جاذبہ ودافعۂ علی

معاشرے میں محبت کی قوت

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

اجتماعی اور معاشرتی نکتۂ نظر سے محبت ایک عظیم اور مؤثر قوت ہے ۔بہترین معاشرہ وہ ہے جس کا نظم و نسق محبت کی طاقت سے چلایا جائے ۔جہاں موجود صاحبانِ اقتدار اور مقتدر افراد لوگوں سے محبت کرتے ہوں اور لوگ صاحبانِ اقتدار اور مقتدر افراد سے محبت کرتے ہوں۔

حکمراں کا لوگوں سے محبت کرنا، حکومت کے استحکام اور اسکی بقا کے لیے ایک عظیم عامل ہے۔ جب تک محبت کاعامل (factor)نہ ہو، اُس وقت تک کسی رہنما کے لیے محال نہیں، تودشوار ضرور ہے کہ وہ معاشرے کی رہنمائی کر سکے اور افرادِ معاشرہ کو منظم اور قانون کا پابندبنا سکے، چاہے اُس نے معاشرے میں عدل و انصاف ہی کیوں نہ قائم کردیا ہو۔لوگ صرف اس وقت قانون کی پابندی کریں گے جب وہ اپنے حکمراں کی جانب سے اپنے لیے محبت کا اظہار دیکھیں گے اور یہ محبتیں ہی ہیں جو لوگوں کو پیروی اور اطاعت پر آمادہ کرتی ہیں ۔

قرآنِ مجید پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کرتا ہے کہ اے پیغمبر!آپ لوگوں پر اثر انداز ہونے اور معاشرے کے نظم و نسق کے لیے ایک عظیم قوت کے مالک ہیں۔

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَہُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لااَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ۔

خدا کے رحم و کرم سے آپ ان کے لیے نرم دل ہوگئے، اگر آپ سخت دل اور تندخوہوتے، تو وہ آپ کے اردگرد سے منتشر ہوجاتے ۔پس ان سے درگزر کیجئے، ان کے لیے بخشش طلب کیجئے اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا کیجئے۔ (سورۂ آلِ عمران۳۔آیت۱۵۹)

یہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد لوگوں کے جمع ہو جانے کی وجہ، لوگوں سے پیغمبر کی مہر و محبت کو قرار دیا گیا ہے ۔اسکے بعد یہ حکم دیا گیا ہے کہ اُنہیں معاف کریں اور اُن کی بخشش کے لیے استغفار کریں اور اُن کے ساتھ مشورہ کیا کریں۔یہ سب محبت اور دوستی کی علامتیں ہیں ۔جس طرح نرمی، برداشت، اور تحمل سب محبت اور احسان میں سے ہیں ۔

او بہ تیغِ حلم چند ین خلق را
واخرید از تیغ، چندین حلق را

اس نے حلم کی تلوار سے کتنے لوگوں کو اپنا بنا لیا
جبکہ لوہے کی تلوار اتنے ہی گلے کاٹتی

تیغِ حلم از تیغِ آہن تیز تر
بل ز صد لشکر، ظفر انگیز تر (۱)

حِلم کی تلوار لوہے کی تلوار سے زیادہ تیز ہے
بلکہ سو لشکروں سے زیادہ فتح کا موجب ہے

قرآنِ کریم میں ایک اور جگہ آیا ہے:

وَ لااَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَ لااَا السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۔

نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں۔ بہتر اخلاق سے شر کو دفع کرو، اس وقت تمہارے اور اُسکے درمیان موجوددشمنی، باہمی گرم جوشی (دوستی) میں بدل جائے گی۔ (سورۂ فصلت۴۱۔آیت۳۴)

ببخش ای پسر کآ دمیزادہ صید
بہ احسان تو ان کرد و وحشی بہ قید

میرے بیٹے، آدمی کو اپنی بخشش کا قیدی بنالو
آدمی کو احسان، اور درندے کو جال سے قید کرتے ہیں

عدو رابہ الطاف گردن ببند
کہ نتوان بریدن بہ تیغ این کمند (۲)

دشمن کی گردن اپنی مہر بانی کے ذریعے جھکا دو
جسے تلوار سے نہیں کاٹا جاسکتا

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی جب مالکِ اشتر کو مصر کا گورنر مقرر کیا، تو اپنے حکم نامے میں انہیں لوگوں کے ساتھ طرزِ عمل کے بارے میں یہ نصیحت کی:

وَاَشْعِرْ قَلْبَکَ الرَّحْمَۃَ لِلرَّعِیَّۃِ وَالْمَحَبَّۃَ لَھُمْ وَاللُّطْفَ بِھِمْ ۔۔۔
فَاَعْطِھِمْ مِنْ عَفْوِکَ وَصَفْحِکَ مِثْلَ الَّذی تَحِبُّ اَنْ یُعْطِیَکَ اﷲُ مِنْ عَفْوِہِ وَصَفْحِہِ۔

اپنے دل میں رعایا کے لیے رحم و رافت اور لطف و محبت کا احساس بیدار کرو۔۔ تم اُن سے اسی طرح عفو درگزر سے کام لیناجس طرح اﷲ سے اپنے لیے عفو ودر گزر کو پسند کرتے ہو۔ (۳)

حکمراں کا دل قوم کی محبت اور ہمدردی سے سرشار ہونا چاہیے ۔ طاقت اور زور کافی نہیں ہوا کرتا۔ زوراور زبردستی سے لوگوں کو بھیڑبکریوں کی طرح ہنکانا تو ممکن ہے، لیکن ان کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرکے اُن سے استفادہ ممکن نہیں ۔نہ صرف یہ کہ قدرت اور زور کافی نہیں ہے، بلکہ اگر انصاف کا اجرا بھی روکھے طریقے سے ہو، تویہ بھی کافی نہیں ۔ حکمراں کو ایک مشفق باپ کی طرح تہہ دل کے ساتھ لوگوں سے محبت کرنا چاہیے، اور اُن سے نرمی سے پیش آناچاہیے ۔اُس کا ایک پُرکشش اور محبت آفریں شخصیت کا مالک ہونا بھی ضروری ہے، تا کہ لوگوں کی ہمت و ارادے اوراُ ن کی عظیم انسانی صلاحیتوں کو اپنے مقدس اہداف کی تکمیل کے لیے کام میں لا سکے۔

۱۔ مثنوی مولانا روم

۲۔ بوستانِ سعدی

۳۔نہج البلاغہ۔ مکتوب ۵۳