جاذبہ ودافعۂ علی

حضرت علی ؑ کی جمہوری روش

جاذبہ ودافعۂ علی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے خوارج کے ساتھ انتہائی آزادانہ اور جمہوری طرزِ عمل اختیار کیا ۔ آپ خلیفہ تھے اوروہ آپ کی رعایا، آپ اُن کے ساتھ کسی بھی قسم کی پالیسی اختیار کرسکتے تھے، لیکن آپ نے نہ تو ان کو قید کیا، نہ کوڑے مارے، حتیٰ بیت المال سے اُن کا وظیفہ بھی بند نہ کیا۔آپ اُنہیں بھی اسی نظرسے دیکھتے تھے جس نظرسے باقی لوگوں کو دیکھا کرتے تھے۔ حضرت علی ؑ کی زندگی میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، تاہم دنیا میں بہت ہی کم اسکی مثال ملتی ہے۔ خوارج ہر جگہ اپنے عقیدے کے اظہار میں آزاد تھے، اور حضرت خوداورآپ کے اصحاب کھلے دل سے اُن کا سامنا کرتے اور اُن سے گفتگو کرتے تھے۔ طرفین استدلال کرتے اور ایک دوسرے کے استدلال کا جواب دیتے تھے۔

شاید دنیا میں اس قدر آزادی کی کوئی اور مثال نہ مل سکے، کہ ایک حکومت نے اپنے مخالفین کے ساتھ اس قدر جمہوری طرزِ عمل اپنایاہو۔

خوارج مسجد میں آتے اور حضرت علی ؑ کی تقریروں اور اُن کے خطبوں کے دوران اپنی تقریر شروع کر دیتے۔ایک دن امیر المومنین ؑ منبرپر تشریف فرما تھے۔ ایک شخص آیا اورآپ سے کوئی سوال کیا، حضرت علی ؑ نے فی البدیہ جواب دیا۔ لوگوں کے درمیان سے ایک خارجی چیخ کر بولا: قاتَلَہُ اﷲُ مااَفْقَھَہُ۔(خدا اسے ہلاک کرے، کتنا بڑا عالم ہے) دوسرے لوگوں نے چاہا کہ اُسے اُسکی گستاخی کی سزا دیں، لیکن حضرت علی ؑ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو، اس نے صرف مجھے بُرا کہا ہے۔

خوارج نمازِ جماعت میں حضرت علی ؑ کی اقتدانہیں کرتے تھے کیونکہ وہ آپ کو (نعوذ باﷲ) کافر سمجھتے تھے۔وہ لوگ مسجد میں آتے تھے اور حضرت علی ؑ کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھتے تھے اور یوں ان کو اذیت پہنچاتے تھے۔ ایک روز جبکہ حضرت علی ؑ نماز میں کھڑے تھے اور لوگ ان کی اقتدا کر رہے تھے، ابن الکواء نامی ایک خارجی کی آواز بلند ہوئی اور اس نے حضرت علی ؑ کی طرف کنایۃً ایک آیت زور سے پڑھی:

وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَءِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(سورۂ زمر ۳۹۔ آیت ۶۵)

یہ آیت پیغمبر ؐسے خطاب ہے کہ تم اور تم سے پہلے پیغمبروں پر وحی ہوئی کہ اگر تم مشرک ہو جاؤ گے تو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤگے۔ ابن الکواء اس آیت کی تلاوت کے ذریعے حضرت علی ؑ کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ ہم اسلام کے لیے آپ کی خدمات کوجانتے ہیں، آپ سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں، پیغمبرؐ نے آپ کو اپنا بھائی منتخب کیا ہے، شبِ ہجرت آپ نے لازوال فداکاری کا مظاہرہ کیا اور پیغمبر ؐکے بستر پر سوئے، اپنے آپ کو تلواروں کی زد پر دے دیا مختصر یہ کہ اسلام کے لیے آپ کی گرانقدرخدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن خدااپنے پیغمبرتک سے یہ کہتا ہے کہ اگر تم مشرک ہو جاؤ تو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور کیونکہ اب آپ کافر ہو گئے ہیں اس لیے آپ نے اپنے تمام گزشتہ اعمال کو ضائع کر دیا ہے۔

اسکے جواب میں حضرت علی ؑ نے کیا کیا؟

جب تک اسکے قرآن پڑھنے کی آواز بلند رہی، آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ اس نے پوری آیت پڑھ لی۔ جونہی اس نے آیت ختم کی حضرت علی ؑ پھر سے نماز میں مشغول ہو گئے ۔ ابن الکواء دوبارہ آیت پڑھنے لگا، حضرت علی ؑ نے فوراً خاموشی اختیار کر لی۔ علی ؑ خاموش ہو جاتے تھے کیونکہ قرآن کا حکم ہے کہ :

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا۔

جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔( سورۂ اعراف۷۔ آیت ۲۰۴)

اسی لیے حکم ہے کہ جب امامِ جماعت قرأت میں مشغول ہو، تو مامومین کو چاہیے کہ وہ خاموش رہیں اور سُنیں۔

جب وہ کئی بار اس آیت کو دُہرا چکا اور نماز کو خراب کرنا چاہا، توحضرت علی ؑ نے یہ آیت پڑھی:

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقٌّ وَّ لااَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لااَا یُوْقِنُوْنَ۔

صبر کرو، خدا کا وعدہ سچا ہے اورپورا ہو گا، یہ ایمان و یقین سے بے بہرہ لوگ تمہیں لڑکھڑا نہ دیں اور ہلکا نہ کر دیں۔( سورۂ روم۳۰۔ آیت ۶۰)

پھر آپ نے کوئی پروا نہ کی اور اپنی نماز جاری رکھی۔(۱ )

۱۔ابن ابی الحدید ۔ج۲۔ ص۳۱۱