شعار یا روح؟
جاذبہ ودافعۂ علی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ایک مذہبی بحث کے عنوان سے خوارج یا اُن کے مکتب کے بارے میں بحث ایک بے محل اور غیر موثر بحث ہے، کیونکہ آج دنیا میں ایسا کوئی مذہب موجودنہیں۔ لیکن اسکے باوجود خوارج اور اُن کے کام کی نوعیت کے بارے میں گفتگو ہمارے اور ہمارے معاشرے کے لیے سبق آموز ہے۔کیونکہ ہر چند خوارج کا مذہب ختم ہو چکا ہے، لیکن اسکی روح ابھی زندہ ہے، جو ہم میں سے بہت سے لوگوں میں حلول کیے ہوئے ہے۔
ضروری ہے کہ پہلے تمہید کے طور پر کچھ عرض کروں:
ممکن ہے کچھ مذاہب اپنے شعار (۱)کے اعتبار سے مر چکے ہوں، لیکن اپنی روح کے اعتبار سے زندہ ہوں۔اسی طرح اسکے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مذہب اپنے شعار کے اعتبار سے زندہ ہو، لیکن اپنی روح کے اعتبار سے بالکل مردہ ہوچکا ہو۔ لہٰذا ممکن ہے کہ کوئی فرد یا کچھ افرادشعار کے لحاظ سے ایک مذہب کے تابع اور پیرو شمار کئے جاتے ہوں لیکن }اس مذہب کی{ روح کے اعتبار سے اس کے پیرو نہ ہوں اور اسکے برعکس ممکن ہے کہ بعض لوگ کسی مذہب کی روح کے اعتبار سے اسکے پیرو ہوں، جبکہ اُنہوں نے اس مذہب کے شعائر کو قبول نہ کیا ہواہو۔
مثلاً جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ابتدا ہی سے مسلمان دو فرقوں سنّی اور شیعہ میں بٹ گئے ۔ سنّی ایک عقیدے اور شعار پرہیں اور شیعہ دوسرے عقیدے اور شعار پر ۔
شیعہ کہتے ہیں کہ حصرت علی ؑ، پیغمبراسلام ؐ کے بلا فصل خلیفہ ہیں اور رسولِ کریم ؐنے حضرت علی ؑ کو خدا کے حکم سے اپنی خلافت اور جانشینی کے لیے مقرر فرمایا ہے اور پیغمبر اکرمؐ کے بعد یہ مقام حضرت علی ؑ کے لیے مخصوص ہے۔ جبکہ اہلِ سنت کہتے ہیں کہ اسلام نے اپنی قانون سازی کے دوران خلافت و امامت کے موضوع میں کوئی خاص بندوبست نہیں کیا ہے، بلکہ قیادت کے انتخاب کا معاملہ خود لوگوں پر چھوڑدیا ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہاہے کہ خلیفہ کاانتخاب قریش کے درمیان سے کیا جائے۔
شیعہ، پیغمبراسلام ؐکے بہت سے ایسے صحابہ پر تنقید کرتے ہیں جن کا شمار اکابر اورمعروف شخصیات میں ہوتا ہے اور سنّی اس حوالے سے شیعوں کے بالکل برخلاف ہر اُس شخص کے بارے میں جو ”صحابی“کہلائے، حد سے بڑھے ہوئے حسنِ ظن سے کام لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ کے تمام اصحاب عادل اور دیانت دار تھے ۔ تشیّع کی بنیاد تنقید، تحقیق، اعتراض اور بال کی کھال نکالنے پر ہے اور تسنّن کی بنیادصحت پر حمل کرنا، توجیہ پیش کرنااور ”انشاء اللہ سب ٹھیک ہوگا“ پر ہے۔
ہم جس عہد اور زمانے سے تعلق رکھتے ہیں، اُس میں جو کوئی صرف اتنا کہے کہ علی ؑ پیغمبر ؐکے خلیفۂ بلا فصل ہیں، ہم اُسے شیعہ سمجھ لیں اور اس سے کسی اور چیز کی توقع نہ رکھیں، اب چاہے وہ کیسی ہی روح اورکیسے ہی طرزِ فکر کا حامل ہوا کرے!
لیکن اگر ہم صدرِ اسلام کی طرف پلٹ کر دیکھیں، تو ہم ایک خاص مزاج کا سامنا کرتے ہیں، کہ جوتشیّع کا مزاج ہے اورصرف وہی مزاج تھے جو حضرت علی ؑ کے بارے میں پیغمبراکرؐم کی وصیت کوبغیر کسی شک اور شبہے کے سو فی صدی قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔
اس مزاج اور اس طرزِ فکر کے مقابل ایک اور مزاج اور طرزِتفکر پایا جاتا تھا، جس نے آنحضرت ؐپر مکمل ایمان رکھنے کے باوجو د پیغمبر اکرؐم کی وصیّتوں کی ایک طرح سے توجیہ، تفسیر اور تاویل کرکے انہیں نظر انداز کردیا۔
اسلام میں یہ دھڑے بندی وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک گروہ (جو بہرصورت اکثریت میں تھا ) صرف ظاہر پر نظر رکھتا تھا اور اُسکی نگاہ اتنی تیز اورگہری نہ تھی کہ وہ ہر واقعے کی حقیقت تک پہنچ پاتے اور اسکے باطن کو بھی دیکھ پاتے۔ وہ ظاہر کو دیکھتے اور ہر جگہ اسے درستگی پر حمل کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بزرگ، بوڑھے اور اسلام میں پہل کرنے والے اصحاب کی ایک بڑی تعدادنے یہ راہ اختیار کی ہے، اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ خطا کے مرتکب ہوئے ہیں۔لیکن دوسرا گروہ (جو اقلیت میں تھا) اسی وقت سے کہتا رہا ہے کہ : ہمارے نزدیک شخصیات اس وقت تک قابلِ احترام ہیں، جب تک وہ حقیقت کا احترام کریں۔ لیکن جہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کے اصول، انہی سابقینِ اسلام کے ہاتھوں پامال ہو رہے ہیں، تو پھر یہ حضرات ہماری نظر میں کسی احترام کے مستحق نہیں رہتے ۔ ہم اصول کے طرفدار ہیں شخصیتوں کے طرفدار نہیں۔شیعیت اس روح کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔
ہم جب تاریخ میں سلمانِ فارسیؓ، ابوذرِ غفاریؓ، مقدادِ کندیؓ، عماّرِ یاسرؓ اور ایسے ہی دوسرے لوگوں کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں، اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس چیز نے انہیں اکثریت کو چھوڑ کر علی ؑ کے گرد جمع ہونے پر ابھارا، تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اصولی اور اصول شناس افراد تھے، دیندار بھی تھے اور دین شناس بھی، وہ کہتے تھے کہ ہمیں اپنی فکر اور سمجھ بوجھ کو دوسروں کے حوالے نہیں کر دینا چاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جب وہ غلطی کا شکارہوں تو ہم بھی غلطی کر بیٹھیں۔ در حقیقت ان افراد کی روح ایک ایسی روح تھی جس پر اصول اور حقائق کی حکمرانی تھی اشخاص اورشخصیات کی نہیں۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص، جنگِ جمل کے موقع پر سخت شک و تردّد کا شکار تھا۔ وہ دونوں طرف دیکھ رہا تھا ۔ایک طرف اُسے حضرت علی ؑ اوراُن کے ساتھ شمشیر بکف بزرگ مسلمان شخصیات نظر آرہی تھیں اور دوسری طرف وہ نبی اکرؐم کی شریکِ حیات، حضرت عائشہ کو دیکھ رہا تھااور ازدواجِ نبی کے بارے میں قرآنِ کریم کا یہ ارشاد بھی اسکے پیش نظر تھا کہ: وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ (اُن کی بیویاں اُمت کی مائیں ہیں۔سورۂ احزاب۳۳۔ آیت ۶) اور حضرت عائشہ کے ساتھ طلحہ کوبھی دیکھ رہا تھا جن کا شمار سابقین میں ہوتاتھا، جوایک شاندار ماضی رکھنے والے شخص تھے، اسلامی جنگوں کے ماہر تیر انداز، اسلام کی خاطربیش بہا خدمات انجام دینے والے۔ پھر اُسے زبیر بھی نظر آ رہے تھے، جن کا ماضی طلحہ سے بھی زیادہ درخشندہ تھا، حتیٰ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے سقیفہ کے روز علی ؑ کے گھر میں پناہ لی تھی۔
یہ شخص عجیب حیرت کاشکار تھا کہ آخر یہ سب کیا ہے ؟ علی، طلحہ اور زبیر اسلام میں پہل کرنے والے اور اسلام کے سخت ترین معرکوں کے سربکف افراد ہیں، اور آج وہ ایک دوسرے کے مخالف کھڑے ہیں؟ ان میں سے کون حق کے زیادہ قریب ہے ؟اس کشمکش کے عالم میں، میں کیا کروں؟
یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اس حیرت و استعجاب پر اس شخص کو زیادہ لعنت ملامت نہیں کرنی چاہیے۔ شایداگرہم بھی ان حالات سے دوچار ہوتے، جن کا اسے سامنا تھا، توزبیر اور طلحہ کی شخصیت اور خدمات ہماری آنکھوں کو بھی خیرہ کر دیتیں۔
ہم آج جب علی، عمار، اویس قرنی اور دوسروں کوحضرت عائشہ، زبیر اور طلحہ کے مقابل صف آراء دیکھتے ہیں، تو تردّد کا شکار نہیں ہوتے، کیونکہ ہمارے خیال میں دوسرے گروہ کے لوگوں کے چہروں سے ان کا کردار عیاں تھا ۔ لیکن اگر ہم اُس زمانے میں ہوتے اور اُن کی خدمات کو نزدیک سے دیکھ چکے ہوتے، تو شاید ہم بھی تردّد سے محفوظ نہ رہ پاتے۔
آج جبکہ ہم پہلے گروہ کو حق بجانب اور دوسرے گروہ کو باطل پر سمجھتے ہیں، تو اسکی وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے اور حقائق پر سے پردہ اٹھنے کی وجہ سے ایک طرف ہم پر علی ؑ اور عمارؓ کی حقیقت واضح ہو گئی ہے اور دوسری طرف ہم نے اُن کے مدِ مقابل آنے والوں کو پہچان لیا ہے۔ لہٰذاہم اس بارے میں صحیح فیصلہ کرسکنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ یا کم از کم اگر ہم خود تاریخ میں تحقیق اور مطالعے کے اہل نہیں، تو بچپن ہی سے ہمیں اس طرح سمجھایا گیا ہے۔ لیکن اُس زمانے میں ان دونوں عوامل میں سے کوئی بھی عامل موجود نہ تھا۔
بہر حال وہ شخص امیر المومنین ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ”اََیُمْکِنُ اَنْ یَجْتَمِعَ زُبَیْرٌوَطَلْحَۃُ وَعاءِشَۃُ عَلیٰ باطِلٍ؟“کیا ممکن ہے کہ طلحہ، زبیر اور عائشہ باطل پر اکٹھے ہو جائیں؟ ان جیسی شخصیات، رسول اﷲ ؐکے بزرگ اصحاب کس طرح غلطی کر سکتے ہیں اور کیسے باطل کی راہ پر چل سکتے ہیں ؟کیا یہ ممکن ہے؟
حضرت علی علیہ السلام نے اسکے جواب میں ایسی بات کہی کہ مصر ی دانشور اور ادیب ڈاکٹر طہٰ حسین کہتے ہیں: اس سے زیادہ مضبوط اور اس سے بڑھ کر کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔وحی کے خاموش ہونے اور ندائے آسمانی منقطع ہونے کے بعد اس قدر عظیم بات نہیں سنی گئی ہے۔(۲)، آپ نے فرمایا:
اِنَّکَ لَمَلْبُوسٌ عَلَیْکَ، اِنَّ الْحَقَّ وَالْباطِلَ لایُعْرَفانِ بِاَقْدارِ الرِّجالِ، اِعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِفْ اَھْلَہُ وَاعْرِفِ الْباطِلَ تَعْرِفْ اَھْلَہُ۔
”تم نے دھوکا کھایا ہے اور حقیقت کی پہچان میں تم سے غلطی ہوئی ہے۔ حق اور باطل کو افراد کی قدراور شخصیت کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جا سکتا۔یہ بات صحیح نہیں ہے کہ پہلے تم شخصیات کو معیار قرار دو اورپھر حق اور باطل کو اس معیار پر پرکھو ۔}یہ نہ کہو کہ{ فلاں چیزحق ہے کیونکہ فلاں و فلاں اسکے حق میں ہیں اور فلاں چیز باطل ہے کیونکہ فلاں اور فلاں اسکے مخالف ہیں۔نہیں، اشخاص کو حق اور باطل کا پیمانہ نہیں بنانا چاہیے، بلکہ حق اور باطل کے پیمانے پر شخصیات کو ناپنا اور تولنا چاہیے۔“
یعنی تمہیں حق شناس اور باطل شناس بننا چاہیے، اشخاص اور شخصیت شناس نہیں۔ افراد کو (خواہ وہ بڑی شخصیات ہوں یا چھوٹی)حق کے معیار پر پرکھو۔ اگروہ اس معیارپر پورے اتریں، تو اُن کی شخصیت کو قبول کرو، ورنہ نہیں۔ یہ کوئی بات نہیں ہوئی کہ کیا فلاں، فلاں اور فلاں باطل پر ہو سکتے ہیں؟
یہاں حضرت علی علیہ السلام نے خود حقیقت کو حقیقت کا معیار قرار دیا ہے، اور تشیّع کی روح اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ در حقیقت شیعہ فرقہ ایک مخصوص تفکراور اسلامی اصولوں کو اہمیت دینے کی بنیاد پر وجود میں آیاہے، نہ کہ افراد اور اشخاص کی بنیاد پر۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ابتدائی شیعہ نقّاد اور (شخصیات کے) بت توڑنے والے افراد کے طور پر پروان چڑھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام ایک تینتیس سالہ جوان ہیں، جن کے ساتھیوں کی تعداد اس قدرکم تھی کہ اسے انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا۔ ان کے مقابلے میں ساٹھ سالہ بوڑھے تھے، جن کے ساتھ بھاری اکثریت تھی۔ اکثریت کی منطق یہ تھی کہ بزرگوں اور مشائخ کا راستہ یہ ہے، اور بزرگ غلطی نہیں کرتے اور ہم ان کی راہ پر چل رہے ہیں۔ جبکہ اُس اقلیت کا کہنا یہ تھا کہ یہ صرف حقیقت ہے جس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی، اور بزرگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو حقیقت کے مطابق ڈھالیں۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ کتنے زیادہ ہیں جن کاشعار توشیعیت کا شعار ہے لیکن اُن میں شیعیت کی روح نہیں پائی جاتی۔
شیعیت کا راستہ اُسکی روح کی طرح حقیقت کی شناخت اور اُسکی پیروی ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا اثر ”جذب“اور ”دفع“ہے۔لیکن ہر جذب و دفع نہیں(جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ کبھی باطل، کسی مجرم اور ظالم کے لیے جذب پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی حق و حقیقت اور انسانی فضائل کو دفع کیا جاتا ہے)، بلکہ وہ ”جذب“او ر ”دفع“جو علی ؑ کے جاذبے و دافعے کی قسم سے ہو۔کیونکہ شیعہ یعنی سیرتِ علی ؑ کی کاپی(copy)۔ شیعہ کے لیے ضروری ہے کہ اس میں بھی علی ؑ کی طرح دو قوتیں پائی جائیں، ایک جاذبے کی اور دوسری دافعے کی۔
اس تمہید کا مقصدیہ تھا کہ ہم یہ بات جان لیں کہ ممکن ہے ایک مذہب مر چکا ہو، لیکن اسکی روح ایسے دوسرے لوگوں میں زندہ ہو جو بظاہر اس مذہب کے پیروکار نہ ہوں، بلکہ اپنے آپ کو اس مذہب کا مخالف سمجھتے ہوں۔
آج خوارج کا مذہب مر چکا ہے، یعنی آج روئے زمین پر کوئی قابلِ توجہ گروہ خوارج کے نام سے موجود نہیں ہے، کوئی ایسا گروہ نہیں پایا جاتا جو خوارج کے نام سے اس مذہب کا پیروکار ہو، لیکن کیا خوارج کے مذہب کی روح بھی مر چکی ہے؟ کیا اس روح نے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں حلول نہیں کیا ہے؟ کیا مثلاً خدانخواستہ ہمارے درمیان، خاص کر ہمارے یہاں اصطلاحاً مقدس مآب کہے جانے والے طبقے میں تو اس روح نے حلول نہیں کر لیا ہے؟
یہ وہ باتیں ہیں جن کا علیحدہ سے جائزہ لیا جانا چاہیے ۔اگرہم خوارج کے مذہب کی روح کو صحیح طور پر پہچانتے ہوں، تو شاید اس سوال کا جواب دے سکیں۔ خوارج کے بارے میں بحث کی افادیت صرف اسی نقطۂ نظر سے ہے۔ ہمیں یہ بات جاننی چاہیے کہ علی ؑ نے کیوں ان کو دور کیا، یعنی کیوں علی ؑ کے جاذبے نے انہیں اپنی طرف نہ کھینچا اور اسکے برعکس اُن کے دافعے نے خوارج کو اپنے سے دور کیا؟
یہ ثابت شدہ بات ہے (جیسا کہ ہم بعدمیں دیکھیں گے) کہ خوارج کی شخصیت اور اُن کی نفسیات کی تشکیل میں اثر انداز ہونے والے تمام عناصر ایسے نہ تھے جن پر علی ؑ کا دافعہ مؤثر اور حکم فرماہوتا ۔ بلکہ اُن کی شخصیت میں بہت سی ایسی خصوصیات اور درخشاں امتیازات بھی موجود تھے کہ اگر ان کے ساتھ کچھ تاریک پہلو نہ ہوتے، تو اُن پر علی ؑ کا جاذبہ اثرانداز ہوتا۔ لیکن اُن میں موجودتاریک پہلوؤں کی کثرت نے اُنہیں علی ؑ کے دشمنوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
۱۔}یہاں شعار سے مراد وہ نعرے اور رسومات ہیں جو کسی مسلک کی شناخت سمجھے جاتے ہیں۔مترجم{
۲۔ علی ؑ وبنوہ ۔ص۴۰