علی ؑ ‘دو قوتوں کی حامل شخصیت
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
حضرت علی علیہ السلام کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو جاذبہ بھی رکھتے ہیں اور دافعہ بھی، اور اُن کا جاذبہ اور دافعہ انتہائی قوی ہے ۔حضرت علی ؑ کے قوی جاذبے اور دافعے کی مانند جاذبہ اور دافعہ شاید صدیوں پر محیط تاریخ میں بھی تلاش نہ کیا جا سکے ۔ آپ کو ایسے محیر العقول، تاریخی، جانباز اور فدا کار محب ملے ہیں جو آپ کے عشق میں آتشِ خرمن کے شعلوں کی طرح دَہکتے اور بھڑکتے ہیں ۔وہ آپ کی راہ میں جان دینے کو اپنی آرزو اور سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں اورانہوں نے آپ کی محبت میں ہر شئے کو بھلا دیا ہے ۔ مولاعلی ؑ کی شہادت کو برس ہا برس بلکہ صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن یہ جاذبہ اسی طرح جلوہ گر ہے اور آنکھوں کو خیرہ کررہا ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام کی زندگی میں ایسے شریف و نجیب، فداکار و بے لوث خدا پرست، عفو و درگزر کرنے والے مہربان، عادل اور خادمِ خلق افراد آپ کے گردپروانہ وار گردش کیا کرتے تھے، جن میں سے ہر ایک نے ایک سبق آموز تاریخ رقم کی ہے۔آپ کی شہادت کے بعد معاویہ اور دیگر اموی خلفا کے دور میں بے شمار لوگ آپ کی دوستی کی پاداش میں سخت ترین مصائب سے گزرے، لیکن انہوں نے علی ؑ کی دوستی اور محبت سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹایا، اور جب تک دم میں دم رہا اس محبت پر ڈٹے اور جمے رہے ۔
شخصیات کی موت کے ساتھ ہی اُن سے متعلق ساری چیزیں مر جاتی ہیں اور اُن کے جسم کے ساتھ زمین میں دفن ہوجاتی ہیں ۔جبکہ مردانِ حق خود مر جا تے ہیں لیکن اُن کا مکتب اور اُن کا پیداکردہ عشق زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ پُر رونق ہوتا چلا جاتا ہے ۔
ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی موت کے سالہاسال، بلکہ صدیوں بعد بھی لوگ دل و جان سے اُن کے دشمنوں کے تیروں کا استقبال کرتے ہیں۔ہم آپ کے محبوّ ں اور عاشقوں میں سے ایک ” میثمِ تمّار“ کو دیکھتے ہیں، جو مولا کی شہادت کے بیس برس بعد سولی پر آپ کے فضائل اور بلند انسانی اوصاف بیان کرتے ہیں ۔اُن دنوں میں، جبکہ پوری اسلامی دنیا گھٹن کا شکار تھی، تمام آزادیاں سلب اور سانسیں سینوں میں گھوٹ دی گئی تھیں، وحشتناک سکوت، غبارِموت کی مانند ہر سوپھیلا ہوا تھا، وہ تختۂ دار سے پکارتے ہیں کہ آؤ میں تمہیں علی ؑ کے بارے میں بتاؤں ! لوگ ان کی باتیں سننے کے لیے چاروں طرف سے امنڈ پڑتے ہیں ۔بنی امیہ کی زرہ پوش حکومت اپنے مفاد کو خطرے میں دیکھ کر حکم صادر کرتی ہے کہ میثم کا منہ بند کر دیا جائے ۔ اوروہ چند دنوں کے بعد میثم کی زندگی کا خاتمہ کر دیتی ہے ۔ تاریخ میں علی ؑ کے ایسے بکثرت عاشق ملتے ہیں۔
یہ احساسات تاریخ کے کسی ایک دور تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ہم ہر دور میں ان طاقتور جذبات کے جلوے دیکھتے ہیں۔
”ابن سکّیت“ نامی ایک شخص ہے، جس کا شمار عربی ادب کے نامور علما میں ہوتا ہے، اور آج بھی عربی ادب کے صاحبِ نظر افراد جسے ”سیبویہ“ جیسے لوگوں کے ساتھ اس کا نام لیا جاتا ہے، ابن سکّیت عباسی خلیفہ متوکل کے زمانے میں ہوا کرتے تھے (حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے تقریباً دو سو سال بعد)متوکل کے دربار میں وہ شیعہ ہونے کے حوالے سے مہتم تھے، لیکن کیونکہ نہایت قابل اور ممتاز عالم تھے، اس لیے متوکل نے انہیں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے منتخب کیاتھا۔
ایک دن جب متوکل کے بچے اس کے پاس آئے، تو اس موقع پر ابن سکّیت بھی وہاں موجود تھے، اوربظاہر اسی دن بچوں کا امتحان بھی ہوا تھا جس میں انہوں نے اچھی کارکردگی کامظاہرہ کیا تھا۔متوکل نے ابن سکّیت کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، یا شاید اس نے پہلے سے ان کے بارے میں جو سن رکھا تھا کہ وہ شیعیت کی طرف مائل ہیں، اس بنا پر ابن سکّیت سے پوچھا کہ میرے دونوں بچے تمہارے نزدیک زیادہ محبوب ہیں یا علی ؑ کے فرزند حسن ؑ اور حسین ؑ ؟ اس جملے اور اس موازنے پر ابن سکّیت کو جوش آ گیا اور اُن کا خون کھولنے لگا ۔ وہ سوچنے لگے کہ اس شخص کا غرور اس درجے تک پہنچ گیا ہے کہ یہ اپنے بچوں کا حسن ؑ اور حسین ؑ کے ساتھ موازنہ کرتا ہے ؟ یہ میرا قصور ہے کہ میں نے ان کی تعلیم کی ذمے داری قبول کی۔ انہوں نے متوکل کے جواب میں کہا: ”خدا کی قسم علی ؑ کا غلام قنبر میرے نزدیک ان دونوں بچوں اور ان کے باپ سے کہیں زیادہ محبوب ہے“ ۔ یہ سن کرمتوکل نے فی الفور حکم دیا کہ ابن سکّیت کی زبان پُشتِ گردن سے کھینچ لی جائے ۔
تاریخ علی ؑ کے ایسے بہت سے عُشّاق سے واقف ہے جنہوں نے دیوانہ وار اپنی جان علی ؑ کی محبت میں فدا کردی ۔
یہ جاذبہ کہیں اورمل سکتا ہے ؟
دنیا میں ایسی کوئی اور مثال مل سکے، تصوربھی نہیں کیا جا سکتا۔
علی ؑ کو دشمن بھی اتنے ہی سرسخت ملے ہیں، ایسے کہ ان کا نام سنتے ہی پیچ و تاب کھانے لگتے ہیں۔ علی ؑ اب دنیا میں ایک فرد کی صورت میں باقی نہیں، البتہ ایک مکتب کی صورت میں موجود ہیں اور اسی وجہ سے ایک گروہ کو اپنی طرف جذب کرتے ہیں اوردوسرے کو خود سے دور کرتے ہیں۔جی ہاں ! علی ؑ کی شخصیت میں (یہ) دو نوں قوتیں موجود ہیں ۔