خوارج کی بغاوت اور سرکشی
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
خوارج ابتدا میں پرُ امن تھے اور صرف تنقید اورآزادانہ بحث و مباحثے پر اکتفا کرتے تھے۔حضرت علی ؑ کا طرزِ عمل بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی تھا جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا۔ یعنی کبھی اُن کے مزاحم نہیں ہوتے تھے، یہاں تک کہ آپ نے بیت المال سے ان کے وظیفے بھی بند نہ کیے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ اس بات سے مایوس ہوتے چلے گئے کہ حضرت علی ؑ توبہ کریں گے۔ لہٰذا اُن لوگوں نے اپنی روش تبدیل کر لی اور بغاوت کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے ایک ہم مسلک کے گھر میں جمع ہو ئے، جس نے ایک پُرجوش اور ہیجان انگیز تقریر کی اور اپنے دوستوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر بغاوت اور سرکشی کی دعوت دی۔اُس نے اُن سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
اَمَا بَعْدُ فَوَاﷲِ ما یَنْبَغی لِقَوْمٍ یُوْمِنونَ بِالرَّحْمٰنِ وَیُنیبونَ اِلیٰ حُکْم الْقُرْاٰنِ اَنْ تَکونَ ھٰذِہِ الدُّنْیاًاٰثَرَعِنْدَھُمْ مِنَ الْاَمْرِبِالْمَعْروفِ وَالنَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِوَالْقَوْلِ بِالْحَقِّ وَاِنْ مُنَّ وَضُرٌفَاِنَّہُ مَنْ یُمَنُّ وَ یُضَرُّفی ھٰذِہِ الدُّنْیٰا فَاِنَّ ثَوابَہُ یَوْمَ الْقِیامَۃِ رِضْوانُ اﷲِ وَالْخُلودُ فی جِنانِہِ فَأَخْرِجوابِنااِخْوانَنا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظّالِمٍ اَھْلُھااِلیٰ کُوَرِالْجِبالِ اَوْاِلیٰ بَعْضِ ھٰذِہِ الْمَداءِنِ مُنْکِرینَ لِھٰذِہِ الْبِدَعِ الْمُضِلَّۃِ۔
”حمد و ثنا کے بعد، خدا کی قسم مناسب نہیں کہ ایسا گروہ جو بخشنے والے خدا پر ایمان رکھتا ہو اور حکمِ قرآن کے تابع ہو، اُسکی نظرمیں دنیا، امربالمعروف اورنہی عن المنکراور حق کے اظہار سے زیادہ محبوب ہو جائے، چاہے وہ (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ) نقصان اور خطرات کا باعث ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ جو بھی اس دنیا میں خطرے اور نقصان میں رہا، اُسکی جزاقیامت میں رضائے الٰہی اورہمیشہ کی بہشت ہے۔ بھائیو! ہمیں اس شہر سے باہر نکالو جس کے رہنے والے ظالم ہیں، پہاڑوں کے دامن، یا اطراف و اکناف کے دیہاتوں کی جانب، تاکہ ہم ان گمراہ کن بدعتوں کے خلاف قیام کریں اور ان کی روک تھام کریں۔“(۱)
اس تقریر سے اُن کے آتشیں جذبات اور بھڑک اٹھے، وہ وہاں سے اُٹھے اور سرکشی اور بغاوت کاآغاز کر دیا۔ انہوں نے راستوں کے امن و امان کوختم کر ڈالااور لوٹ مار اور دہشت گردی کو اپنا پیشہ بنا لیا (۲)۔ وہ اس طرح حکومت کو کمزور کرنا اور اُسے بے بس کرنا چاہتے تھے ۔
اب موقع درگزر کرنے اور چھوٹ دینے کا نہ تھا۔ کیونکہ اب یہ محض عقیدے کے اظہار کا مسئلہ نہیں رہا تھا، بلکہ معاشرے کے امن و امان میں رخنہ ڈالنے کی کوشش اور شرعی حکومت کے خلاف مسلّح بغاوت تھی۔حضرت علی ؑ نے اُن کا تعاقب کیا اور نہروان کے مقام پر اُن کا سامنا کیا، اُن سے خطاب کیا، اُنہیں نصیحت کی اور حجت تمام کردی ۔ پھرابو ایوب انصاریؓ کے ہاتھ میں امان کا پرچم دیا، کہ جو بھی اسکے سائے میں آ جائے اُسکے لیے امان ہے ۔بارہ ہزار میں سے آٹھ ہزار افراد واپس آگئے، اور باقی اپنی ضد پر اڑے رہے، گھمسان کا رن پڑا اور وہ شکست سے دوچار ہوئے، گنتی کے چند لوگوں کے سوا ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔
۱۔ الامامۃ والسیاسۃ۔ص ۱۴۳۔۱۴۱، کاملِ مبرد۔ج ۲
۲۔ حوالۂ سابق