جاذبہ ودافعۂ علی

ناکثین‘قاسطین اور مارقین

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے دوران تین گروہوں کوردکیا اور اُن کے خلاف جنگ کی: اصحابِ جمل، جنہیں آپ نے ”ناکثین“ کا نام دیا، اصحابِ صفین، جنہیں ”قاسطین“کہا اور اصحابِ نہروان، یعنی خوارج جنہیں خودآپ ”مارقین“ کہاکرتے تھے۔(۱)

فَلَمّانَھَضْتُ بِالْاَمْرِنَکَثَتْ طاءِفَۃٌ وَمَرَقَتْ اُخْریٰ وَقَسَطَ اٰخَرونَ۔

پس جب میں نے خلافت کی بنا پر قیام کیا، تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی، ایک گروہ دین سے نکل گیا، اور ایک گروہ نے ابتدا ہی سے سرکشی اور بغاوت اختیار کی۔ (نہج البلاغہ ۔خطبہ۳ )

ناکثین، طبیعت کے اعتبار سے دولت پرست، لالچی اورطبقاتی امتیاز کے حامی تھے۔ عدل و مساوات کے حوالے سے حضرت علی ؑ نے جو باتیں کی ہیں، اُن میں زیادہ تریہی گروہ آپ کا مخاطب ہے ۔

لیکن قاسطین، طبیعتاً فریبی اور منافق تھے۔ وہ زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لینے اور حضرت علی ؑ کی حکومت اور اقتدار کے خاتمے کے لیے کوشاں تھے۔ بعض لوگوں نے تجویز پیش کی کہ آپ ان سے مصالحت کر لیں اور کسی حد تک ان کے مطالبات پورے کر دیں۔ لیکن آپ نے قبول نہ کیا کیونکہ آپ اس طرح کی باتوں کونہیں مانتے تھے۔ آپ نے ظلم وستم سے مقابلے کے لیے اقتدار قبول کیا تھا، اسکی تائید کے لیے نہیں ۔ دوسری جانب معاویہ اور اُن کا دھڑا حضرت علی ؑ کی حکومت کا سرے سے مخالف تھا۔ وہ خودخلافتِ اسلامیہ کی مسند پر بیٹھنے کے خواہشمند تھے ۔ در حقیقت اُن کے ساتھ حضرت علی ؑ کی جنگ نفاق اور دو رخی کے خلاف جنگ تھی۔

تیسرا گروہ جو ”مارقین“کا ہے اُن کی طبیعت میں نارواتعصب، خشک تقدس اور خطرناک جہالت رچی بسی تھی۔

حضرت علی علیہ السلام میں ان تمام گروہوں کے حوالے سے ایک طاقتوردافعہ اورغیر مصالحانہ کیفیت پائی جاتی تھی۔

حضرت علی علیہ السلام کی جامعیت اور آپ کے انسانِ کامل ہونے کا ایک مظہر یہ ہے کہ آپ نے اثبات اور عمل کے مقام میں مخالف فرقوں اور طرح طرح کے انحرافات کا سامنا کیا، اور ان سب کے خلاف جنگ کی ہے۔ کبھی ہم آپ کو زرپرستوں اور دنیا پرستوں کے ساتھ جنگ کرتے دیکھتے ہیں، کبھی دسیوں بلکہ سیکڑوں چہرے رکھنے والے اہلِ سیاست کے ساتھ نبردآزما پاتے ہیں اور کبھی آپ جاہل اور منحرف مقدس مآبوں کے مدِ مقابل کھڑے نظر آتے ہیں۔

ہم اپنی گفتگو کو آخری گروہ، یعنی ” خوارج“ پر مرکوز رکھیں گے، اگرچہ یہ گروہ اب ختم ہو چکا ہے لیکن ایک سبق آموز اور عبرت انگیز تاریخ رکھتا ہے۔ اسکے خیالات تمام مسلمانوں میں سرایت کر گئے تھے۔ لہٰذا چودہ سو سال کی اس طویل تاریخ میں اگرچہ ان سے تعلق رکھنے والے افراد، حتیٰ ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہالیکن ”مقدس نما“ لوگوں کی شکل میں ان کی روح ہمیشہ موجود رہی ہے اوراب بھی باقی ہے اوریہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

۱۔ حضرت علی ؑ سے پہلے خودپیغمبراسلام ؐنے ان کو یہ نام دیئے تھے اورآپ سے فرمایاتھا: سَتُقاتِلُ بَعْدِیَ النّاکِثینَ وَالْقاسِطینَ وَالْمارِقینَ۔ ( میرے بعد تم ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کرو گے)اس روایت کو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی جلدایک کے صفحہ نمبردوسوایک پر نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ :یہ روایت حضرت ختمی مرتبت کی نبوت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔کیونکہ یہ مستقبل ا ور غیب کے بارے میں ایسی صریح خبر ہے جس میں کسی تاویل یا اجمال کی گنجائش نہیں ۔