جاذبہ ودافعۂ علی

پہلا حصہ:جاذبۂ علی ؑ کی قوت

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

طاقتور جاذبے

کتاب ”خاتم پیامبراؐن“ کی پہلی جلد کے مقدمے میں ”دعوتوں“کے بارے میں ہم یوں پڑھتے ہیں ۔(۱)

وہ دعوتیں جوانسانیت کے درمیان ظاہر ہوئیں، سب کی سب ایک سی نہ تھیں، اور ان کا دائرۂاثر بھی یکساں نہیں ہے ۔ بعض دعوتیں اور فکری نظام صرف ایک پہلو کے حامل ہیں اور اُن کی پیش رفت ایک ہی سمت میں ہوئی ہے۔ اپنی پیدائش کے زمانے میں ان دعوتوں نے ایک وسیع طبقے کو متاثرکیا، لاکھوں کی تعداد میں پیروکار بنائے، لیکن اپنا زمانہ ختم ہونے کے بعد ان کی بساط لپیٹ دی گئی اور وہ طاقِ نسیاں کے سپرد کر دی گئیں۔

بعض (دعوتیں)دو پہلوؤں کی حامل ہیں، ان کے اثرات دو سمتوں میں آگے بڑھے۔ اسی طرح انہوں نے ایک وسیع طبقے کو متاثر کیا، اوربعد کے زمانوں میں بھی پیش رفت کی۔ ان کا دائرۂاثر مکان کے ساتھ ساتھ زمان پر بھی محیط تھا۔

اور بعض دوسری(دعوتوں) نے مختلف پہلوؤں میں پیش رفت کی، انہوں نے وسیع سطح پر انسانی معاشروں کو بھی متاثر کیا اور ہم دنیا کے ہر براعظم میں اُن کے اثرو نفوذکو دیکھتے ہیں ۔اسی کے ساتھ ساتھ یہ مختلف ادوار پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ یعنی یہ کہ ایک مخصوص دور اور خاص زمانے تک محدود نہ تھیں، بلکہ مسلسل کئی صدیوں تک انتہائی مقتدرحیثیت سے حکمراں رہیں، انسانی روح کی گہرائیوں میں ان کی جڑیں موجودرہیں، انسانی ضمیر کی گہرائیوں پر قابض رہیں، قلب کی گہرائیوں پر ان کی حکمرانی رہی اور احساس کی نبض پر ان کا ہاتھ رہا۔ یہ سہ پہلو دعوتیں، سلسلۂ انبیا سے مخصوص ہیں۔

کونسا ایسا فکری یا فلسفی مکتب تلاش کیا جا سکتا ہے، جس نے دنیا کے عظیم ادیان کی مانند، کروڑوں انسانوں پر تیس، بیس یا کم از کم چودہ سو سال تک حکومت کی ہو اور انسانی ضمیر کی گہرائی کو اپنے قبضے میں لیا ہو ؟!

جاذ بے بھی اسی طرح ہیں۔ کبھی ایک پہلوکے حامل، کبھی دوپہلو ؤں اور کبھی تین پہلو ؤں کے حامل ۔ حضرت علی ؑ کا جاذبہ آخری قسم کا ہے ۔اس نے کثیر تعداد میں انسانوں کو بھی اپنا مجذوب بنایا ہے اور مسلسل ایک یا دو صدیوں تک نہیں بلکہ صدیوں تک جاری رہا ہے اور وسعت اختیار کی ہے۔ ایک ایسی حقیقت ہے جو صدیوں سے درخشاں ہے اور قلب و باطن کی گہرائیوں میں اترتی رہی ہے۔ لہٰذا صدیوں بعد بھی جب لوگوں کواُن کی یاد آتی ہے اور وہ اُن کی اخلاقی صفات سنتے ہیں، تو اشکِ عقیدت بہاتے ہیں اور اُن کے مصائب یاد کرکے گریہ کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ اس جاذبے نے دشمن کو بھی متاثر کیا اور اُسکی آنکھوں سے بھی آنسوجاری کروائے۔اور یہ طاقتور ترین جاذبہ ہے۔

یہاں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ دین کے ساتھ انسانی رشتہ، مادّی رشتوں کی طرز کا نہیں ہے، بلکہ ایک دوسری قسم کا رشتہ ہے اور انسانی روح کے ساتھ دنیا میں کسی اور چیز کا رشتہ ایسا نہیں ہوتا۔

حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت میں اگر خدائی رنگ نہ ہوتا، اوراگر وہ مردِ خدا نہ ہوتے، تو فراموش ہو چکے ہوتے ۔انسانی تاریخ میں بہت سے بطلِ جلیل گزرے ہیں۔مردانِ میدانِ خطابت، مردانِ علم و فلسفہ، مردانِ قدرت و سلطنت، مردانِ میدانِ جنگ، لیکن یا تو ان کو انسانوں نے بھلا دیا ہے یا سرے سے پہچانا ہی نہیں ۔لیکن علی ؑ نہ صرف یہ کہ قتل ہونے کے باوجود نہیں مرے، بلکہ آپ زندہ تر ہوگئے ۔خودآپ فرماتے ہیں :

ھَلَکَ خُزّانُ الْاَ مْوالِ وَھُمْ اَحْیاءٌ وَالْعُلَماءُ باقونَ ما بَقیِ الدَّھرُ۔ اَعْیانُھُمْ مَفْقودَۃٌ وَاَمْثالُھُمْ فیِ الْقُلوبِ مَوْجودَۃٌ۔

مال جمع کرنے والے زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہیں، اور علمائے ربّانی اُس وقت تک باقی ہیں جب تک زمانہ باقی ہے۔ ان کے جسم نظروں سے اوجھل ہیں، لیکن اُن کے آثار دلوں میں موجود ہیں ۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار۱۴۷ )

خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں :

غَداً تَرَوْنَ اَیّامی وَیُکْشَفُ لَکُمْ عَنْ سَراءِری وَ تَعْرِفونَنی بَعْدَخُلُوِّ مَکانی وَقِیامِ غَیْری مَقامی۔

کل تم میرے ایام دیکھو گے اور میری وہ خصوصیات تم پر آشکار ہوجائیں گی جن کو تم نے نہیں پہچانا۔ میری جگہ خالی ہونے اوراس جگہ دوسرے کے آجانے کے بعد تم مجھے پہچانو گے ۔ (۲)

عصرِ من، دانندۂ اسرار نیست
یوسف من بہر این بازار نیست

میرا زمانہ اسرار سے آگاہ نہیں ہے
میرا یوسف اس بازار کے لیے نہیں ہے

نا امیدستم زِیارانِ قدیم
طورِ من سوزد کہ می آید کلیم

میں اپنے قدیم دوستوں سے مایوس ہوں
میرا طو ر، کلیم کے انتظار میں جل رہا ہے

قلزم یاران چو شبنم بی خروش
شبنم من مثلِ یمّ طوفان بہ دوش

دوستوں کا سمندر، شبنم کی مانند تلاطم سے عاری ہے
میری شبنم موجوں کی طرح طوفانی ہے

نغمۂ من از جہانِ دیگر است
این جرس را کاروانِ دیگر است

میرا نغمہ کسی اور ہی دنیا سے ہے
صدائے جرس کسی اور ہی کا رواں سے آتی ہے

ای بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد
چشمِ خود بربست و چشمِِ ما گُشاد

بہت سے شاعر مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں
وہ اپنی آنکھیں بند کر کے ہماری آنکھ کھولتے ہیں

رختِ ناز از نیستی بیرون کشید
چون گُل ازخاک مزارِ خوددمید

ان کا حسن نیستی سے طلوع ہوتا ہے
اپنے مزار کی خاک سے پھولوں کی طرح کھلتے ہیں

در نمی گنجدبہ جو عمّان من
بحرہا باید پی طوفانِ من

میرا عمان ندی میں نہیں سماتا
میرے طوفان کو سمندروں کی ضرورت ہے

برقہا خوابیدہ درجانِ من است
کوہ و صحرا باب جولان من است

میر ی جان میں بجلیاں کروٹ لے رہی ہیں
پہاڑ اور بیابان میری پہنچ کے لیے دروازے ہیں

چشمۂِ حیوان برائم کردہ اند
محرِم رازِ حیاتم کردہ اند

انہوں نے مجھے آب حیات بخشا ہے
انہوں نے مجھے رازِ حیات کا امین بنادیا ہے

ہیچ کس رازی کہ من گفتم نگفت
ہم چو فکرِ من دُر معنی نسفت

جو راز میں نے بتایا وہ راز کسی نے بیان نہ کیا
میری فکر کی طرح کسی نے معنی کے موتی نہ پروئے

پیر گردون بامن این اسرار گُفت
از ندیمان راز ہا نتوان نہفت(۳)

بوڑھے آسمان نے مجھے یہ راز سمجھائے
دوستوں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھی جاسکتی

درحقیقت حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت قوانینِ فطرت کی طرح جاویدانی ہے ۔وہ فیض کا ایسا سرچشمہ ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوتا، بلکہ اس میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ بقول جبران خلیل جبران : ”وہ ان شخصیتوں میں سے ہیں جو اپنے وقت سے پہلے دنیا میں آئیں۔“

بعض لوگ صرف اپنے زمانے کے رہبر ہیں، اوربعض اپنے بعد بھی کچھ عرصے کے لیے رہنماہیں اور رفتہ رفتہ ان کی قیادت بھلا دی جاتی ہے، لیکن علی ؑ اور گنتی کے چند اور انسان ہمیشہ ہادی اور رہبر رہتے ہیں ۔

۱۔}یہ مقدمہ خود استادشہید مرتضیٰ مطہری ؒ کی تحریرہے{

۲۔نہج البلاغہ خطبہ۱۴۷

۳۔کلیاتِ اقبال (فارسی)۔ص۶، ۷