مجازی طور پر نزدیک ہونا
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ہم ایک اور طرح کے نزدیک ہونے سے بھی واقف ہیں، جو فقط تعبیر ہے، حقیقی طور پر نزدیک ہونا نہیں ہےوہ کس طرح؟
آپ ایک عہدے و منصب کے حامل شخص، یا کسی دولت مند شخص کو پیش نظر رکھئے، جس کے پاس بہت زیادہ طاقت اور بہت زیادہ مال و دولت ہےپھر ہم بعض افراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں عہدیدار سے نزدیک ہے، فلاں شخص فلاں عہدیدار سے نزدیک ہےآپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ فلاں قدرت مند شخص سے نزدیک ہیں، یا نزدیک نہیں ہیں؟ مثلا آپ کہتے ہیں :نہیں، میں}اُس سے {نزدیک نہیں ہوںلیکن فلاں شخص اُس سے بہت نزدیک ہے۔
کیسے؟ مجھے کسی قدرت مند اور منصب ومقام کے حامل شخص سے کوئی کام پڑتاہے، میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسے شخص کے پاس جاؤں جو اس سے نزدیک ہو، وہ میرا اس سے تعارف کرائے اور میری مشکل حل ہو جائےیہ نزدیک ہونا کس قسم کا نزدیک ہونا ہے؟
اگر آپ کہتے ہیں کہ ایاز، سطان محمود سے نزدیک تھا، تو اس نزدیک ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ کوہر قدرت مند شخص کے حوالے سے اس قسم کی چیزنظر آئے گیمثلاً کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزدیک تھےکیا اس سے مرادیہ ہے کہ ہمیشہ پیغمبر اور علی کے درمیان کم مکانی فاصلہ رہاکرتاتھا؟ یعنی اگر اس کا حساب کیا جاتا، تو ہمیشہ دوسرے افراد پیغمبر سے ایک فاصلے پر ہوتے تھے اور وہ شخصیت جس کے جسم کا فاصلہ پیغمبر کے جسم سے سب سے زیادہ کم تھا وہ علی تھے؟
جب آپ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں عہدیدار سے قریب ہے؟ تو کیا آپ کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اُس کا مکانی فاصلہ کم ہے؟ نہیں، یہ مراد نہیں ہوتی۔ اگر اس طرح ہو، تو اس عہدیدار کے دروازے پر رہنے والا چپراسی، تمام دوسرے لوگوں سے زیادہ اس سے نزدیک ہےکیونکہ وہ ہمیشہ اس سے صرف تین چار میٹر کے فاصلے پر رہتا ہے اور اسکی خدمت کے لئے تیار رہتا ہےکوئی بھی اور قدرت مند شخص اس عہدیدار کے چپراسی سے زیادہ اس سے نزدیک نہیںحالانکہ آپ کی مراد یہ نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ چپراسی ان معنی میں جو آپ کہہ رہے ہیں، اس شخص سے نزدیک نہیں ہے}بلکہ{ سرے سے نزدیک ہی نہیں ہے۔
پس پھر آپ کس معنی میں کہتے ہیں کہ اسکے نزدیک قریب اور مقرب ہے؟ آپ کی مراد یہ ہے کہ اسکے دل میں، اسکے ذہن میں اس انسان کوایسی محبوبیت اور ایسااحترام حاصل ہے کہ وہ اسکی بات نہیں ٹالتا، اسکی خواہش رد نہیں کرتا، اسکی خواہش اسکے لئے ایسے ہی ہے جیسے خود اسکی اپنی خواہش ہویہ قرب، قربِ معنوی ہےلیکن جب ہم قربِ معنوی بھی کہتے ہیں، تو در حقیقت تعبیر ہے، قربِ مجازی ہےیعنی خود یہ، خود اُس سے، یہ شخص اُس شخص سے نزدیک نہیں ہے، بلکہ یہ فقط اس انسان کے ذہن اور روح میں ایک خاص محبوبیت رکھتا ہے، اسکے لطف و عنایت کا مورد ہے، اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ نزدیک ہے۔
ایک بندے کے خدا سے نزدیک ہو نے کے کیا معنی ہیں؟
یقینی طور پر پہلے معنی والی نزدیکی مرادنہیں ہےیعنی جب ہم کہتے ہیں کہ بندہ عبادت کی وجہ سے خدا سے نزدیک ہو جاتا ہے، تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس بندے کا خدا سے فاصلہ کم ہو جاتا ہےیعنی پہلے اسکے اور خد ا کے درمیان فاصلہ موجود تھا، اب تدریجاً وہ اس سے نزدیک اور نزدیک ہو رہا ہےیہاں تک کہ فاصلہ کم ہوتا جاتاہے اور وہ مرحلہ }آپہنچتا ہے{ جس کے متعلق قرآنِ مجید کہتا ہے کہ: یٰٓاَیُّھَاالْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ(۱) جس کا نام پروردگارِ عالم سے ملاقات اورلقائے رب ہےدو جسموں کی مانند جو ایک دوسرے کے نزدیک آ جاتے ہیںمثلاًجس طرح آپ قم پہنچ جاتے ہیں، ویسے ہی بندہ خدا تک پہنچ جاتا ہےاس قسم کے معنی نہیں ہیں اور یقیناًمراد یہ نہیں ہے۔
کیوں؟ اس لئے کہ اُن دسیوں عقلی دلائل سے قطع نظر جو یہاں موجود ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے فاصلے پر نہیں ہے، خدا کا کوئی مکان نہیں ہے، جس کی بنا پر اس قسم کا فاصلہ فرض ہو سکے، قرآن اور اسلام کی منطق کے لحاظ سے بھی، یعنی نقلی منطق کے لحاظ سے بھی، جس نے ہمیں خدا سے قرب اور نزدیکی کا حکم دیا ہے، جس نے ہمیں زُلفای عنداﷲ کا حکم دیا ہے، وہی جس نے ہم سے کہا ہے کہ خدا کا قرب حاصل کروکوئی خدا سے دور ہوتاہے اور کوئی خدا سے نزدیک ہےوہی منطق کہتی ہے کہ خدا تمام موجودات سے نزدیک ہے، خدا کسی موجود سے دور نہیں: وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(۲) ہم انسان کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اسکے قریب ہیںدوسری آیت: وَ ہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ(۳) تم جہاں کہیں ہو، خدا تمہارے ساتھ ہےخدا کسی موجود سے دور نہیں ہے۔
پس ان معنی میں فاصلے کو کم کرنے کا کوئی مفہوم نہیں پایا جاتاہاں، ایک نکتہ ہے جسے ہم بعد میں عرض کریں گےخدا تمام لوگوں سے مساوی طور پر نزدیک ہےبلکہ تمام اشیا سے یکساں طور پر نزدیک ہےلیکن اشیا مساوی طور پر خدا سے نزدیک نہیں ہیںبعض اشیا خدا سے دور ہوتی ہیں لیکن خدا تمام اشیا سے نزدیک ہے، اور اس میں بھی ایک راز پوشیدہ ہے، جسے شاید آپ کے لئے عرض کر سکوںبہرحال، ان معنی میں نہیں ہے کہ دو چیزوں کے درمیان فاصلہ ہو اور ہم عبادت کے ذریعے اِن دوچیزوں کا فاصلہ کم کریں۔
پس کیا دوسرے معنی مراد ہیں؟ یعنی کیاخدا وندِ عالم کا قرب، معاشرتی عہدے و مقام کی حامل ہستیوں سے تقرب کی مانند ہے؟ بالفاظِ دیگر خداسے تقرب ایک ایسی تعبیر ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں؟ ایک مجاز ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں؟ اسی طرح جیسے ہم نے اپنی اجتماعی گفتگو میں اس قسم کی باتوں کو قرار دیا ہوا ہےایک مطلب جو واقعی نزدیک ہونا نہیں ہے }بلکہ ہم نے{توجہ کا مورد ہونے کو، عنایت کا مورد ہونے کو، لطف کا مورد ہونے کو قرب اور تقرب کا نام دیاہوا ہےبہت سے افراد، حتیٰ بہت سے علما اس طرح تصور کرتے ہیںکہتے ہیں کہ پروردگار سے تقرب کے یہی معنی ہیں جو نتیجے میں تعبیر اور مجاز ہے۔
اگر ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ خدا سے نزدیک ہیںیعنی دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ خدا کے نزدیک مقرب ہیںیعنی ان پر خدا کا سب سے زیادہ لطف اور عنایت ہےبلاتشبیہ }عرض ہے{، ہم خدا سے تشبیہ دینا نہیں چاہتےممکن ہے آپ کے ایک سے زیادہ بچے ہوں، اور ان بچوں میں سے ایک بچہ آ پ کے ذوق، مزاج اور آئیڈیل کے زیادہ مطابق ہوآپ کہتے ہیں کہ اپنے بچوں میں سے یہ بچہ دوسرے بچوں کی نسبت میرے سب سے زیادہ قریب ہےیعنی ان سب سے زیادہ میری توجہ کا مرکز ہےاگرچہ آپ کے تمام بچے، جسمانی اعتبارسے آپ سے مساوی طورپر نزدیک ہیں، سب کے سب ایک ہی گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیںکبھی کبھی وہ بچہ جسے آپ کم پسند کرتے ہیں وہ آپ کے نزدیک بیٹھ جاتا ہے اور وہ بچہ جسے آپ زیادہ پسند کرتے ہیں وہ آپ سے دو میٹر فاصلے پر بیٹھتا ہے۔
کہتے ہیں کہ پروردگار کے مقرب ہونے کے معنی اسکے سوا کچھ اور نہیں ہیں کہ ہم زیادہ پروردگار کی عنایت کے مرکز ہوںوگرنہ یہ بے معنی بات ہے کہ ہم نزدیک ہو ں اور خدا کی طرف چلیںاسی طرح یہ بات بھی بے معنی ہے کہ خدا ہماری طرف آئے اور خدا ہم سے نزدیک ہو جائےہمارے واقعاً خدا سے نزدیک ہونے کا بھی کوئی مفہوم نہیںخدا تو ہر چیز سے نزدیک ہےہم خدا سے نزدیک ہو جائیں، یعنی کیا؟
۱۔ اے انسان! تو اپنے رب کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہے، توایک دن اس کا سامنا کرے گا۔ (سورۂ انشقاق۸۴۔ آیت۶)
۲۔ اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیا کیا وسوسے پیدا کرتا ہے اور ہم اس سے رگِ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔ (سورۂ ق ۵۰آیت ۱۶)
۳۔ اور وہ تمہارے ساتھ ہے، تم جہاں بھی ہو۔ (سورۂ حدید ۵۷آیت ۴)