے، جسے رسولِ خداؐنے ایک ٹیلے پر متعین کیا تھا، دشمن کے شبخون کا نشانہ بن گئے۔ کئی مارے گئے، کئی بھاگ کھڑے ہوئے اور ایک مختصر گروہ رسولِ اکرمؐ کے گرد باقی رہ گیا۔ آخر کار اسی چھوٹے سے گروہ نے دوبارہ فوج کو جمع

کیا اور دشمن کو مزید پیش قدمی سے روکا۔ خاص طور پر رسولِ اکرؐم کی شہادت کی افواہ مسلمانوں کے منتشر ہونے کا زیادہ سبب بنی۔ مگر جوں ہی اُنہیں پتا چلا کہ رسولِ اکرم ؐزندہ ہیں، اُن کے حوصلے پلٹ آئے۔

کچھ زخمی زمین پر پڑے ہوئے تھے اور اُنہیں تازہ صورتحال کی خبر نہیں تھی ۔ انہی میں سے ایک سعدبن ربیع تھے، جن کو بارہ گہرے زخم لگے تھے۔ اسی اثنا میں بھاگ جانے والے مسلمانوں میں سے ایک شخص سعد کے پاس پہنچا (جو اس وقت زمین پر پڑے ہوئے تھے)اور اُن سے کہنے لگا: میں نے سنا ہے کہ پیغمبرؐ مارے گئے ہیں۔

سعد نے کہا :

”اگر محمد ؐمارے بھی گئے ہوں، تو محمدؐکا خدا تو نہیں مارا گیا، محمدؐ کا دین بھی باقی ہے۔ تم کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو اور اپنے دین کا دفاع نہیں کرتے؟“

دوسری طرف رسولِ اکرم ؐنے اپنے اصحاب کو جمع کرنے کے بعد، اپنے ایک ایک صحابی کو پکارا، تا کہ دیکھیں کہ کون زندہ ہے اور کون مارا گیا ہے؟

آپ نے سعدبن ربیع کو نہ پایا ۔ فرمایا :کون ہے جو جائے اور مجھے سعد بن ربیع کے بارے میں صحیح صحیح اطلاع پہنچائے؟ انصار میں سے ایک شخص نے کہا :میں حاضر ہوں۔ جب وہ انصاری سعد کے پاس پہنچا، تو ان میں زندگی کی ہلکی سی رمق باقی تھی۔ انصاری نے کہا: اے سعد! مجھے پیغمبرؐ نے بھیجا ہے کہ میں اُن کو اطلاع دوں کہ تم زندہ ہو یا مر گئے؟ سعد نے کہا: پیغمبر کو میرا سلام پہنچا دو، اور کہہ دو کہ سعد مرگیا، کیونکہ اب اُسکی زندگی کے چند ہی لمحات باقی ہیں۔ پیغمبرؐ سے کہنا کہ سعد نے کہا ہے:

”خداآپ کو وہ بہترین جزا عطا فرمائے، جو ایک پیغمبر ؐکے شایانِ شان ہے۔“

اسکے بعدانہوں نے انصاری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری طرف سے تمام برادرانِ انصار اور اصحابِ پیغمبرکو بھی ایک پیغام پہنچا دو۔ کہہ دو کہ سعدنے کہا ہے :

”اگر تمہارے پیغمبر کو کوئی گزند پہنچے، اور تمہارے جسموں میں جان باقی ہو، تو خدا کے نزدیک تمہارے پاس کوئی عذر نہ ہو گا۔“ (۳)

صدرِ اسلام کی تاریخ کے صفحات اس قسم کی شیفتگی، عقیدت اور خوبصورتیوں سے بھرے پڑے ہیں۔پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایسا شخص نہیں مل پائے گا جو رسولِ اکرؐم کی مانند اپنے دوستوں، ساتھیوں اور اپنے بیوی بچوں میں اس قدر محبوب اور مقبول ہو اور جسے دل کی اس قدر گہرائیوں سے چاہاگیا ہو۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں کہتے ہیں:

”رسولِ اکرؐم کی گفتگوسننے والا کوئی فرد ایسا نہ تھا جس کے دل میں اُن کی محبت نے گھر نہ کیا ہو، اور جو اُن کی طرف مائل نہ ہو جاتا ہو ۔اسی لیے مکہ کے زمانے میں قریش مسلمانوں کو ”صباۃ“ (وہ جو دل ہار بیٹھے ہوں) کہا کرتے تھے۔ اور کہتے تھے: ”نَخافُ اَنْ یَصْبُوَا لْوَلیدُ بْنُ الْمُغیرَۃِ اِلیٰ دینِ مُحَمَّدٍ۔“ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ولید ابن مغیرہ محمد کے دین کو دل نہ دے بیٹھے۔ ”وَلَءِنْ صَبَا الْوَلیدُ وَھُوَرَیْحٰانَۃُ قَرَیْشٍ لَتَصْبُوَنَّ قَرَیْشٌ بِاَجْمَعِھا۔“ اگر ولید جو قریش کا گُلِ سر سبد ہے، اُنہیں دل دے بیٹھا، تو تمام قریش اُنہیں دل دے بیٹھیں گے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ: ” (محمدکی) باتوں میں جادو ہے، جو شراب سے زیادہ مست کر دینے والی ہیں۔“ وہ اپنے بچوں کو اُن کے پاس بیٹھنے سے منع کرتے تھے، کہ کہیں اُن کی باتیں اور اُن کی پرکشش شخصیت اُن کو اپنی طرف جذب نہ کر لے۔ جب بھی پیغمبر کعبہ کے نزدیک حجر اسماعیل پر بیٹھ کر بلند آواز سے قرآن پڑھتے، یا خدا کا ذکر کرتے، تو وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے، تاکہ سن نہ سکیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کی باتوں کے سحر میں آجائیں اور اُن کی طرف جذب ہوجائیں۔ وہ اپنے سروں کو کپڑے سے ڈھانپ لیتے اوراپنے چہروں کو چھپا لیتے، کہ کہیں اُن کی پرکشش شخصیت اُنہیں اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ اسی لیے اکثر لوگ صرف آپ کی باتیں سن کر، آپ کا رُخِ زیبا اور شخصیت کی ایک جھلک دیکھ کر اورآپ کے الفاظ کی مٹھاس چکھ کر ہی ایمان لے آئے۔“(۴)

اسلام کے تاریخی حقائق میں سے ایک چیز جو ہر صاحبِ نظر، انسان شناس، محقق اور ماہرِ عمرانیات کو حیرت میں ڈال دیتی ہے، وہ انقلاب ہے جو اسلام نے جاہل عربوں میں برپا کیا۔ سیدھے سادے طریقوں اور تعلیم و تربیت کے معمولی وسائل کی مدد سے اِس قسم کے معاشرے کو سدھارنے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے، تاکہ بُرائیوں میں ڈوبی ہوئی پرانی نسل ختم ہوجائے اور ایک نئی نسل کی بنیاد رکھی جاسکے۔ لیکن جذب و کشش کے اثر کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جس کے متعلق ہم نے کہا ہے کہ(عشق) بُری خصلتوں کوآگ کے شعلوں کی طرح جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔

رسولِ خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکثر اصحاب آنحضرت ؐسے شدید محبت کرتے تھے اور یہ عشق ہی تھا جس کی مدد سے اُنہوں نے یہ طویل راستہ مختصر عرصے میں طے کیا اور کچھ ہی دنوں میں اپنے معاشرے کویکسر بدل کر رکھ دیا۔

پروبال ما کمند عشق اوست
موکشانش می کشد تاکوی دوست

ہمارے پر و بال، ان کے عشق کی کمندہیں
یہ ہمیں دوست کی گلی کی جانب کھینچے لیے جاتے ہیں

من چگو نہ نور دارم پیش و پس
چون نباشد نورِ یارم پیش و پس

میں کس طرح اپنے گردو پیش کو روشن کر سکتا ہوں
جب تک میرے ارد گرد میرے دوست کا نور نہ ہو

نورِاو دریُمن و یُسر وتحت و فوق
برسر و برگردنم چون تاج و طوق

اس کی روشنی چہار سو پھیلی ہوئی ہے
میرے سرپر تاج اورگلے میں ہار کی طرح

۱۔بحارالانوار۔جلد۲۱۔ص۲۱۵، ۲۱۶۔طبع جدید

۲۔سیرۂ ابن ہشام۔ج۲۔ص۱۶۹، ۱۷۳

۳۔شرح ابن ابی الحدید ۔طبع بیروت۔ ج ۳۔ ص ۵۷۴، سیرۂ ابن ہشام ۔ج ۲۔ ص ۹۴

۴۔ شرح نہج البلاغہ۔ ج ۲۔ص۲۲۰۔طبع بیروت