انسان کی دنیا میں جاذبہ اور دافعہ
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
یہاں جذب و دفع سے مراد جنسی جذب و دفع نہیں ہے (اگرچہ وہ بھی جذب و دفع کی ایک خاص قسم ہے لیکن ہماری گفتگو سے مربوط نہیں اور اپنی جگہ ایک علیحدہ موضوع ہے) بلکہ وہ جذب و دفع مراد ہے جو معاشرتی زندگی میں مختلف افراد کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ انسانی معاشرے میں بعض باہمی تعاون ایسے ہوتے ہیں جن کی بنیاد مشترکہ مفادات ہوتے ہیں، البتہ وہ بھی ہماری اس بحث سے خارج ہیں ۔
بہت سی دوستیاں اور رفاقتیں یا دشمنیاں اور عداوتیں انسان میں پائے جانے والے جذب اور دفع کا ایک مظہر ہوتی ہیں۔ ان جذب و دفع کی بنیاد، مطابقت و مشابہت یا ضدّ یت و منافرت ہوتی ہے(۱) یوں درحقیقت جذب ودفع کا بنیادی سبب مطابقت اور تضاد میں تلاش کرنا چائیے۔ جیسا کہ فلسفے کی ابحاث میں تسلیم شدہ بات ہے کہ: ”اَلسِّنْخِیَّۃُ عِلَّۃُ الْاِنْضِمام۔“( مطابقت انضمام کا سبب ہے)
کبھی دو انسان ایک دوسرے کو جذب (Attract) کرتے ہیں اور ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ آپس میں دوست اور رفیق بن جائیں۔اس کا ایک سبب ہے اور وہ ہے ان کے مابین باہمی مطابقت کا پایا جانا ہے ۔ ان دو افراد کے درمیان جب تک کوئی مشابہت نہ ہو، وہ ایک دوسرے کو جذب نہیں کرتے، اورباہم دوستی کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اصولی طورکسی بھی دو موجودات کے درمیان قرابت اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے درمیان کسی نہ کسی طرح کی مطابقت و مشابہت پائی جاتی ہے۔
مثنوی کے دفترِ دوّم میں ایک دلچسپ حکایت بیان کی گئی ہے :
کسی دانا نے ایک کوّے کو دیکھا کہ وہ سارس کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے ۔ وہ دونوں ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور اکھٹے اُڑا کرتے ہیں۔ د و بالکل مختلف پرندے! کوّے کی نہ تو شکل سارس جیسی ہے اور نہ ہی رنگ اس سے ملتا ہے ۔اسے تعجب ہوا کہ کوّے اورسارس کی اس دوستی کی وجہ کیا ہے؟! وہ ان کے قریب گیا، غور کیا تو دیکھا کہ دونوں لنگڑے ہیں ۔
آن حکیمی گفت دیدم ہم تکی
دربیابان زاغ رابا لک لکی
درعجب ماندم، بجستم حالشان
تاچہ قدرِ مشترک یا بم نشان
چون شدم نزدیک ومن حیران ودنگ
خود بدیدم ہر دوآن بودندلنگ
لنگڑے پن نے دو مختلف النوع پرندوں کو ایک دوسرے سے مانوس کر دیا تھا ۔انسان بھی بغیر کسی وجہ کے ایک دوسرے کے دوست نہیں ہوتے، اور اسی طرح بلا وجہ ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہوتے ۔
بعض لوگوں کے خیال میں اس جذب و دفع کی اصل وجہ احتیاج اور اس احتیاج کا پورا کیا جانا ہے ۔انسان ایک محتاج موجود ہے جسے فی نفسہ محتاج خلق کیا گیا ہے۔وہ اپنی مسلسل محنت اور جد و جہد کے ذریعے اپنی محرومیوں کو برطرف اور اپنی ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ ایک گروہ کے ساتھ وابستہ نہ ہو اور دوسرے گروہ سے دوری اختیار نہ کرے، تاکہ اس طرح ایک گروہ سے فائدہ اٹھائے اور دوسرے کے ضرر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے ۔ہم اس کے اندر کسی ایسے تمایل یا کراہت کا مشاہدہ نہیں کرتے جسے اس میں پائے جانے والے ذاتی تحفظ کے احساس نے پختہ کیا ہو ۔
اس اعتبار سے زندگی کی مصلحتوں اور فطری ساخت نے انسان کو جاذب اور دافع بنادیا ہے۔ لہٰذا جہاں اسے کوئی بہتری نظر آتی ہے، وہ اسکے قریب ہو جاتا ہے اور جہاں اسے اپنے مقاصد کے منافی کوئی چیز دکھائی دیتی ہے اسے اپنے آپ سے دورکرتا ہے۔ اور جو چیزیں ان کے علاوہ ہوں، یعنی نہ فائدہ مند ہوں اور نہ نقصان دہ، ان کے بارے میں کسی احساس کا اظہار نہیں کرتا۔
درحقیقت جذب اور دفع انسانی زندگی کے دوبنیادی ارکان ہیں، ان میں جتنی کمی ہوگی انسانی زندگی میں اتنا ہی خلل واقع ہوگا ۔ مختصر یہ کہ جو اس خلا کو پُر کرنے کی قدرت رکھتا ہے وہ دوسروں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور اسکے برعکس جو نہ صرف یہ کہ (اس) خلا کو پُر نہیں کرسکتا، بلکہ اس میں مزید اضافہ کرتا ہے، وہ دوسروں کوخود سے دور کردیتا ہے ۔ لاتعلق اورکسی احساس سے عاری لوگ محض اس پتھر کی مانندہوتے ہیں جو کنارے پر پڑاہوتاہے ۔
۱۔برقی رو کے بر خلاف جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسکے یکساں چارج والے قطب ایک دوسرے کودفع اور مخالف چارج رکھنے والے قطب ایک دوسرے کو جذب کرتے ہیں۔