عبادت و نماز

اِنَّ تَقْوَی اﷲِ حَمَتْ اَولیاءَ اﷲِ مَحارِمَہُ وَاَلْزَمَتْ قُلوبَھُمْ مَخا فَتَہُ۔ (۱)

۔ تقویٰ ہی نے اللہ کے دوستوں کو حرام کئے گئے کاموں سے بچایا ہے، اور اُن کے دلوں میں خوف پیدا کیا ہے(نہج البلاغہخطبہ ۱۱۲)

تقویٰ سے کیا مراد ہے؟
یعنی اپنے آپ کوبچانا، محفوظ رکھنا۔
اپنے آپ کو بچانے سے کیا مراد ہے؟
مراد ہے اپنے نفس پر تسلط۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، تقوائے الٰہی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو محرماتِ الٰہی سے محفوظ رکھتا ہےاسکی دوسری خاصیت یہ ہے کہ یہ انسان کے دل میں خدا کا خوف بٹھاتا ہے۔

قرآنِ مجید روزے کے بارے میں کہتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(۲)اے اہلِ ایمان ! تمہارے لئے روزہ فرض کیا گیا ہے، اُسی طرح جیسے تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھاکیوں؟ قرآن روزے کا مقصد بھی بیان کرتا ہے: ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن“ اس لئے کہ تمہارے اندر تقویٰ کی روح اور تقویٰ کا ملکہ پیدا ہو جائے۔

تقویٰ کے ملکہ سے کیا مراد ہے؟

مراد ہے نفس پر تسلطنفس پر تسلط وہی چیز ہے جس کے بارے میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایاہے : اَلْعُبودِیَّۃُ جَوْ ھَرَۃٌکُنْہُھَاالرُّبوبِیَّۃُ۔

پس اگر ہم نے ماہِ رمضان گزار لئے ہیں، احیا کی راتوں}شبہائے قدر{ کو گزار لیا ہے، مسلسل روزوں کو گزار لیا ہے، اور ماہِ رمضان کے بعدا اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں کہ ہم اب اپنی شہوات پر اس سے زیادہ مسلط ہیں جیسے ہم ماہِ رمضان سے پہلے ان پرمسلط تھے، اپنے غصّے پر پہلے سے زیادہ مسلط ہیں، اپنی آنکھوں پر ہمیں زیادہ قابوہوگیا ہے، اپنی زبان پر پہلے سے زیادہ کنٹرول ہے، اپنے اعضا و جوارح پر زیادہ مسلط ہیں، مختصر یہ کہ اپنے نفس پر زیادہ مسلط ہیں اور ہم نفس امارہ کا راستہ روک سکتے ہیں، تو یہ ہمارے روزے کی قبولیت کی علامت ہے۔

لیکن اگر ماہِ رمضان گزر گیا، ختم ہوگیا، اور ماہِ رمضان سے ہمارا حاصل (جیسا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ روزے سے بعض لوگوں کو صرف بھوک اور پیاس حاصل ہوتی ہے) صرف یہ ہو کہ ہم نے ایک مہینے بھوک اور پیاس برداشت کی ہے (اکثر کیونکہ ہم لوگ سحر و افطار کرتے ہیں، اس لئے بھوک اور پیاس بھی نہیں لگتیالبتہ ہم کم از کم بے حال توہوہی جاتے ہیں) ایک مہینے تک بے حالی کا شکار رہے، اور اِس بے حالی کے نتیجے میں کام کے لئے ہماری توانائی کم ہو گئی، اور کیونکہ کام کاج کے لئے ہماری قوت و توانائی کم ہو گئی، تو آ کے روزے پر الزام لگاتے ہیں کہ اِس روزے کی وجہ سے ہماری کارکردگی کم ہوئی(جوطالبِ علم ہے وہ کہتا ہے کہ پورے ماہِ رمضان میں میری پڑھنے کی قوت کم ہو گئی، جوکوئی اور کام کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ میری فلاں کام کی طاقت کم ہو گئیپس روزہ ایک بُری چیز ہے) یہ ہمارے روزے کے قبول نہ ہونے کی علامت ہےجبکہ اگر انسان ماہِ رمضان میں واقعی معنی میں روزہ رکھنے والا ہو، اگر واقعاً اپنے آپ کو بھوکا رکھے، اگر جیسا کہ کہا گیا ہے تین وقت کے کھانے کو دو وقت کا کر لےیعنی پہلے وہ ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا کھاتا تھا، اب دوپہر کا کھانا نہیں کھائے، اسکی افطار ایک ناشتے کی مانند مختصر ہو، اسکے بعد سحر کے وقت معدے پر بہت زیادہ بوجھ نہ ڈالے، بلکہ ایک معمول کی غذا کھائے، تو اسے احساس ہو گا کہ کاموں کے سلسلے میں اسکی جسمانی قوت میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور کارِ خیر کے لئے اسکی روحانی قوت بھی بڑھی ہےیہ کم از کم عبادت ہے۔

ہم نے گفتگو کی ابتدا میں ایک آیت پڑھی تھیآپ کی خدمت میں اس آیت کا ترجمہ پیش کرتے ہیں، جس کا مفہوم یہی ہےقرآنِ مجید، نہج البلاغہ، امام جعفر صادق علیہ السلام، امام زین العابدین علیہ السلام جو بھی باتیں مختلف الفاظ اور مختلف زبانوں میں کہیں، جب آپ ان پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ یہ سب ایک ہی حقیقت تک پہنچے ہوئے ہیں، اور ایک ہی حقیقت کا ذکر کرتے ہیںہم آیاتِ قرآنی میں سے دو آیات میں اس طرح پڑھتے ہیںیعنی دو مقامات پر یہ آیت آئی ہے : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَعِیْْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ(۱)اے اہلِ ایمان! نماز اور صبر (جس کی تفسیر روزہ کی گئی ہے) سے مدد لویہ انتہائی عجیب تعبیر ہے !ہم سے کہتے ہیں کہ نماز سے مدد مانگو، روزے سے مدد مانگویعنی تم نہیں جانتے کہ یہ نماز قوت کا کیسا سرچشمہ ہے !یہ روزہ طاقت کا کیسا منبع ہے! اگر تمہیں نماز پڑھنے کے لئے کہا گیا ہے، تو قوت و طاقت کے ایک سرچشمے کی جانب تمہاری رہنمائی کی گئی ہے، اور اگر روزہ رکھنے کوکہا گیا ہے، تو طاقت کے ایک سرچشمے کی طرف تمہاری رہنمائی کی گئی ہےتم اپنے نفس اور روح پر مسلط ہونے کے لئے نماز پڑھو، روزہ رکھو۔  اَلْعُبودِیَّۃُ جَوْھَرَۃٌ کُنْہُھَاالرُّبوبِیَّۃُ۔

اب کیا اِس ربوبیت اور تسلط کا خاتمہ یہیں پر ہو جا تا ہے؟ نہیںاسکے درجات اور مراتب ہیں آپ عبادت کے راستے پر جس درجے بھی آگے بڑھیں گے، ربوبیت حاصل کریں گے اور اصطلاحاً ولایت حاصل کریں گےیعنی تسلط حاصل کریں گےاِس درجے سے جس کے بارے میں ہم نے عرض کیا ایک درجے بالاتر}جا پہنچیں گے{، وہاں پہنچ جائیں گے کہ آپ اپنے نفس کے خیالات کے مالک بن جائیں گے۔

۱۔ صاحبانِ ایمان تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۂ بقرہ ۲آیت۱۸۳)

۲۔ سورۂ بقرہ ۲آیت ۱۵۳