تعمیر کا سبب یا تخریب کاباعث؟
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
کسی شخص یا شئے سے محبت جب اپنی انتہا کو چھونے لگے، اس انداز سے کہ انسان کے وجودکومسخرکرلے اوراسکے وجودپرحاکم ہوجائے، تواسے عشق کہاجاتاہے۔عشق، احساسات اور محبت کا عروج ہے۔ البتہ یہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ عشق ایک ہی قسم کاہوتاہے، اسکی دو بالکل مختلف اقسام ہوتی ہیں۔جس عشق کے آثار کو اچھا کہا گیا ہے وہ ایک قسم ہے، جبکہ عشق کی دوسری قسم کے آثار مکمل طور پر تخریبی اور منفی ہیں ۔
انسانی جذبات و احساسات کی اقسام اور مراتب ہیں ۔ان میں بعض شہوت میں سے ہیں، خاص طور پر جنسی شہوت ہے، جو کئی اعتبار سے انسان اور دوسرے حیوانات میں پائی جانے والی مشترک چیزوں میں سے ہے ۔بس فرق یہ ہے کہ انسان میں یہ جذبہ ایک خاص سبب کی بنا پر(جس کی وضاحت یہاں ممکن نہیں)انتہائی شدت اختیار کرجاتا ہے، اور اسی لیے لوگ اسے عشق کہہ دیتے ہیں، جبکہ حیوان میں یہ اس صورت میں ظاہر نہیں ہوتا۔ لیکن بہر حال اپنی حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے یہ شہوت کے جوش، شدت اور طوفان کے سواکچھ نہیں ۔ اس کا سرچشمہ جنسی بنیادیں ہوتی ہیں اور یہیں اس کا خاتمہ بھی ہوجاتا ہے۔اس میں کمی بیشی انسان کی جسمانی صحت، نظامِ تناسل کی کارکردگی اور یوں از خودجوانی کی عمر سے وابستہ ہوتی ہے۔ ایک طرف عمر کے ڈھلنے اور دوسری طرف شہوت کی تسکین سے اس میں کمی واقع ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ یہ ختم ہوجاتا ہے۔
ایسا جوان جس کے قدم کسی حسین چہرے اور زلفِ تاب دار کو دیکھ کر لڑکھڑانے لگتے ہیں، اور جو کسی نرم ونازک ہاتھ کا لمس پاتے ہی بے خود ہو جاتا ہے، اُسے یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس کی اس کیفیت میں مادّی اور حیوانی عوامل کے سوا کسی اور چیز کا دخل نہیں۔ ایسا عشق جو پل بھرمیں سر میں سمائے اور اگلے ہی لمحے رخصت ہو جائے، نہ توقابلِ اعتماد ہے اور نہ اسکی طرف رغبت دلائی جاسکتی ہے۔ بلکہ وہ خطرناک اور (انسانی) فضیلت برباد کردینے کا باعث بنتا ہے۔ اس موقع پر پاکدامنی اورتقویٰ کی مدداورایسے عشق کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک کر ہی انسان فائدے میں رہتا ہے۔یعنی خود یہ قوت انسان کو کسی فضیلت کی طرف نہیں لے جاتی، لیکن اگر یہ آدمی کے وجود میں رخنہ ڈال دے اور پاکدامنی اور تقویٰ کی قوت کے مقابل آ کھڑی ہو اور روح اسکے دباؤ کو برداشت کرلے، لیکن اسکے سامنے ہتھیار نہ ڈالے، تو یہ روح کے لیے قوت و کمال کا سبب بنتی ہے ۔
انسان میں ایک اور طرح کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں، جو اپنی حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے شہوت سے مختلف ہیں ۔بہتر ہے کہ ہم اسے ”عاطفہ“(محبت) یا قرآن کے الفاظ میں ”مودت“اور ”رحمت“کا نام دیں ۔
انسان جب تک اپنی شہوتوں کے زیر اثر ہے، اُس وقت تک اُس نے اپنی ذات سے قدم باہرنہیں نکالا ہے ۔ وہ اپنی پسند کی چیز یا شخص کو خود اپنے لیے چاہتاہے اور شدت سے اس کاآرزو مند ہوتا ہے۔اگر وہ کسی معشوق اور محبوب کے بارے میں سوچتا ہے، تو اسکی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اس کے وصال سے بہرہ مند ہو اور اُس سے زیادہ سے زیادہ لطف اٹھائے ۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی حالت انسانی روح کی تکمیل و تربیت نہیں کر سکتی اور نہ ہی اسکی روح کی تہذیب کر سکتی ہے۔
لیکن جب کبھی انسان اپنے اعلیٰ انسانی جذبات و احساسات کے زیر اثر آ جاتا ہے، تو محبوب اور معشوق اسکی نگاہ میں عظمت اور احترام حاصل کر لیتا ہے، وہ اسکی سعادت اور کامیابی کا آرزو مند ہوتاہے، وہ اپنے آپ کو محبوب کی خواہشات اور تمناؤں پر قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
اِس قسم کے احساسات خلوص، صداقت، مہربانی، نرم دلی، فداکاری اورایثار پیدا کرتے ہیں۔ اس پہلی قسم کے برخلاف جس سے تندخوئی، درندگی اورجرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں۔بچے کے لیے ماں کی مہر و محبت اسی (پہلی) قسم سے تعلق رکھتی ہے ۔اولیائے الٰہی اور مردانِ خدا سے محبت اوراسی طرح وطن اور مسلک سے محبت کا تعلق بھی اسی قسم سے ہے ۔
یہ احساسات کی وہ قسم ہے جو اگر کمال کی انتہاکوپہنچ جائے، تو وہ تمام اچھے نتائج مرتب ہوتے ہیں جنہیں ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔اور یہی جذبات و احساسات روح کو وقار، عزت اور عظمت عطا کرتے ہیں۔پہلی قسم کے برخلاف جو ذلت اور پستی کا باعث ہیں۔ اس قسم کا عشق پائیدار ہے اور وصال کے نتیجے میں مزیدتند اور تیز ہو جاتا ہے، پہلی قسم کے برخلاف جو نا پائیدار ہے اور وصال اس کا مدفن ثابت ہوتا ہے ۔
قرآنِ کریم میں میاں بیوی کے باہمی تعلق کو ”مودّت“اور ”رحمت“ سے تعبیر کیا گیا ہے(۱)۔ اور یہ ایک انتہائی عالی نکتہ ہے جو ازدواجی زندگی میں حیوانی سطح سے بلند انسانی پہلو کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ نیز اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ازدواجی زندگی کے لیے صرف شہوت کا عامل ہی طبیعی رابطہ نہیں ہے، بلکہ اصل رابطہ خلوص و صفا اور دو روحوں کا باہمی اتحادہے، باالفاظِ دیگر میاں بیوی کو یگانگت کے رشتے میں منسلک کرنے والی چیز محبت و مودّت اور خلوص و صفا ہے، نہ کہ شہوت جو حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔
وَ مِنْ ٰاٰیتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْآ اِلَیْہَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً
اور اسی (کی قدرت)کی نشانیوں میں سے ایک یہ (بھی) ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری ہی جنس کی بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تم دونوں کے درمیان پیار اور الفت پیدا کر دی ۔سورۂروم۳۰۔ آیت۲۱
مولاناروم اپنے خوبصورت بیان میں شہوت اور مودّت میں فرق بیان کرتے ہوئے شہوت کو حیوانی اور مودّت کو انسانی وصف قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں:
خشم و شہوت وصفِ حیوانی بود
مہر و رقّت وصفِ انسانی بود
غصّہ اور شہوت حیوانی صفات ہیں
محبت و مہربانی انسانی اوصاف ہیں
این چنین خاصیتی در آدمی است
مہر، حیوان را کم است، آن ازکمی است
ایسی خوبیاں انسان ہی سے مخصوص ہیں
حیوان میں محبت کی کمی ہے، اور یہ اسکا نقص ہے
مادّی فلاسفہ ( materialist philosophers) بھی انسان کی اس معنوی حالت سے انکار نہیں کرسکے ہیں جو ایک جہت سے غیر مادّی (Metaphysical )پہلو رکھتی ہے اور انسان اور مافوقِ انسان کے مادّی ہونے (کے نظریئے) سے سازگار نہیں ہے ۔
برٹنڈرسل اپنی کتاب ”شادی اور اخلاق“ میں کہتا ہے :
” ایسا کام جس کا واحد مقصد کمانا ہو مفید نتائج پیدا نہیں کرسکتا ۔اس مقصد کے حصول کے لیے ایسا کام اختیار کرنا چاہیے جس میں کسی فرد، ہدف یا غایت پر یقین پوشیدہ ہو۔عشق کا مقصد بھی اگر محبوب کا وصال ہو تو وہ ہماری شخصیت میں کوئی کمال پیدا نہیں کر سکتا اور بالکل اس کام کی مانند ہے جو ہم پیسہ کمانے کے لیے انجام دیتے ہیں ۔اس کمال تک رسائی کیلیے ہمیں چاہیے کہ محبوب کے وجود کو اپنے وجود کی طرح سمجھیں اور اس کے احساسات اور نیتوں کو اپنا سمجھیں ۔“
دوسرا نکتہ جس کا ذکر اور جس کی طرف توجہ ضروری ہے، وہ یہ کہ ہم نے کہا ممکن ہے حتیٰ شہوانی عشق بھی فائدہ مند واقع ہو اوریہ اُس وقت ہوگا جب وہ تقویٰ اور پاکدامنی کے ہمراہ ہو۔ یعنی ایک طرف فراق اور نا رسائی اور دوسری طرف پاکیزگی اور عفت کی وجہ سے روح کو جس سوز و گداز، دباؤ اور سختی کاسامنا کرنا پڑتا ہے، اسکے مفید نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔اسی سلسلے میں عرفا کہتے ہیں کہ عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی یعنی ذاتِ احدیت کے ساتھ عشق میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اسی سلسلے میں روایت کرتے ہیں :
مَنْ عَشِقَ وَکَتَمَ وَعَفَّ وَماتَ ماتَ شَھداً۔
یعنی جو شخص عشق کرے اور اسے پوشیدہ رکھے، پاکدامن رہے اور اسی حالت میں مر جائے، تو وہ شہید مرا ہے ۔
لیکن اس نکتے کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ عشق کی یہ قسم اُن تمام فوائد کے باوجود جو اس سے مخصوص حالات میں حاصل ہوتے ہیں، اس قابل نہیں کہ اس کی جانب رغبت دلائی جائے، یہ ایک انتہائی خطرناک وادی ہے۔ اس لحاظ سے یہ مصیبت کی مانند ہے جو اگر کسی پر آپڑے اور وہ صبر و رضا کی قوت سے اس کا مقابلہ کرے، تو نفس کو پاک اور مکمل کرنے والی ہے، خام کو پختہ اور آلودہ کو صاف کرتی ہے۔ لیکن کبھی بھی مصیبت مول لینے کی ترغیب نہیں دی جاتی۔ کسی شخص کو اس تربیتی عنصر سے فائدہ اٹھانے کی خاطر اپنے لیے یا کسی دوسرے کے لیے مصیبت پیدا نہیں کرنی چاہیے ۔
برٹنڈرسل یہاں بھی ایک قیمتی بات کہتا ہے :
”طاقت و توانائی کے حامل افراد کے لیے رنج و الم ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ایسا شخص جو خود کو کاملاً سعادت مندسمجھتا ہے، وہ مزید خوش بختی کے حصول کے لیے کوشش نہیں کرتا، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس بات کو جواز بنا کر ہم دوسروں کو رنج پہنچائیں تاکہ وہ کسی مفید راہ کی طرف قدم بڑھاسکیں۔ کیونکہ عموماً اس کا الٹانتیجہ نکلتا ہے اور انسان کو شکست و ریخت سے دوچار کردیتا ہے۔اس حوالے سے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان اتفاقات کے حوالے کر دیں جو ہماری راہ میں پیش آتے ہیں ۔(۱)
جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اسلامی تعلیمات میں مصائب اوربلاؤں کے نتائج اور فوائد کی طرف بہت زیادہ اشارہ کیا گیا ہے، اور انہیں محبتِ خدا کی نشانیوں کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے، لیکن کسی حال میں بھی کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی گئی ہے کہ وہ اس بہانے سے خود اپنے لیے یا دوسروں کے لیے کوئی مصیبت پیدا کرے ۔
علاوہ از ایں، عشق اور مصیبت کے درمیان ایک فرق ہے، اور وہ یہ کہ عشق کسی بھی اور عنصر سے زیادہ ”عقل کی ضد“ ہے ۔ یہ جہاں بھی قدم رکھتا ہے عقل کو اسکی مسندِ حکومت سے معزول کر دیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عرفانی ادب میں عقل اور عشق کو دور قیبوں کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے۔فلاسفہ اور عرفا کے درمیان رقابت کی بنیاد بھی یہی ہے، (فلسفی عقل کی طاقت پر اور عرفا عشق کی قوت پر اعتماد کرتے ہیں) عرفانی ادبیات میں مقابلے کے اس میدان میں ہمیشہ عقل کو مغلوب اور شکست خوردہ قرار دیا گیا ہے ۔سعدی کہتے ہیں :
نیک خواہا نم نصیحت می کنند
خشت بر دریا زدن بی حاصل است
میرے خیر خواہ مجھے نصیحت کرتے ہیں
پانی پر دیوار بنانے کی کوشش لاحاصل ہے
شوق رابر صبر قوّت غالب است
عقل را بر عشق دعویٰ باطل است
صبر پر شوق کا غلبہ ہے
عشق پر عقل کا دعویٰ باطل ہے
ایک دوسرا شاعر کہتا ہے :
قیاس کرد م، تدبیر عقل در رہ عشق
چو شبنمی است کہ بر بحر می زند رقمی
عشق کی راہ میں عقل کی تدبیر
ایسے ہے جیسے شبنم سطح سمندر پر کچھ لکھنے کی کوشش کرے
ایک ایسی قوت جو اس قدر طاقتور ہے، جو زمامِ اختیار ہاتھ سے چھین لیتی ہے اور بقول مولانا روم، آدمی کو طوفان میں گھرے تنکے کی مانند اِدھر سے اُدھر اُڑائے پھرتی ہے، نیز ”رسل“ کے مطابق ”ایک ایسی چیز جو انارکی کی طرف مائل ہے“کیونکر ممکن ہے کہ اسکی ہدایت اور تلقین کی جائے ؟!
بہر حال کبھی کبھار مفید نتائج کا حامل ہونا ایک بات ہوتی ہے اور تلقین اور تجویز کئے جانے کے قابل ہونا دوسری بات ۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض متشرعین کی جانب الٰہیات کے ضمن میں اس موضوع پر بحث کرنے والے اور اسکے نتائج اور فوائد بیان کرنے والے اسلامی فلاسفہ (۲) پر اعتراض اور تنقید صحیح نہیں ہے ۔کیونکہ ا ن لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ حکما (اہلِ فلسفہ)کے اس گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ عشق قابلِ تجویز اور لائقِ تلقین بھی ہے ۔حالانکہ ان کی نظر صرف ان مفید نتائج پر ہے
جو صرف تقویٰ اور پاک دامنی کی حالت میں حاصل ہوسکتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ وہ اس کو قابلِ تجویز و تلقین سمجھتے ہوں، مصائب اور بلاؤں کی مانندجنہیں کوئی تجویز نہیں کرتا۔
۱۔شادی اور اخلاق۔ ص۱۳۴
۲۔ بوعلی سینا:رسالۂ عشق اور صدرالمتأ لہین: سفرِ سوّم اسفار