جاذبہ ودافعۂ علی

نفاق کے خلاف جنگ کی ضرورت

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

نفاق کے خلاف جنگ، مشکل ترین جنگوں میں سے ہے ۔کیونکہ یہ ایسے شاطر لوگوں کے خلاف جنگ ہوتی ہے جو احمقوں کو آلۂ کار بنا لیتے ہیں ۔یہ جنگ کفر کے خلاف جنگ سے کئی گنا مشکل جنگ ہے۔ کیونکہ کفر کے خلاف جنگ ایک واضح، ظاہر اور نمایاں دشمن سے جنگ ہے، لیکن نفاق سے جنگ گویا چھپے ہوئے کفر سے جنگ ہے۔

نفاق کے دو چہرے ہوتے ہیں ۔ایک ظاہری چہرہ، جو اسلام اور مسلمانی کا ہے اور دوسرا باطن کا چہرہ، جو کفر اور شیطنت ہے، اس چہرے کو پہچاننا عوام الناس اور معمولی افراد کے لیے بہت دشوار اور کبھی کبھی ناممکن ہو جاتا ہے ۔اسی لیے نفاق سے جنگ میں زیادہ تر شکست کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ کیونکہ عام لوگوں کے فہم و شعور کی شعاعیں ظاہرسے آگے نہیں بڑھتیں اور چھپے ہوئے کو واضح نہیں کر پاتیں اور باطن کی گہرائیوں میں اترنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

امیر المومنین علیہ السلام، محمد ابن ابی بکرؓ کے نام اپنے خط میں فرماتے ہیں:

وَلَقَدْ قالَ لی رَسولُ اﷲِ:اِنّی لااَخافُ عَلیٰ اُمَّتی مُؤْمِناً وَلا مُشْرِکاً، اَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَمْنَعُہُ اﷲُ بِایمانِہِ وَاَمَّا الْمُشْرِکُ فَیَقْمَعُہُ اﷲُ بِشِرْکِہِ، وَلٰکِنّی اَخافُ عَلَیْکُمْ کُلَّ مُنافِقِ الْجَنانِ عالِمِ اللِّسانِ، یَقولُ ما تَعْرِفونَ وَیَفْعَلُ ماتُنْکِرونَ۔

رسول اﷲ ؐنے مجھ سے فرمایاہے، میں اپنی اُمت کے بارے میں مؤمن اور مشرک سے نہیں ڈرتا، کیونکہ مؤمن کو خدا اسکے ایمان کی وجہ سے محفوظ رکھتا ہے اور مشرک کو اسکے شرک کی وجہ سے رسوا کردیتا ہے، لیکن میں تمہارے بارے میں اس منافق دل سے ڈرتا ہوں جس کی زبان دانا ہے اور وہ وہی کہتا ہے جو تمہیں پسند ہو اور کرتاوہ ہے جسے تم بُرا سمجھو۔ (نہج البلاغہ۔ خط ۲۷ )

یہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفاق اور منافق کی جانب سے لاحق خطر ے کا اعلان کررہے ہیں، کیونکہ اُمت کے عام افرادبے خبر اور نادان ہوتے ہیں، اور ظواہر سے فریب کھاجاتے ہیں ۔(۱)

توجہ رکھنی چاہیے کہ جس قدر احمق زیادہ ہوں گے، اُتنا ہی نفاق کا بازار گرم ہوگا۔ احمق اور حماقت کے خلاف جنگ، نفاق کے خلاف بھی جنگ ہے۔ کیونکہ احمق منافق کا آلۂ کارہوتاہے۔ لہٰذا احمق اور حماقت سے جنگ، دراصل منافق کو غیر مسلح کرنے اور اسکے ہاتھ سے تلوار چھین لینے کے مترادف ہے ۔

عباسی خلیفہ مامون الرشید (جس کی عیاشیاں اور فضول خرچیاں حکمرانوں کی تاریخ میں مشہور و معروف ہیں)جب علویوں کو دیکھتا ہے کہ وہ انقلاب کی کوشش کر رہے ہیں، تو فوراً شاہی لباس کی جگہ پیوند لگے کپڑے پہن کر اجتماعات میں ظاہر ہوتا ہے۔ ابو حنیفۂ اسکافی (جنہوں نے مامون کے درہم و دینار کو بھی ہاتھ نہیں لگایا اور اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا)اسکے اس عمل کی تعریف کرتے ہیں اور اسکی مدح میں کہتے ہیں :

مامون، آن کز ملوک دولتِ اسلام
ہر گز چون او ندید تازی ودہقان

مامون، اسلامی حکومت کے بادشاہوں میں سے ایک
مثلِ بدو اور دہقان اتنا سادہ کوئی اور نہیں دیکھا

جبّہ ای از خزبداشت برتن و چندان
سودہ وفرسودہ گشت بروی و خلقان

کبھی اس کے دوش پر نرم و نازک ریشمی جبہ تھا
مگر اب وہ پراناہوکر پھٹ چکا ہے

مرند مارا ازآن فز ود تعجب
کردند ازوی سوال از سبب آن

ہم نشینوں کو اس پر سخت تعجب ہوا
اُنہوں نے سوال کیا کہ اس کا سبب کیا ہے

گفت ز شاہان حدیث ماند باقی
درعرب و در عجم نہ تو زی و کتان

کہا :بادشاہوں سے ایک روایت باقی رہنے دو
عرب و عجم میں کہ اس کے پاس سلا ہواکپڑا نہ تھا

دوسروں نے بھی کسی نہ کسی طرح قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کی تخریبی اور تباہ کن سیاست سے کا م لیا اورتمام زحمتوں اور قربانیوں کو برباد کردیا اور اپنے خلاف اٹھنے والے انقلابات کوابتدا ہی میں گلا گھونٹ کے دفن کر دیا۔ یہ صرف لوگوں کی جہالت اور نادانی ہی تھی جس کی وجہ سے وہ نعروں اور حقائق میں تمیز نہیں کرپائے اور اس طرح اُنہوں نے اپنے اوپر انقلاب اور اصلاح کا دروازہ بند کرلیا۔اور اس وقت بیدار ہوئے جب تمام تیاریاں خاک میں مل چکی تھیں اور پھر صفر سے تحریک شروع کرنے کی ضرورت تھی۔

حضرت علی علیہ السلام کی سیرت سے جن عظیم نکات کی ہمیں تعلیم ملتی ہے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ اس طرح کی جنگ کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ جہاں بھی کچھ مسلمان یا دینی وضع قطع کے حامل افراد موجود ہوں، جو اغیار کی پیشرفت اور مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کے آلۂ کار بن جائیں، اور استعمار اپنے مفاد کے حصول کے لیے اُنہیں ڈھال بنالے، اور اُن کے خلاف جنگ کرنا ان ڈھال بن جانے والوں کو راستے سے ہٹائے بغیر ممکن نہ ہو، توسب سے پہلے انہی کا خاتمہ کیاجانا چاہیے، تاکہ راستے کی رکاوٹ ختم ہو اور دشمن کے قلب پر حملہ کیا جاسکے۔ شاید خوارج کو استعمال کرنے سلسلے میں معاویہ کی کوششیں موثر ثابت ہوئی تھیں، اسی لیے اس روز بھی معاویہ یا کم از کم اشعث ابن قیس جیسے تخریبی اور ناراض عناصر نے خوارج کو اپنی ڈھال بنا لیاتھا ۔

خوارج کی داستان ہمیں یہ حقیقت سمجھاتی ہے کہ ہر تحریک کو چاہیے کہ سب سے پہلے ان ڈھالوں کا قلع قمع کرے، حماقتوں سے جنگ کرے ۔جس طرح حضرت علی علیہ السلام، تحکیم کے واقعے کے بعد پہلے خوارج کی طرف متوجہ ہوئے اور اسکے بعدآپ نے معاویہ سے نمٹنے کاقصد کیا ۔

۱۔ اسی لیے ہم اسلام کی پوری تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی مصلح نے لوگوں کی خاطر اور اُن کی سماجی اور دینی حالت کی اصلاح کے لیے قیام کیا ہے اور اسکے نتیجے میں مفاد پرستوں اور ظالموں کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا ہے، تواُنہوں نے فی الفور تقدس کا لبادہ اوڑھ کر تقویٰ اور دینداری کی نمائش کی ہے ۔