علی ؑ ‘ امام اور سچے پیشوا
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
حضرت علی علیہ السلام کا پورا وجود، آپ کی تاریخ و سیرت، آپ کاخُلق و خو، رنگ و بو اور آپ کی خطابت اور گفتگو درس ہے، نمونۂ عمل ہے، سبق اور رہنمائی ہے ۔
جس طرح حضرت علی علیہ السلام کے جاذبے ہمارے لیے درس اور سبق کی حیثیت رکھتے ہیں، اُسی طرح آپ کے دافعے بھی سبق آموز ہیں۔ہم عام طور پرحضرت علی ؑ کی زیارتوں اوراُن سے اظہارِ ادب کے دوسرے طریقوں میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آپ کے دوستوں کے دوست اورآپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں۔ اس بات کو دوسرے انداز سے یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہم اس نقطے کی طرف جاتے ہیں جوآپ کے جاذبے کی آغوش میں پایا جاتا ہے اور جسے آپ جذب کرتے ہیں، اور اُس نقطے سے دوری اختیار کرتے ہیں جسے آپ دفع اور مستردکرتے ہیں ۔
جو کچھ ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہا ہے، وہ حضرت علی ؑ کے جاذبے اور دافعے کا صرف ایک گوشہ تھا، خاص طور پر حضرت علی ؑ کے دافعے کے بارے میں ہم نے اختصار سے کام لیا ہے۔ لیکن جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ حضرت علی ؑ نے دو طبقات کو سختی کے ساتھ اپنے سے دور کیا ہے :
۱۔ شاطر منافق
۲۔ احمق زاہد
ان کے شیعہ ہونے کے دعویدار وں کے لیے یہی دو سبق کافی ہیں، تاکہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور منافقوں کے فریب میں نہ آئیں، وہ تیز نظر رکھنے والے بنیں، ظاہر بینی سے دستبردار ہو جائیں ۔ آج کا شیعی معاشرہ بُری طرح سے ان دو مصیبتوں میں مبتلاہے ۔
وَالسَّلامُ عَلیٰ مَنِ ا تَّبَعَ الْھُدیٰ