جاذبہ ودافعۂ علی

جذب و دفع کے سلسلے میں لوگوں کے درمیان فرق

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

جاذبے اوردافعے کے اعتبار سے سب انسان یکسا ں نہیں ہوتے، بلکہ مختلف درجات میں تقسیم ہیں :

۱۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ جاذبہ رکھتے ہیں نہ دافعہ، نہ کوئی اُن سے محبت کرتا ہے اور نہ اُن سے عداوت رکھتا ہے، نہ کوئی اُن سے عشق و عقیدت اور محبت کرتا ہے اور نہ کسی کواُن سے عداوت، حسد اور کینہ و نفرت ہوتی ہے ۔ لوگ اُن کے بارے میں کسی قسم کے مثبت یا منفی جذبات و احساسات نہیں رکھتے۔

ایسے لوگ ایک بے کار اور غیر موثروجود ہوتے ہیں، ایسا انسان جس کے وجود میں کوئی مثبت نقطہ نہ پایا جاتا ہو، فضیلت اور فرومائیگی کے اعتبار سے ( یہاں مثبت سے مراد صرف فضیلت کا پہلو نہیں ہے بلکہ یہاں شقاوتیں بھی مراد ہیں)وہ ایک ایسا حیوان ہے جو کھاتا، سوتا اور انسانوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے، لیکن ایک حیوان کی مانند، جس کی نہ کسی سے دوستی ہے اور نہ کسی سے دشمنی۔ اگر لوگ اس کا خیال رکھتے ہیں اور اسے پانی اور چارہ دیتے ہیں، تو صرف اس لیے کہ بوقتِ ضرورت اسکے گوشت سے فائدہ اٹھائیں۔وہ نہ اپنے بارے میں محبت کے جذبات پیدا کرتا ہے، نہ مخالفانہ لہر جنم دیتا ہے ۔

یہ انسانوں کا ایک گروہ ہے: بے قیمت موجودات اور کھوکھلے اور خالی انسان۔کیونکہ انسان دوسروں سے محبت اور دوسروں کی محبت کا محتاج ہے، اورہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسکے لیے لازم ہے کہ اسے کسی سے نفرت ہو اور کوئی اُس سے نفرت کرتا ہو ۔

۲۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو جاذبہ تو رکھتے ہیں لیکن ان میں دافعہ نہیں پایا جاتا، جو ہر ایک سے گرم جوشی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں، معاشرے کا ہر فرد اُنہیں چاہتا ہے اور کوئی اُن کا مخالف نہیں ہوتا، جب مرتے ہیں تو مسلمان انھیں آبِ زمزم سے غسل دیتے ہیں اور ہندو ان کی چتاجلاتے ہیں ۔

چنان بانیک و بدخُو کن کہ بعد از مُردنت عرفی
مسلمانت بہ زمزم شوید و ہندو بسوزاند

اس شاعر کے بقول، ایک ایسے معاشرے میں جس کی نصف آبادی مسلمان ہے اور مردے کا احترام کرتی ہے اور اُسے غسل دیتی ہے اور کبھی زیادہ احترام کرتے ہوئے آبِ زمزم سے غسل دیتی ہے، اور نصف آبادی ہندو ہے جو مردے کو جلاتی ہے اور اس کی راکھ اڑادیتی ہے ۔ایسے معاشرے میں تمہیں اس طرح زندگی گزارنا چاہیے کہ مسلمان بھی تمہیں اپنا سمجھیں اور مرنے کے بعد تمہیں آبِ زمزم سے غسل دینا چاہیں اور ہندو بھی تمہیں اپنا جانیں اور مرنے کے بعد تمہاری چتاجلادینا چاہیں ۔

لوگوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ حسنِ خُلق، محبت آمیزبرتاؤبلکہ آج کی زبان میں ”سوشل“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان سب کو اپنا دوست بنائے۔ لیکن ایسا کرنا ایک بامقصد اوربااصول انسان کے لیے (جو ذاتی مفادات سے بالاترہو کرمعاشرے میں ایک فکر اور نظریئے کے لیے کوشاں ہوتا ہے) ممکن نہیں۔ایسا انسان لامحالہ کھرا، صاف گو، اور دوٹوک ہوتا ہے، ماسوا یہ کہ وہ دوغلا اور منافق ہو۔کیونکہ تمام لوگ ایک طرح سے نہیں سوچتے، ایک طرح کا احساس نہیں رکھتے اور سب کی پسند بھی یکساں نہیں ہوتی۔

لوگوں کے درمیان منصف مزاج، ظالم، اچھے اوربُرے افراد پائے جاتے ہیں۔ معاشرے میں کوئی فرد عادل ہوتا ہے، کوئی ظالم اور کوئی فاسق، اور وہ سب کسی ایسے شخص سے دوستی نہیں رکھ سکتے جو ایک ہدف کے حصول کی خاطر سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ کوشاں ہو اورجس کی یہ جدوجہد لامحالہ ان میں سے بعض کے مفاد ات سے متصادم ہوتی ہے۔

صرف وہی شخص مختلف طبقات اور متصادم نظریات کے حامل افرادمیں ہر دل عزیزبن سکتا ہے جو جھوٹا، ریاکار اور ہر ایک کے مزاج کے مطابق بات کرتا اور ظاہر کرتا ہو۔لیکن اگر انسان کھرا اورایک عقیدے پر کاربند ہو، تولازماً کچھ لوگ اسے پسند کریں گے اور کچھ اسکے دشمن ہوں گے۔لوگوں کا ایک گروہ جو اسکے اختیار کردہ راستے کا قائل ہو گا، وہ اسکی جانب رغبت کرے گا، اور وہ گروہ جو اسکی مخالف راہ پر چلتا ہو گا، وہ اسے مسترد کرے گا اور اس سے دشمنی رکھے گا۔

بعض عیسائی جو اپنے آپ کو اور اپنے مسلک کو محبت کے پیامبر کے بطور پیش کرتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ انسانِ کامل میں صرف اور صرف محبت پائی جاتی ہے، اُس میں فقط جاذبہ ہوتا ہے، اور شاید بعض ہندو بھی ایسا ہی دعویٰ کرتے ہیں ۔

ہندی اور عیسائی فلسفے میں جو امور بہت نمایاں دکھائی دیتے ہیں، اُن میں سے ایک محبت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر چیز کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور ہر ایک سے اظہارِ محبت کرنا چاہیے۔ اورجب ہم سب سے محبت کریں گے، تو پھر دوسروں کے لیے ہم سے محبت کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ رہے گی۔بُرے لوگ بھی ہم سے محبت کریں گے، کیونکہ اُنہوں نے بھی ہم سے صرف محبت دیکھی ہو گی ۔

لیکن ان حضرات کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ صرف اہلِ محبت ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ بااصول ہونا بھی ضروری ہے ۔ ”یہ ہے میرا مذہب“ نامی کتاب میں گاندھی کے بقول محبت کو حقیقت کے ہمراہ ہونا چاہیے ۔ اگر محبت حقیقت کے ساتھ ہو، تو لازم ہوگا کہ وہاں کوئی اصول ہے۔ اور کسی اصول پر کاربند ہونا لامحالہ دشمن پیدا کرتا ہے۔ در حقیقت یہ ایک ایسا دافعہ ہے جوکچھ لوگوں کو مخالفت پر ابھارتا ہے اور بعض کو دور کر تا ہے ۔

اسلام بھی آئینِ محبت ہے ۔قرآنِ کریم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین متعارف کرایا ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنکَاٰا اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔

ہم نے آپ کومبعوث نہیں کیا، مگر عالمین کے لیے رحمت بنا کر۔ (۱)

یعنی اپنے خطرناک ترین دشمنوں کے لیے بھی رحمت بنئے اور اُن سے محبت کیجئے۔ (سورۂ انبیاء۲۱۔ آیت ۱۰۷)

البتہ قرآنِ مجید جس محبت کا حکم دیتا ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ ہم ہر شخص کے ساتھ اُسکی پسنداور خواہش کے مطابق عمل کریں، اسکے ساتھ ایسا طرزِ عمل اختیار کریں جو اسے پسند ہو اور وہ ہماری طرف کھنچاچلا آئے ۔محبت یہ نہیں ہے کہ ہم ہر شخص کو اسکی خواہشات میں آزاد چھوڑ دیں، یا اسکی خواہشات اوراسکے رجحانات کی تائید کریں ۔یہ محبت نہیں ہے، بلکہ منافقت اور دوغلا پن ہے۔محبت وہ ہے جو حقیقت سے جڑی ہوئی ہو ۔محبت خیر خواہی ہے، لیکن کبھی کبھی خیر خواہیوں کے نتیجے میں سامنے والے کی محبت حاصل نہیں ہوتی۔بسا اوقات انسان جن لوگوں سے اس انداز سے اظہارِ محبت کرتا ہے، وہ کیونکہ اس محبت کو اپنے مزاج اور رجحانات کے خلاف پاتے ہیں، اس لیے لہٰذا قدر دانی کی بجائے دشمنی پر اترآتے ہیں ۔ علاوہ از ایں منطقی اور معقول محبت وہ ہے جس میں انسانی معاشرے کی بہتری اور مصلحت مدِ نظر ہو، نہ کہ کسی فرد یا مخصوص گروہ کا مفاد۔ کبھی کبھی افراد کی بھلائی اور اُن سے کی جانے والی محبت، معاشرے کے لیے شر اور اُسے نقصان پہنچانے کے مترادف ہوتی ہے۔

عظیم مصلحین (Reformers)کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے انسانی معاشرے کی اصلاح کے لیے کوشش کی اور اس راہ میں مصیبتیں مول لیں۔ لیکن اسکے عوض لوگوں کی طرف سے انہیں سوائے دشمنی اورایذارسانی کے کچھ حاصل نہ ہوا۔پس ایسا نہیں ہے کہ محبت ہمیشہ جاذبہ رکھتی ہو، بلکہ کبھی کبھی محبت اس قدر شدید دافعے کو جنم دیتی ہے کہ کئی گروہ انسان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں ۔

عبد الرحمن ابن ملجم مرادی، حضرت علی علیہ السلام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا۔ حضرت علی ؑ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ شخص اُن کا انتہائی خطرناک دشمن ہے ۔دوسرے بھی کہا کرتے تھے کہ یہ شخص خطرناک ہے اس کا قصہ پاک کر دیجئے۔ لیکن حضرت علی ؑ فرماتے تھے ۔کیا میں جرم واقع ہونے سے پہلے ہی قصاص لے لوں ؟ اگر وہ میرا قاتل ہے، تو میں اپنے قاتل کو نہیں مار سکتا ۔وہ میرا قاتل ہے، نہ کہ میں اُس کا قاتل۔ اور اُسی کے بارے میں حضرت علی ؑ نے فرمایا: ”اُریدُحَیَا تَہُ وَیُر یدُ قَتْلی۔“(۲) میں چاہتا ہوں کہ وہ زندہ رہے لیکن وہ مجھے قتل کرنا چاہتا ہے، میں اُسکی بھلائی کا خواستگار ہوں لیکن وہ مجھے قتل کر نا چاہتا ہے ۔ میرے دل میں اسکے لیے محبت ہے لیکن وہ میرا دشمن ہے اور مجھ سے کینہ رکھتا ہے۔

اور تیسری بات یہ ہے کہ محبت ہی انسان کے ہرمرض کی دوا نہیں، بلکہ بعض طبیعتوں اور مزاجوں کے لیے سختی بھی ضروری ہواکرتی ہے، اُن کی مخالفت اور اُنہیں رد کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسلام ایسا دین ہے جس میں جذب و محبت بھی ہے اوردفع و غضب بھی ۔(۳)

۳۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو دافعہ رکھتے ہیں لیکن اُن میں جاذبہ نہیں پایا جاتا، وہ اپنے دشمن بناتے ہیں لیکن دوست نہیں بنا پاتے ۔یہ لوگ بھی ناقص افراد ہوتے ہیں، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دوسری طرف کبھی کبھی محبتیں جھوٹی بھی ہوتی ہیں، یعنی ایک ایسا احساس ہوتی ہیں جن پر عقل کی حکومت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشادِخداوندی ہے :

وَّ لااَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اﷲِ۔(سورۂ نور ۲۴۔ آیت ۲)

یعنی قانونِ الٰہی کے اجراکے موقع پر کہیں مجرم کے لیے تمہارے دل میں ہمدردی اور محبت پیدا نہ ہو جائے (کیونکہ اسلام جس طرح افراد سے محبت کرتا ہے اسی طرح معاشرے سے بھی محبت کرتا ہے )

سب سے بڑا گناہ وہ ہے جسے انسان معمولی سمجھے اور اسکی اہمیت کا قائل نہ ہو۔ امیر المومنین حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:

اَشَدُّ الذُّنوبِ مَااسْتَھانَ بِہِ صاحِبُہُ۔

گناہوں میں سب سے سخت گناہ وہ ہے جسے گنا ہگار آسان اور معمولی سمجھے۔نہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۳۴۷

گناہ کا عام ہوناہی وہ چیزہے جس سے گناہ کی شدت نظروں میں کم ہوجاتی ہے اور انسان کی نظر میں اسے معمولی بات ظاہر کرتی ہے ۔ اسی لیے اسلام کہتا ہے کہ جس وقت کوئی گناہ سرزد ہو اوروہ مکمل طورپرپوشیدہ نہ رہ پائے اور لوگ بھی اس سے باخبر ہوجائیں، تو گناہگار کو سزا ملنی چاہیے، یا تو اس پر حد جاری کی جانی چاہیے یا اسے تعزیر کا سامنا کرنا چاہیے ۔ فقہ اسلامی میں بطورِ کلی کہا گیا ہے کہ کسی بھی واجب کے ترک کرنے، یا کسی بھی حرام کے مرتکب ہونے پر، اگر اسکے لیے حد کا تعین نہ کیا گیا ہو، تو اسکے لیے تعزیر ہوگی ۔تعزیر، حد سے کمتر مقدار کی سزا ہے، جس کا تعین حاکمِ شرع کی صوابدید پر ہے ۔

ایک فرد کے گناہ اور اسکی ترویج کے باعث معاشرہ گناہ سے ایک قدم نزدیک ہو جاتا ہے، اور یہ اسکے لیے انتہائی عظیم ترین خطرات میں سے ہے ۔پس گناہگار کو اسکے گناہ کی شدت کے مطابق سزا ملنی چاہیے، تاکہ پھرمعاشرہ راہِ راست پر پلٹ آئے اور لوگوں کی نگاہوں میں گناہ کی قباحت کم نہ ہونے پائے ۔ اس بنیاد پر سزا اور عذاب معاشرے کے لیے ایک قسم کی محبت ہے ۔

ایسے افراد مثبت انسانی خصائل سے عاری ہوتے ہیں ۔ اگر وہ انسانی خصائل کے حامل ہوتے، تو قلیل افراد پر مشتمل ہی سہی، ایک گروہ اُن کا طرفدار اور محب ضرورہوتا۔کیونکہ لوگوں کے درمیان ہمیشہ اچھے انسان موجود ہوتے ہیں، چاہے اُن کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو ۔اگرسب ہی لوگ باطل کے طرفدار اور ظالم ہوتے، تو یہ دشمنی حق اور انصاف کی دلیل سمجھی جاتی ۔لیکن کبھی بھی سب کے سب لوگ بُرے نہیں ہوتے، جس طرح کسی بھی زمانے میں تمام کے تمام افراد اچھے نہیں ہوتے ۔

لہٰذااگر ایک انسان کے سب ہی لوگ دشمن ہوں، تو اسکی وجہ خود اسکی خرابی اوربُرائی ہے، وگرنہ کیسے ممکن ہے کہ کسی انسان کی روح میں خوبیاں پائی جاتی ہوں، اسکے باوجود اس کا کوئی دوست نہ ہو؟!۔

اس قسم کے لوگوں میں کوئی مثبت بات نہیں ہوتی، حتیٰ شقاوت کے پہلوؤں سے بھی ۔ ان کا وجود سراسر تلخ ہوتا ہے اور تمام افراد کے لیے تلخ ہوتا ہے ۔ ایسی چیز جو کم از کم کچھ افراد کے لیے شیریں ہو، اُن میں نہیں پائی جاتی ۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

اَعْجَزُالنَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اکْتِسابِ الْاِخْوانِ، وَاَعْجَزُمِنْہُ مَنْ ضَیَّعَ مَنْ ظَفَرَ بِہِ مِنْھُمْ۔

لوگوں میں سب سے زیادہ ناتواں شخص وہ ہے جو کسی کو اپنا دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھی زیادہ ناتواں وہ ہے جو اپنے دوستوں کو کھو دے اور تنہا رہ جائے۔ ( نہج البلاغہ۔کلماتِ قصار ۱۱ )

۴۔ یہ لوگ جاذبہ بھی رکھتے ہیں اوراِن میں دافعہ بھی پایاجاتا ہے، وہ بااصول لوگ جو اپنے مسلک اور عقیدے کی راہ میں سر گرم ہوتے ہیں، وہ مختلف گروہوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں، محبوب و مقصود کے طور پر دلوں میں گھر کر جاتے ہیں اور یہی لوگ کچھ گروہوں کو اپنے آپ سے دور بھی کرتے ہیں ۔دوست بھی بناتے ہیں اور دشمن بھی تیار کرتے ہیں، حامی بھی جنم دیتے ہیں اور مخالف بھی پیدا کرتے ہیں ۔

ایسے لوگوں کی چند قسمیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ کبھی جاذبہ اور دافعہ دونوں قوی ہوتے ہیں، کبھی دونوں ضعیف اور کبھی دونوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے ۔صاحبِ شخصیت افراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا جاذبہ اور دافعہ دونوں قوی ہوں۔اور یہ اس بات سے وابستہ ہے کہ اُن کی روح میں مثبت اور منفی اقدار کس قدر مضبوط ہیں ۔البتہ اس مضبوطی کے بھی درجے ہیں، اور یہ اس حد تک جا پہنچتی ہے کہ اسکی محبت میں غرق دوست اپنی جان فدا کر دیتے ہیں اور اسکی راہ میں اپنا سب کچھ نثارکر دیتے ہیں اور دشمن بھی اس قدرشدید ہوتے ہیں کہ اسکے خلاف اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔

ایسی شخصیات اس قدر قوت کی مالک ہوتی ہیں، کہ حتیٰ ان کے مرنے کے بعد بھی صدیوں تک ان کا جذب و دفع روحوں میں کار گر واقع ہوتا ہے اور ایک وسیع حلقے کو اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے ۔ یہ سہ پہلو جذب و دفع صرف اولیا کا خاصَّہ ہوتا ہے، اسی طرح سہ پہلو دعوتیں انبیا کے ساتھ مخصوص ہیں(۴)۔

دوسری جانب یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس قسم کی شخصیات کن عناصر کو جذب اور کن کو دفع کرتی ہیں ۔مثلاً کبھی ایسا ہوتا ہے کہ داناؤں کو جذب اور نادانوں کو دفع کرتی ہیں اور کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے ۔کبھی شریف و نجیب لوگوں کو جذب اور پلید و خبیث لوگوں کو دفع کرتی ہیں اور کبھی اسکے الٹ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر انسان کے دوست اور دشمن، اس سے محبت کرنے والے اور اس سے نفرت کرنے والے، اس شخصیت کی ماہیت پر قطعی دلیل ہوتے ہیں۔

کسی انسان کی شخصیت کے قابلِ ستائش ہونے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ جاذبہ و دافعہ رکھتی ہے یا یہ کہ قوی جاذبے اور دافعے کی حامل ہے ۔بلکہ یہ اسکی شخصیت کی دلیل ہے ۔ اور کسی کی شخصیت اسکی خوبی کی دلیل نہیں ہے ۔دنیا کے تمام رہنما اور قائدین( حتیٰ چنگیز خان، حجاج اور معاویہ بھی) جاذبہ اور دافعہ رکھتے تھے۔ جب تک کسی شخص کے اندر کوئی مثبت بات موجود نہ ہو، اس وقت تک وہ کسی بھی صورت میں ہزاروں سپاہیوں کو اپنا مطیع اور اپنے ارادوں کا تابع نہیں بنا سکتا ۔جب تک کسی شخص میں قائدانہ صلاحیت نہ ہو، اس وقت تک وہ لوگوں کو اپنے گرد جمع نہیں کر سکتا ۔

نادرشاہ ایسے ہی افراد میں سے ایک ہے ۔اس نے کتنے سر قلم کئے اور کتنی آنکھیں حلقوں سے باہر نکالیں، لیکن اسکی شخصیت غیر معمولی قوت کی حامل ہے ۔اُس نے صفوی عہدکے آخری دنوں میں شکست خوردہ اور لٹے پٹے ایران سے ایک بھاری لشکر تیار کیا اور جنگجو افراد کو اس طرح اپنے گرد اکٹھا کیا جیسے مقناطیس فولاد کے ذرّوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور یوں اُس نے نہ صرف ایران کو اغیار کے تسلط سے نجات دلائی، بلکہ ہندوستان کے دور دراز علاقوں تک جا پہنچا اور نئے علاقوں کو ایرانی حکومت کی عملداری میں شامل کیا ۔

لہٰذا ہر شخصیت اپنی طرح کے لوگوں کو جذب کرتی ہے اوراپنے سے مختلف لوگوں کوخودسے دور کرتی ہے۔انصاف پرور اورباشرف شخصیت خیر خواہ اورانصاف پسند عناصر کو اپنی طرف جذب کرتی ہے، اور ہوس پرستوں، زرپرستوں اور منافقوں کو اپنے آپ سے دور کرتی ہے۔ جرائم پیشہ شخصیت مجرموں کو اپنے گرد جمع کرتی ہے، اور نیک لوگوں کو اپنے آپ سے دور کرتی ہے۔

اورجیساکہ ہم نے اشارہ کیا، ایک دوسرافرق قوتِ کشش(جاذبیت)کی مقدارکاہے۔ جیسا کہ نیوٹن کے ” نظریۂ کشش“ (law of gravity) کے بارے میں کہتے ہیں کہ جسم کی جسامت اور فاصلے کی کمی کے تناسب سے کشش اور جذب کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے، اسی طرح انسانوں میں جذب کرنے والے کی شخصیت کے تناسب سے جذب وکشش کی مقدار مختلف ہوتی ہے ۔

۱۔ بلکہ آنحضرت ؐ ہر چیز سے محبت کرتے تھے، حتیٰ حیوانات اور جمادات سے بھی۔ لہٰذا آپ کی سیرت میں دیکھتے ہیں کہ آپ کے زیر استعمال ہر چیز کا ایک مخصوص نام تھا۔آپ کے گھوڑوں، تلواروں اورعماموں، سب کے خاص نام تھے ۔ایسا صرف اس لیے تھا کہ تمام موجودات سے آپ کو محبت تھی اورآپ ہرشئے کی اہمیت کے قائل تھے۔ تاریخ میں رسولِ گرامیؐ کے سوا کسی اور شخص میں یہ طرزِ عمل نہیں ملتا ۔ در حقیقت یہ روش بتاتی ہے کہ آپ انسانی عشق و محبت کی علامت تھے ۔جب آپ کوہِ اُحد کے دامن سے گزرتے، تو روشن آنکھوں اور محبت سے لبریز نگاہوں سے احد کو مخاطب کر کے فرماتے ”جَبَلٌ یُحِبُّنَاوَنُحِبُّہُ۔“ ”یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔“ آپ ایک ایسے انسان تھے جن کی محبت سے پہاڑ اور پتھر بھی بہرہ مند تھے۔

۲۔بحارالانوار۔ طبع جدید۔ج۴۲۔ص۱۹۳، ۱۹۴

۳۔ممکن ہے ہم کہیں کہ غضب بھی لطف و محبت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے ۔ہم دعا میں پڑھتے ہیں کہ ”یامَنْ سَبَقَتْ رَحْمَتُہُ غَضَبَہُ۔“اے وہ ذات جس کی رحمت اسکے غضب سے پہلے ہے اور کیونکہ رحمت کرنا چاہتا تھا اس لیے غضب کیا اور ناراض ہوا، اور اگر(اسکی) محبت و رحمت نہ ہوتی تو غضب بھی نہ ہوتا ۔
اس باپ کی طرح جواپنے بچے پر اس لیے ناراض ہوتا ہے، کیونکہ اُسے اُس سے محبت ہوتی ہے اور اسکے اچھے مستقبل کا خواہشمند ہوتا ہے ۔اگر اس کا بیٹا کوئی غلط کام کرتا ہے، تووہ اس پر ناراض ہوتا ہے اور کبھی اسے مارتا بھی ہے، حالانکہ دوسروں کے بچوں کے اس سے زیادہ نامعقول اعمال دیکھتا ہے لیکن ان کے مقابل کسی ردِّ عمل کا اظہار نہیں کرتا ۔ جبکہ اپنے بچے کو وہی کرتے دیکھ کر غصے میں آ جاتا ہے، کیونکہ اسے اپنے بچے سے محبت ہوتی ہے لیکن دوسروں کے بچوں پر ناراض نہیں ہوتا کیونکہ اسے ان سے محبت نہیں ہوتی۔

۴۔ مقدمہ جلد اول محمد ؐ خاتمِ پیامبران۔ ص ۱۱، ۱۲(یہ مقدمہ دارالثقلین ہی کے یہاں سے طبع شدہ شہید مطہریؒ کی ایک تالیف ”سیرتِ نبوی ؐ ایک مطالعہ“ میں شامل ہے۔مترجم)