عبادت و نماز

جو چیز اخلاق اور عدالت کی پشت پناہ اور ضمانت ہے، اور جو اگر انسان میں پیدا ہو جائے تو انسان باآسانی اخلاق اور عدالت کے راستے پر قدم بڑھاسکتا ہے اور اپنے نفع اور مفاد سے دستبردار ہوسکتا ہے، وہ صرف ”ایمان“ ہے۔

البتہ کونسا ایمان؟ جی ہاں، خود عدالت پر ایمان، خود اخلاق پر ایمان۔
انسان میں عدالت پر ایک مقدس امر کے طور پر، اخلاق پر ایک مقدس امر کے طور پر ایمان کب پیدا ہوتا ہے؟

(یہ ایمان)اس وقت (پیدا ہوتا ہے)جب وہ تقدس کی اصل و اساس یعنی ”خدا“ پر ایمان رکھتا ہولہٰذا انسان عملاً اتنا ہی عدالت کا پابند ہوتا ہے جتنا خدا کا معتقد ہوتا ہے، عملاً اتنا ہی اخلاق کا پابند ہوتا ہے جتنا خدا پر ایمان رکھتا ہے۔

ہمارے دور کی مشکل یہی ہے کہ (لوگ) سمجھتے ہیں کہ ”علم“ کافی ہےیعنی بااخلاق اور عادل ہونے کیلئے ہماراعدالت اور اخلاق سے واقف ہونا اور ان کا علم رکھنا ہی کافی ہےلیکن تجربے نے بتایا ہے کہ اگر علم سے ایمان کا رشتہ ٹوٹا ہوا ہو، تویہ عدالت اور اخلاق کے لئے نہ صرف مفید نہیں، بلکہ مضر بھی ہےاور ”سنائی“ کے ا س قول کے مصداق ہو جاتا ہے کہ: چودزد باچراغ آید گزیدہ تربرد کالا (جب چور چراغ کے ہمراہ آتا ہے تو اچھی طرح چن چن کے مال لے جاتا ہے)

لیکن اگر ایمان پیدا ہو جائے، تو اخلاق اور عدالت میں استحکام آجاتا ہےمذہبی ایمان کے بغیر اخلاق اور عدالت ایسے ہی ہے جیسے بغیر ضمانت کے کرنسی نوٹوں کا جاری کر دیناجب مذہبی ایمان آ جاتا ہے تو اخلاق اور عدالت بھی آ جاتے ہیں۔

یہیں پہنچ کر ہمیں نظر آتا ہے کہ اسلام نے خدا کی پرستش اور عبادت کو اخلاق اور عدالت سے جدا ایک علیحدہ مسئلہ قرار نہیں دیا ہےیعنی جس عبادت کا اسلام حکم دیتا ہے اسکی چاشنی اخلاق اور عدالت کو قرار دیتا ہےیا یہ کہیں کہ جس عدالت اور اخلاق کو تجویز کرتا ہے، اسکی چاشنی عبادت کو قرار دیتا ہے کیونکہ اسکے بغیر یہ ممکن نہیں۔

ایک مثال عرض کرتا ہوں : آپ کوکہاں، اور دنیا میں پائے جانے والے مکاتیب و ادیان میں سے کس مکتب اور دین میں یہ بات نظر آتی ہے کہ ایک مجرم خود اپنے قدموں سے چل کر آئے اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کرے؟ مجرم تو ہمیشہ سزا سے بچنے کی کوشش کرتا ہےوہ واحد قدرت جو مجرم کو خود اپنے قدموں پر چلاکے اور اپنے ارادے اور اختیار سے سزا کی طرف لاتی ہے وہ ”ایمان“ کی طاقت ہے، اسکے سوا کوئی اور چیز ایسانہیں کر سکتی۔

جب ہم اسلام کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسی بکثرت مثالیں نظر آتی ہیں البتہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں، تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس ابتدائی دور کے سوا کسی اور دور میں ایسی مثالیں نہیں ملتیںنہیں، صدرِ اسلام کے علاوہ دوسرے ادوار میں بھی، لوگوں میں پائے جانے والے ایمان کے تناسب سے ایسی مثالیں موجود ہیں۔

اسلام نے مجرم کے لئے سزاؤں کا تعین کیا ہےمثلاً شراب نوشی کے مرتکب فرد، زناکار اور چورکے لئے سزائیں معین کی ہیںدوسری طرف اسلام میں ایک اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ اَلْحُدُوُد تَدْرَ أُبِالشَّبْھَاتِ یعنی حدود معمولی شبہے پر دفع ہو جاتے ہیں اسلام قاضی اور حاکم کو اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ وہ مجرم کوتلاش کرنے کے لئے جاسوسی کریں، تجسس کریںبلکہ مجرم کے دل میں ایک طاقت ڈالتا ہے جس کے اثر سے وہ خود اپنے آپ کوسزا کے لئے پیش کرتا ہےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے دور میں کثرت کے ساتھ ایسا ہوا کرتا تھا کہ لوگ خود پیغمبر یا امام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے کہ یا رسول اﷲ (یا امیر المومنین) ہم فلاں جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، ہمیں سزا دیجئےہم آلودہ ہیں، ہمیں پاک کر دیجئے۔

ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور کہا: اے اﷲ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے سزا دیجئے(کیونکہ اس قسم کے مسائل میں ایسے شخص کے لئے چار مرتبہ اقرار کرنا ضروری ہے، ایک مرتبہ کا اقرار کافی نہیں، لہٰذا) پیغمبر نے فرمایا: لَعَلَّکَ قَبَّلْتُ شاید تم نے اس عورت کا بوسہ لیا ہو گا اور کہہ رہے ہو کہ میں نے زنا کیا ہے (یعنی آنحضرت اسکے منہ میں الفاظ رکھ رہے ہیں)اگر وہ کہے کہ ہاں میں نے بوسہ لیا ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ بوس و کنار بھی زنا کی مانند ہے اور معاملہ صرف یہیں پر ختم ہو گیا ہو گااس نے کہا : نہیں، اے اﷲ کے رسول! میں نے زنا کیا ہےفرمایا: لَعَلَّکَ غَمَّزْتَ، شاید تو نے برائی کا صرف ارادہ کیا ہو گا، یا اسکے جسم کوگدگدایا ہوگا(شاید وہ کہے کہ ہاں، ایسا ہی تھا، اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں کیا تھا)اس نے کہا: نہیں، اے اﷲ کے رسول! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں آپ نے فرمایا: شاید تو زنا کے قریب قریب پہنچ گیا ہو اور در حقیقت زنا واقع نہ ہوا ہو؟ اس نے کہا: نہیں، اے اﷲ کے رسول! میں آلودہ ہوا ہوں، میں ناپاک ہو گیا ہوںمیں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھ پر حد جاری فرمائیں اور اسی دنیا میں مجھے سزا دیں، میں نہیں چاہتا کہ میرا یہ جرم دوسری دنیا میں میرے ساتھ جائے۔

یہ حدیث جسے ہم اب پیش کر رہے ہیں ”کافی“ میں ہے (فروع کافیج ۷ص ۱۶۵)

ایک عورت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: اے امیر المومنین! میں نے زنائے محصنہ کا ارتکاب کیا ہے، میں شادی شدہ ہوں، شوہر کی غیر موجودگی میں زنا کی مرتکب ہوئی ہوں اور اسکے نتیجے میں حاملہ ہو گئی ہوں ”طَہَّرْنی“ مجھے پاک کر دیجئے، میں آلودہ ہوںامام نے فرمایا : ایک مرتبہ کا اقرار کافی نہیں، چار مرتبہ اقرار کرنا ضروری ہے(۱) پھر یہ کہ اگر ایک شادی شدہ عورت زنا کی مرتکب ہو تو اسے ”رجم“ یعنی سنگسار کیا جائے گامیں اگر تمہیں سنگسار کرنے کا حکم دوں گا تو اس بچے کا کیا بنے گا جو تمہارے شکم میں ہے؟ بچے کو تو ہم سنگسار نہیں کر سکتےتم جاؤ، بچے کی پیدائش کے بعد آنا، ہم اس بچے کی وجہ سے تمہیں سنگسار نہیں کر سکتےیہ سن کر وہ عورت چلی گئی۔

چند ماہ بعد دیکھتے ہیں کہ وہی عورت چلی آ رہی ہے، ایک بچہ بھی اس کی گود میں ہےکہتی ہے: یا امیر المومنین طہرنی اے امیر المومنین !مجھے پاک کر دیجئے۔ بولی، میرا عذر یہ بچہ تھا، اب یہ دنیا میں آچکا ہے (یہ دوسرا اقرار تھا)امیر المومنین نے فرمایا: اب اس موقع پر اگر ہم تجھے سنگسار کردیں تو اس بچے کا کیا قصور ہے؟ ابھی اسے ماں کی ضرورت ہے، اسے ماں کا دودھ چاہئے، یہ ماں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طالب ہےفی الحال جاؤ، ابھی اس بچے کو تمہاری ضرورت ہےوہ عورت دل شکستہ اور رنجیدہ حالت لئے لوٹ گئی۔

ایک دو سال بعد وہ عورت دوبارہ آئی، بچہ بھی اسکے ساتھ تھا اور آ کے کہنے لگی: ”یا امیر المومنین! طہرنی“ اب میرا بچہ دودھ نہیں پیتا، اسے دودھ پلانے والی کی ضرورت نہیں رہی، بڑاہو گیا ہےاب مجھے پاک کر دیجئےفرمایا: نہیں، ابھی اس بچے کو ماں کی ضرورت ہےابھی جاؤیہ سن کر اس عورت نے بچے کا ہاتھ پکڑا، اب وہ روتی جاتی تھی اور یہ کہتی جاتی تھی کہ: خدایا! یہ تیسری مرتبہ ہے کہ میں گناہ کی اس آلودگی سے پاک ہونے کی غرض سے تیرے (مقرر کردہ) امام کی خدمت میں آئی ہوں، خلیفۂ مسلمین کے پاس آئی ہوں اور وہ ہیں کہ ہر مرتبہ ایک بہانہ کر کے مجھے واپس لوٹا دیتے ہیںبارالٰہا ! میں اس گندگی سے چھٹکارا چاہتی ہوں، میں آئی ہوں کہ وہ مجھے سنگسار کریں اور میں پاک ہو جاؤںوہ یہ کہتی ہوئی جا رہی تھی کہ اتفاقاً اس پر عمرو بن حریث کی نگاہ پڑگئی، یہ ایک منافق انسان تھااس نے عورت سے پوچھا: کیا ہوا؟ کیا معاملہ ہے؟ عورت نے پورا قصہ کہہ سنایاعمرو بن حریث نے کہا : آؤ میرے ساتھ، میں تمہاا مسئلہ حل کرتا ہوں۔ تم ایسا کرو کہ بچہ میرے حوالے کردو، میں اس کی کفالت قبول کرتاہوںاسے یہ معلوم نہ تھا کہ علی اس عورت سے چوتھی مرتبہ اقرار لینا نہیں چاہتے۔

امام دیکھتے ہیں کہ وہ عورت اپنے بچے اور عمرو بن حریث کے ساتھ واپس چلی آ رہی ہے۔ آپ کے نزدیک آتی ہے اور کہتی ہے: یا امیر المومنین! طہرنی (اے امیر المومنین! مجھے پاک کر دیجئے)، میں نے زنا کیا ہے، بچے کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے، اس شخص نے اسے پالنے پوسنے کی ذمے داری لے لی ہے، اب آپ مجھے پاک کر دیجئے۔۔۔

کہتے ہیں کہ امیر المومنین کو معاملے کا یہاں تک پہنچنا بہت ناگوار گزرا۔

یہ ایمان اور مذہب کی طاقت ہے جو انسان کے ضمیر کی گہرائیوں میں اثر انداز ہو کر اسے عدالت اور اخلاق کے سامنے جھکا دیتی ہےعبادت اس لئے ہے تاکہ انسان کی ایمانی حیات کی تجدید ہو، اسکا ایمان تازہ ہو، اس میں طراوت اور نشاط پیدا ہو، وہ قوت اور طاقت حاصل کرے۔

جتنا انسان کا ایمان زیادہ ہو گا، اتنا ہی وہ خداکو زیادہ یاد رکھے گا، اور جتنا انسان کو خدا یا د رہے گا اتنا ہی وہ گناہ کا کم مرتکب ہوگاگناہ اور نافرمانی کرنے یا نہ کرنے کا دارو مدار علم پر نہیں ہے، اسکا دارو مدار غفلت اور یاد پر ہےجتنا انسان غافل ہو گا، یعنی اس نے جتنا خدا کو فراموش کر دیا ہو گا، اتنا ہی زیادہ وہ گناہ کا ارتکاب کرے گا اور جتنا زیادہ وہ خدا کو یاد رکھے گا، اتنی ہی اسکی نافرمانیاں کم ہوں گی۔

۱اسلام میں کسی صورت حتیٰ قاضی تک کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ تجسس کرے یابہانے سے اقرار لے بلکہ جب کوئی انسان اقرار کرتا ہے تو قاضی ایک بہانے کے ذریعے اسکے اقرار کو مسترد کرتا ہے۔