جاذبہ ودافعۂ علی

”خوارج“ یعنی باغی۔یہ لفظ ”خروج“ (۱) سے نکلا ہے، جس کے معنی سرکشی اوربغاوت کے ہیں۔ اس گروہ کاآغاز تحکیم کے واقعے سے ہوا ۔

جنگِ صفین میں آخری روز، جبکہ جنگ حضرت علی علیہ السلام کی فتح کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ رہی تھی، معاویہ نے عمرو بن عاص کے مشورے سے ایک ماہرانہ چال چلی۔جب معاویہ کو اپنی تمام کوششیں اور محنتیں اکارت جاتی دکھائی دیں اورانہیں اپنی شکست محض ایک قدم کے فاصلے پرکھڑی نظر آنے لگی، توانہوں نے سوچا کہ فریب دہی کے علاوہ نجات کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لہٰذاانہوں نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ وہ نیزوں پر قرآن بلند کردے اور کہے کہ لوگو! ہم اہلِ قبلہ اور قرآن کو ماننے والے ہیں، آؤ اس (قرآن) کو اپنے درمیان حَکَم }ثالث {قرار دیں ۔

یہ کوئی نئی بات نہ تھی، جو اُن کی اختراع ہو، بلکہ اس سے پہلے اسی بات کو حضرت علی ؑ کہہ چکے تھے، جسے معاویہ نے تسلیم نہیں کیا تھا، اور اب بھی وہ اسے نہیں مانتے تھے، بلکہ یہ یقینی شکست سے چھٹکارا پانے کے لیے اُن کا ایک بہانہ تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے پکارکرکہا:ان پر حملے جاری رکھو، یہ لوگ قرآن کے صفحات اور کاغذ کو بہانہ بنا کر قران کے لفظ اور کتابت کی پناہ میں اپنا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں، یہ بعد میں اپنی قرآن مخالف روش کو جاری رکھیں گے۔ قرآن کا کاغذ اور اُسکی جلد اگر حقیقتِ قرآن کے مقابلے پرآجائے، تو اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھتی ہے۔ قرآن کی حقیقت اور اس کاواقعی جلوہ میں ہوں۔ ان لوگوں نے قرآن کی حقیقت اور معنی کو نابود کرنے کے لیے اسکے کاغذ اوراسکی کتابت کاسہارا لیا ہے۔

جاہل اور پست مقدس مآب لوگوں کا ایک گروہ جوخاصی بڑی تعدادمیں وہاں موجودتھا، حتیٰ بعض خواتین بھی خوارج کے عقیدے پر تھیں۔ کامل مبرد میں جلد۲، صفحہ۱۵۴پر ایک ایسی ہی خاتون کا قصہ نقل کیا گیا ہے جو خوارج کا عقیدہ رکھتی تھی ۔

اس اعتبار سے اس لفظ کے لغوی معنی اور اصطلاحی مفہوم میں ” عموم من وجہ“ کی نسبت ہے۔

ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اشارہ کرنے لگا کہ دیکھو توعلی ؑ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ان لوگوں نے شور مچا دیا کہ کیا ہم قرآن سے جنگ کریں؟ہم تو قرآن کے احیا کے لیے جنگ کرنے آئے تھے، اب جب وہ خود قرآن کوتسلیم کر رہے ہیں، تو پھر ہم اُن سے کس لیے جنگ کریں؟

حضرت علی علیہ السلام نے کہا: میں بھی یہی کہتا ہوں کہ تم قرآن کی خاطر جنگ کرو، لیکن اُن لوگوں کا قرآن سے کوئی واسطہ نہیں، اُنہوں نے قرآن کے الفاظ اور تحریر کو اپنی جان بچانے کا ذریعہ بنایا ہے۔

اسلامی فقہ میں ”کتابِ جہاد“میں ” تَتَرُّس کفار بہ مسلمین۔“( کفار کا مسلمانوں کو ڈھال بنانا) کے عنوان سے ایک مسئلہ ہے۔وہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر دشمنانِ اسلام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں، کچھ مسلمان قیدیوں کو اگلی صفوں میں رکھ کر اپنے لیے ڈھال بنا لیں اور خود اس صف کے پیچھے سے کارروائیاں کریں اور پیش قدمی جاری رکھیں۔ صورت یہ ہو کہ اگر اسلامی لشکر اپنا دفاع کرنا چاہے، یا اُن پر حملہ کر کے اُن کی پیش قدمی روکنا چاہے، تو اسکے سوا کوئی چارہ نہ ہو کہ اپنے اُن مسلمان بھائیوں کو بھی جو ڈھال بنا لیے گئے ہیں حکمِ ضرورت کے تحت راستے سے ہٹا دے۔یعنی حملہ آور دشمن پر قابو پانا اُن مسلمانوں کو قتل کیے بغیر ممکن نہ ہو، تو یہاں اسلام کے عظیم مفادات اور باقی مسلمانوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے اسلامی قانون میں مسلمان کا قتل جائز قرار دیا گیاہے۔ ایسے مسلمان بھی در حقیقت اسلام کے سپاہی ہی ہیں اوروہ بھی راہِ خدا میں شہید ہوئے ہیں، البتہ ان کے پسماندگان کو بیت المال سے خون بہا اداکیا جائے گا۔ (۲)

یہ حکم صرف اسلامی فقہ کا خاصَّہ نہیں ہے، بلکہ یہ دنیا بھر کے فوجی اور جنگی قوانین میں ایک تسلیم شدہ قانون ہے، کہ اگر دشمن داخلی قوتوں سے فائدہ اٹھانا چاہے، تو اُن قوتوں کو ختم کردیا جاتا ہے، تاکہ دشمن تک راہ پیدا کرکے اُسے پسپا کیاجا سکے ۔

ایسی صورت میں جب ایک زندہ مسلمان کے بارے میں اسلام کہتا ہے کہ اسے قتل کر دو۔ تاکہ اسلام کو فتح حاصل ہو، توپھر کاغذ اور جلد کے بارے میں تو کسی کلام کی گنجائش ہی نہیں ہونی چاہیے۔ کاغذاور تحریر کا احترام اس میں درج بات اوراس میں موجود مضمون کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہماری جنگ قرآن کے مضمون اور اُسکی تعلیمات کے لیے ہے اوراِن لوگوں نے کاغذ کو وسیلہ بنایا ہے، تاکہ اسکے ذریعے قرآن کے معنی اور مضمون کو مٹا ڈالیں۔

لیکن نادانی اور جہالت ایک سیاہ پردے کی مانند ان لوگوں کی چشمِ بصیرت پر چھا گئی اور انہیں حقیقت سے دور کر دیا ۔ کہنے لگے : ہم نہ صرف یہ کہ قرآن کے خلاف جنگ نہیں کریں گے، بلکہ کیونکہ قرآن سے جنگ خود ایک منکر ہے، لہٰذا اس سے نہی کی بھی کوشش کریں گے اور جو لوگ قرآن سے جنگ کریں گے، ہم اُن کے خلاف جنگ لڑیں گے۔

آخری فتح میں گھنٹہ بھر سے زیادہ کی دیر نہ تھی، اور مالکِ اشتر کی پیش قدمی جاری تھی، جو ایک منجھے ہوئے افسراور فداکار و جانثار مجاہد تھے۔ قریب تھا کہ معاویہ کی کمان کے خیمے کو گرا کر اسلام کی راہ کو کانٹوں سے پاک کر دیں۔عین اسی وقت اس گروہ نے حضرت علی ؑ پر دباؤ ڈالا اور کہا کہ ہم پشت سے حملہ کر دیں گے۔ حضرت علی ؑ جتنا اصرار کرتے، اتنا ہی وہ اپنے انکار میں اضافہ کرتے اور پہلے سے زیادہ ضد اور ہٹ دھرمی کرنے لگے ۔ حضرت علی ؑ نے مالکِ اشتر کو پیغام بھیجا کہ جنگ روک دو اور خود میدان سے واپس آ جاؤ۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ مجھے چند لمحوں کی مہلت دے دیں، تو جنگ خاتمے پر ہے اور دشمن نیست و نابود ہونے کو ہے۔

ان لوگوں نے تلواریں کھینچ لیں اور کہا آپ مالک سے کہئے کہ وہ واپس آجائیں ورنہ ہم آپ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔

آپ نے دوبارہ کسی کو بھیجا اور کہلوایا کہ مالک !اگر تم علی کو زندہ دیکھنا چاہتے ہو، تو جنگ روک دو اورخود واپس لوٹ آؤ۔ مالکِ اشتر واپس پلٹ آئے اور دشمن خوش ہو گیا کہ اُسکی چال کارگر ثابت ہوئی ۔

جنگ روک دی گئی، تاکہ قرآن سے فیصلہ کریں، حکمیت کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے اور دونوں طرف کے حَکَم }ثالث{ جن باتوں پرقرآن و سنت میں طرفین کا اتفاق ہے اُن کی رو سے فیصلہ کریں اور باہمی اختلافات کو ختم کریں، یااُن میں مزید اضافہ کریں اور حالات کو بد سے بدتر بنا دیں۔

حضرت علی ؑ نے کہا کہ وہ اپنے حَکَم کا تعین کریں، تاکہ ہم بھی اپناحَکَم معّین کرلیں۔ اُنہوں نے ذرا بھی اختلاف کیے بغیر متفقہ طور پر مجسمۂ فریب، عمرو بن عاص کو منتخب کرلیا۔ حضرت علی ؑ نے تجویز پیش کی کہ ہمیں عبداﷲ ابن عباس جیسے سیاستدان، یا فداکار، با بصیرت اور باایمان شخص مالکِ اشتر یا اسی طرح کے کسی اور شخص کو مقرر کرنا چاہیے ۔ لیکن ان احمقوں کو اپنے جیسے کسی کی تلاش تھی، لہٰذااُنہوں نے ابو موسیٰ کومنتخب کیا، جو ایک ناعاقبت اندیش انسان تھے اورجو حضرت علی ؑ کی طرف سے کدورت رکھتے تھے۔

ہر چند حضرت علی علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں نے اُن لوگوں کو سمجھاناچاہا کہ یہ کام ابوموسی کے بس کا نہیں ہے اور وہ اس کام کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ لیکن ان لوگوں نے کہا کہ ہم ان کے علاوہ کسی اور پر اتفاق نہیں کریں گے۔ یہ دیکھ کرحضرت علی ؑ نے کہا کہ اگر یہ بات ہے، تو پھر جوچاہو سو کرو۔ آخر کار ان لوگوں نے ابو موسیٰ اشعری کو حضرت علی ؑ اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے حَکَم کی حیثیت سے حکمیت کے اجلاس میں بھیج دیا۔

مہینوں مشاورت کے بعد، عمرو بن عاص نے ابوموسیٰ سے کہا کہ مسلمانوں کے مفاد میں بہتر یہی ہے کہ نہ علی ہوں اور نہ معاویہ اور ہم کسی تیسرے شخص کو منتخب کرلیں اور وہ تمہارے داماد عبداﷲ ابن عمر کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

ابوموسی نے کہا: تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن اب کرناکیا چاہیے ؟اُس نے کہا: تم علی کو خلافت سے معزول کرو اور میں معاویہ کو۔ اسکے بعد مسلمان خود سے ایک مناسب آدمی کاانتخاب کرلیں، جو عبداﷲ ابن عمر کے سوا کوئی اورنہیں، اور یوں فتنوں کی جڑ ہی ختم ہو جائے گی ۔ دونوں نے اس بات پراتفاق کیا اور اعلان کیا گیاکہ لوگ حکمیت کا نتیجہ سننے کے لیے جمع ہو جائیں۔

لوگ جمع ہو گئے ۔ابوموسیٰ نے عمرو عاص سے کہا کہ آپ جایئے اورمنبر پر اپنے فیصلے کا اعلان کیجئے۔ عمرو عاص بولا: میں؟!آپ جیسے سفید ریش اور پیغمبر کے محترم صحابی کی موجودگی میں کس طرح پہلے گفتگو کی جسارت کر سکتاہوں ۔ ابوموسیٰ اپنی جگہ سے اٹھ کر منبر پر جا بیٹھے۔

اس موقع پر لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں، آنکھیں خیرہ ہونے لگیں اور سانسیں سینوں میں رکنے لگیں۔ سب کو اس بات کا انتظار تھا کہ دیکھیں کیا نتیجہ نکلتاہے؟

ابو موسیٰ نے بولنا شروع کیا : ہم نے مشورے کے بعد امت کا مفاد اس بات میں دیکھا ہے کہ نہ علی ہوں اور نہ معاویہ۔ اسکے بعد مسلمان خود جانیں، جس کو چاہیں منتخب کرلیں۔ پھر انہوں نے اپنی انگوٹھی کو دائیں ہاتھ کی انگلی سے نکالتے ہوئے کہا :میں نے علی کو خلافت سے معزول کیا جس طرح میں نے اس انگوٹھی کو انگلی سے نکالا ہے۔ یہ کہا اور منبر سے اتر آئے۔

عمروعاص اٹھا اور منبر پر بیٹھ گیا اور کہا: تم لوگوں نے ابوموسیٰ کی باتیں سن لیں، اُنہوں نے علی کو خلافت سے معزول کر دیا ہے۔ میں بھی ان کو خلافت سے معزول کرتا ہوں جس طرح ابو موسیٰ نے کیا ہے۔اسکے بعد اُس نے اپنی انگوٹھی کو دائیں ہاتھ سے نکال کر بائیں ہاتھ میں پہنتے ہوئے کہا کہ:میں معاویہ کو اس طرح خلافت پر نصب کرتا ہوں جس طرح اپنی انگوٹھی کو اپنے ہاتھ میں پہنا ہے۔ یہ کہہ کروہ منبر سے نیچے اترآیا۔

مجلس میں کھلبلی مچ گئی۔ لوگوں نے ابوموسیٰ پر حملہ کردیا اور بعض لوگ تازیانے لے کر اُن کی طرف بڑھے، وہ مکہ کی طرف بھاگ گئے اور عمرو عاص بھی شام چلا گیا۔

خوارج، جو اس صورتحال کو پیدا کرنے کے ذمے دار تھے، اُنہوں نے حکمیت کی رسوائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اوراب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ اُن سے چوک کہاں پر ہوئی ہے ؟ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری غلطی یہ تھی کہ ہم معاویہ اور عمرو عاص کی مکاری کا شکار ہوئے اورہم نے جنگ روک دی، نہ ہی وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ اُنہوں نے حکمیت کے بارے میں فیصلہ ہوجانے کے بعداپنے حَکَم} ثالث{ کے انتخاب میں خطا کے مرتکب ہوئے او ر عمرو عاص کے مقابلے میں ابو موسیٰ جیسے شخص کو مقرر کیا۔ بلکہ وہ کہتے تھے کہ: ہم نے خدا کے دین میں دو انسانوں کو حَکَم اور فیصلہ کرنے والا بنایا، جو خلافِ شرع اور کفر تھا۔ حاکم صرف خدا ہے، انسان نہیں ہیں۔

وہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا کہ ہم نے نا سمجھی میں حکمیت کو تسلیم کیا، لہٰذا آپ بھی کافر ہو گئے اور ہم بھی، ہم نے توبہ کر لی ہے، آپ بھی توبہ کیجیے۔ مصیبت دوبارہ اور بڑھ کر کھڑی ہو گئی۔ حضرت علی ؑ نے ان سے کہا: توبہ کرناہر حال میں اچھی بات ہے: ”اَسْتَغْفِرُاﷲُ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ۔“ہم ہمیشہ ہر گناہ سے استغفار کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا :یہ کافی نہیں ہے۔ بلکہ آپ اعتراف کیجئے کہ حکمیت کا معاملہ ایک گناہ تھا اور اس گناہ سے توبہ کیجئے۔آپ نے جواب دیا: تحکیم کا مسئلہ میں نے پیدا ہی نہیں کیا تھا، بلکہ خود تمہارا پیدا کردہ تھا اورتم نے اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو چیز شریعت میں جائز ہے، میں اسے کس طرح گناہ قرار دوں اور جس گناہ کا میں مرتکب ہی نہیں ہوا ہوں، کیوں اس کا اعتراف کروں؟!

یہیں سے خوارج نے ایک مذہبی فرقے کی حیثیت سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ ابتدا میں وہ ایک باغی اور سرکش گروہ تھا، اسی لیے ان کا نام ” خوارج“ رکھ دیا گیا۔ لیکن آہستہ آہستہ اُنہوں نے اپنے لیے اصولِ عقائد ترتیب دے لیے اور وہ گروہ جو ابتدا میں فقط ایک سیاسی رنگ کا حامل تھا، رفتہ رفتہ ایک مذہبی فرقے کی صورت ڈھل گیا، اور اُنہوں نے مذہبی رنگ اختیار کر لیا۔

بعد میں خوارج نے ایک مذہبی گروہ کی حیثیت سے تند و تیز تبلیغی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ آہستہ آہستہ اُنہیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ اپنے خیال میں دنیائے اسلام میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی وجوہات تلاش کریں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عثمان، علی اور معاویہ، سب کے سب غلطی پر اور گناہگار ہیں اور ہمیں پیدا شدہ خرابیوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے ۔لہٰذا خوارج کا مذہب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کے عنوان کے تحت وجودمیں آیا۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے پر عمل کے لیے سب سے پہلے دوبنیادی شرائط درکار ہیں :ایک عمل میں بصیرت اور دوسرے دین میں بصیرت۔ (جیسا کہ روایت میں آیا ہے) کہ اگر یہ نہ ہوں، تو اس عمل کا نقصان اسکے فائدے سے زیادہ ہوجاتا ہے۔

جہاں تک عمل میں بصیرت کا تعلق ہے، تو وہ ان دوشرائط کا لازمہ ہے، جن کو فقہ میں ”احتمالِ تاثیر“ اور ”عدم ترتب مفسدہ“ کہاجاتا ہے، اوراس کا فائدہ تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب ان دو فریضوں کی ادائیگی میں عقل سے کام لیا جائے ۔ (۳)

خوارج کے پاس نہ دینی بصیرت تھی اور نہ عملی بصیرت، وہ نادان اور بصیرت سے عاری لوگ تھے۔ بلکہ بنیادی طور پر وہ عمل میں بصیرت ہی کے منکر تھے، کیونکہ وہ اس فریضے کو ایک تعبدی امر سمجھتے تھے اور اُن کا دعویٰ تھا کہ اسے اندھا دُھند انجام دیا جانا چاہیے۔

۱۔لفظ خروج اگر علیٰ کے ساتھ متعدی ہو، تو اسکے ایک دوسرے سے قریب دو معنی نکلتے ہیں، ایک جنگ اور لڑائی پر آمادہ ہونا اور دوسرا سرکشی، نافرمانی اور شورش ۔ خَرَجَ فُلانٌ عَلیٰ فُلانٍ: بَرَزَ لِقِتالِہِ۔ وَخَرَجَتِ الرَّعِیَّۃُ عَلَی الْمَلِکِ : تَمَرَّدَتْ۔ (المنجد)

لفظ ” خوارج“ جس کے لیے فارسی میں ” شورشیان“ کا لفظ بولا جاتا ہے، وہ ” خروج“کے دوسرے معنی سے لیا گیا ہے ۔اس گروہ کو اس لیے خوارج کہا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت علی ؑ کے حکم سے سرتابی کی اور اُن کے خلاف شورش برپا کی اور کیونکہ ان لوگوں نے اپنی سرکشی کی بنیادایک مذہبی عقیدے اور مسلک پر رکھی، لہٰذا ایک فرقہ بن گئے، اور یہ نام اُن کے لیے مختص ہو گیا۔ اسی لیے وہ تمام لوگ جنہوں نے ان کے بعد قیام کیا اور حاکمِ وقت سے بغاوت کی، وہ خوارج نہیں کہلائے۔ اگر یہ لوگ بھی کوئی مذہبی عقیدہ و مکتب نہ رکھتے، تو بعد کے ادوار میں بغاوت کرنے والوں ہی کی طرح ہوتے۔ لیکن ان کے کچھ عقائد تھے جن کو بعدمیں مستقل حیثیت مل گئی۔ اگرچہ خوارج کبھی بھی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، لیکن اپنے لیے ایک فقہ اور ادب تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے۔( ضحی الاسلام۔ج۳۔ ص ۳۴۰ تا ۳۴۷۔طبع ششم دیکھئے)

ایسے لوگ بھی تھے جنہیں کبھی خروج کرنے کاموقع نہ ملا، لیکن وہ خوارج کا عقیدہ رکھتے تھے۔ جیسا کہ عمرو بن عبید اور بعض دوسرے معتزلہ کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ معتزلہ کے وہ افراد جو اپنے عقائد مثلاًامر بالمعروف، نہی عن المنکر، گناہِ کبیرہ کے مرتکب کے لیے دائمی عذاب جیسے مسائل میں خوارج کے ہم فکر تھے، اُن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ:وَکانَ یَریٰ رَأْیَ الْخَوارج۔ یعنی (وہ) خوارج کی طرح سوچتے ہیں۔

۲۔ لمعہ ج ۱۔کتاب الجہاد۔فصل اوّل۔ و شرائع۔کتاب الجہاد

۳۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس لیے ہے کہ ” معروف“ رائج ہو جائے اور ” منکر“ مٹ جائے۔ پس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وہاں کیا جانا چاہیے جہاں اسکے نتیجہ بخش ہونے کا احتمال ہو۔اگر ہمیں معلوم ہو کہ یہ قطعاً بے اثر رہے گا تو پھرواجب کیونکرہوگا؟

دوسرے یہ کہ اس عمل کو شریعت نے اس لیے رکھا ہے کہ کوئی مصلحت انجام پائے ۔لہٰذا اسے لازماً وہاں انجام دیا جانا چاہیے جہاں اسکے نتیجے میں اس سے بڑی خرابی پیدا نہ ہوجائے۔ ان دو شرائط کو پورا کرنے کے لیے عمل میں بصیرت لازم ہے۔ ایسا شخص جو عمل میں بصیرت سے محروم ہو، وہ اس بات کا ادراک نہیں کر سکتا کہ اس عمل کوئی نتیجہ نکلے گا یا نہیں اور یہ کہ کہیں پہلے سے زیادہ خرابی تو پیدا نہیں ہو جائے گی ؟ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے مطابق جاہلانہ امر با لمعروف کا نقصان فائدے سے زیادہ ہے۔

دوسرے فرائض کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ فائدے کا احتمال ان کی شرط ہے، اگر فائدے کا احتمال ہو تواُنہیں انجام دیا جائے اور اگر فائدے کااحتمال نہ ہو تو انجام نہ دیا جائے۔اگرچہ ہر فریضے میں کوئی فائدہ اور مصلحت منظور ہوتی ہے، لیکن ان مصلحتوں کی تشخیص کی ذمے داری لوگوں پر نہیں ڈالی گئی ہے۔ نماز کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اگر دیکھو کہ تمہارے لیے فائدہ مندہے تو پڑھو، بصورتِ دیگر نہ پڑھو، نہ ہی روزے کے سلسلے میں یہ کہا گیا ہے کہ اگرفائدے کا احتمال ہو تو رکھو اور اگر احتمال نہ ہو تو نہ رکھو۔ روزے کے سلسلے میں یہ کہا گیا ہے کہ اگردیکھو کہ نقصان ہوگا، تو نہ رکھو۔ اسی طرح حج، زکات یا جہاد کے بارے میں اس طرح کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ہے۔ لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں یہ قید ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ اس کاکیا اثر اور کیا ردِّ عمل ہو گا اور یہ کہ کیا یہ عمل اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ہے یا نہیں؟یعنی مصلحت کے تشخیص کی ذمے داری خود عمل کرنے والوں پر ڈالی گئی ہے۔ اس فریضے میں ہر شخص کو یہ حق ہے بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ اس عمل کے دوران منطق، عقل اوربصیرت سے کام لے اوراسکے فائدے اور نقصان کا لحاظ رکھے۔ کیونکہ یہ عمل محض تعبدی نہیں ہے (دیکھئے گفتارِ ماہ۔جلد اوّل۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے موضوع پر تقریر )

اس شرط پرکہ ” امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں بصیرت سے کام لینا واجب ہے، خوارج کے سوا تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے۔ وہ اپنے جمود، بے عقلی اور مخصوص تعصب کی بنا پر کہتے تھے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرتعبدِ محض ہیں، ان میں فائدہ ہونے یا نقصان نہ ہونے کے امکان کی کوئی شرط نہیں ہے۔ اس لیے کسی کو اس حساب کتاب میں نہیں پڑنا چاہیے۔اسی عقیدے کی بنا پر یہ جاننے کے باوجود کہ وہ مارے جائیں گے، ان کا خون ضائع جائے گا، یا ان کے قیام کا کوئی مفیدنتیجہ نہیں نکلے گا، وہ قیام کرتے یا دوسروں کو قتل کیا کرتے تھے۔