دین کے بارے میں ایک غلط تصور
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ: الَصَّلوٰۃُ عَمُودُ الدّین (نماز دین کا ستون ہے) والی بات کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات سے موافق نہیں۔ کیونکہ دین اسلام تو سب چیزوں سے زیادہ اجتماعی مسائل کو اہمیت دیتا ہےاسلام تو اِنَّ اﷲَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالِاْ حْسَانِ(۱) کا دین ہےاسلام تو لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَات وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ(۲) کا دین ہےاسلام تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دین ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(۳) اسلام جہدِ مسلسل اور کوشش اور عمل کا دین ہےاسلام ایک عظیم دین ہے۔
ایک ایسا دین جو مذکورہ مسائل کو اتنی اہمیت دیتا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ عبادت کے لئے اتنی زیادہ اہمیت کا قائل ہو؟ نہیں، دین اسلام میں عبادت کے مسئلے کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل نہیںہمیں اسلام کی اخلاقی اور اجتماعی تعلیمات کے نفاذ کے لئے کوشش کرنی چاہئےعبادت بے کار لوگوں کا مشغلہ ہےجنہیں کوئی اہم ترین کام نہ ہو وہ نماز پڑھیں، وہ عبادت کریںلیکن ایک ایسا شخص جس کے سامنے اہم ترین کام ہوں اسکے لئے لازم نہیں کہ وہ عبادت بجا لائے۔
یہ بھی ایک غلط فکر ہے اور انتہائی انتہائی خطرناکاسلام کو اس طرح سمجھنا چاہئے، جیسا کہ وہ ہے۔
میرے ان عرائض کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کومیں اپنے معاشرے میں ایک بیماری کی صورت میں محسوس کر رہا ہوںانتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں جو لوگ اسلام کا نعرہ بلند کر رہے ہیں ان میں سے اکثر (البتہ سب کو نہیں کہتا) دو گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں ایک گروہ ربیع بن خثیم جیسے طرزِ فکر کا حامل ہے، خواجہ ربیع کی طرح سوچتا ہےایسے لوگوں کے نزدیک ”اسلام“ ذکر و دعاکرنے، نوافل پڑھ لینے، زیارات پر جانے اور زیارتِ عاشورہ کی قرآئت کا نام ہےایسے افراد کے نزدیک اسلام کے معنی مفاتیح اور زاد المعاد ہے (دعاؤں کی دو معروف کتابیں)ان کا پورا کا پورا اسلام مفاتیح الجنان میں سمٹ آیا ہےاسکے سوا ان کے نزدیک کسی اور چیز کا وجود ہی نہیں، یہ لوگ بالکل ربیع بن خثیم کی سی سوچ رکھتے ہیں انہیں دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں، مسائل حیات سے کوئی غرض ہی نہیں، اسلام کی اجتماعی تعلیمات سے کوئی مطلب نہیں، اسلامی اصول و ارکان سے کوئی لگاؤ نہیں، اسلامی تربیت سے کوئی واسطہ نہیںانہیں سرے سے کسی بھی چیز سے مطلب نہیں۔
ان لوگوں کی تفریط کے ردِ عمل میں ایک افراطی طبقہ پیدا ہوا ہےیہ طبقہ اسلام کے اجتماعی مسائل کو اہمیت دیتا ہے، ان کے بارے میں حساسیت کا اظہار بھی کرتا ہےاس پہلو سے یہ لوگ قابل قدر ہیںلیکن انہی لوگوں میں سے کچھ کو بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ مثلاً مستطیع ہونے کے باوجود حج کو نہیں جاتےیہ شخص جو واقعاً مسلمانوں سے، حقیقتاً اسلام سے لگاؤ رکھتا ہے، اسکا دل اسلام کے لئے دھڑکتا ہے، لیکن مستطیع ہوتے ہوئے بھی حج کو نہیں جاتا، اس کی نظر میں حج کی کوئی اہمیت ہی نہیں، تقلید ضروری ہے لیکن اسے اہمیت نہیں دیتاحالانکہ تقلید ایک معقول بات ہے۔
تقلید کسے کہتے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ یا تو آپ، نماز روزہ جیسی چیزوں کے مسائل کو (مصادرِ شرع سے) براہِ راست خود اخذ کیجئےیعنی اس میدان میں اس قدر ماہر ہو جائیے کہ اس مہارت کے بل بوتے پر خود استنباط کر سکیں۔ یا پھر یہ کہ احتیاط پر عمل کیجئے، جو ایک خاصا دشوار کام ہےیا پھرایک ماہر جامع الشرائط عادل شخص کاانتخاب کیجئے اور جس طرح ایک ماہر طبیب سے رجوع کر کے اسکے بتائے ہوئے پر عمل کرتے ہیں اسی طرح اس کی رائے پر عمل کیجئےانسان بغیر تقلید کے رہ ہی نہیں سکتایعنی اگر وہ تقلید نہ کرے تو اپنے آپ کو بہت زیادہ مشکل میں ڈال لیتا ہے۔
اسی طرح بعض لوگ روزے کو اہمیت نہیں دیتےاگر کسی سفر کی وجہ سے ان کا روزہ قضا ہو جائے تواس قضا کو ادا نہیں کرتےیہ لوگ بھی اپنے آپ کو ایک کامل مسلمان سمجھتے ہیںوہ اوّل الذکر گروہ بھی خود کو کامل مسلمان سمجھتا ہے، جبکہ نہ یہ کامل مسلمان ہیں نہ وہ۔
دین اسلام نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ(۴) سے اتفاق نہیں کرتایہ نہیں ہوسکتا کہ انسان اسلامی عبادات کو تو اپنائے لیکن اسکے معاشرتی اور اخلاقی قوانین کو نہ لے، اسکے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اختیار نہ کرےاور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لے لے، اور اسلامی عبادات کوچھوڑ دے۔
قرآنِ مجید جہاں کہیں بھی اقیمو الصلاۃ کہتا ہے، اسکے فورا بعد آتوالزکاۃ کہتا ہےاگر اقام الصلاۃ کہتا ہے تواسکے بعد آتی الزکاۃ کہتا ہےجب یقیمون الصلاۃ کہتا ہے تو اسکے بعد یوتون الزکاۃ کہتا ہےیقیمون الصلاۃ کا تعلق بندے اور خدا کے درمیان رشتے سے اور یوتون الزکاۃ کا ربط بندگانِ خدا کے آپس کے تعلقات سے ہے۔
جس طرح ایک مردِ مسلمان کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان ایک مستقل اور مسلسل رابطے کی ضرورت ہے اسی طرح اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے اور اپنے معاشرے کے درمیان بھی ایک مستقل اور مسلسل رابطہ قائم رکھے۔
بغیر عبادت کے، بغیر ذکرِ الٰہی کے، بغیر یادِ خدا کے، بغیر مناجات کے، بغیر حضورِ قلب کے، بغیر نماز کے، بغیر روزے کے ایک اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا، حتیٰ خود انسان بھی سالم نہیں رہ سکتا۔
اسی طرح بغیر ایک سالم معاشرے کے، بغیر ایک سالم ماحول کے، بغیر امر بالمعروف کے، بغیر نہی عن المنکرکے، بغیر مسلمانوں سے پیار و محبت کے اوربغیر دوسروں کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کے انسان ایک اچھاعبادت گزار بندہ نہیں بن سکتا۔
۱بے شک اﷲ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے(سورۂ نحل ۱۶آیت ۹۰)
۲بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں(سورۂ حدید ۵۷آیت ۲۵)
۳تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہےتم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اوربرائیوں سے روکتے ہو(سورۂ آل عمران ۳آیت ۱۱۰)
۴ہم بعض چیزوں پر ایمان لائیں گے اور بعض چیزوں کا انکار کریں گے(سورۂ نسا ۴آیت ۱۵۰)