علی، بسترِ شہادت پر
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
آیئے پروردگار کے اس صالح بندے کی عیادت کو چلتے ہیں آج کی رات علی کے بچوں کے لئے، علی کے شیعوں اور دوستوں کے لئے انتہائی پر اضطراب رات ہے۔
کم و بیش بہت سے لوگ سمجھ چکے تھے کہ علی ؑ اس مسموم ضربت سے نہیں بچ سکیں گےجیسا کہ آپ نے سنا ہے، علی ؑ نے جنگِ خندق میں عمرو بن عبدود سے ایک سخت ضرب کھائی تھی، یہ ضرب علی ؑ کے فرقِ نازنین پر پڑی تھی اور سپر کو توڑتی ہوئی امام کے سر میں ایک شگاف کا باعث بنی تھیالبتہ ایسی نہ تھی کہ خطرناک ہوتی اور بعد کے مرحلے میں امام نے عمرو کو زمین پر پٹخ دیا تھایہ زخم صحیح ہو گیا تھاکہتے ہیں کہ اس ازل و ابد کے لعین (ابن ملجم) کی ضربت اسی جگہ پر پڑی تھی، جہاں اس سے پہلے عمرو بن عبدود کی ضربت لگی تھیحضرت علی ؑ کے سرِ اقدس میں ایک بڑا شگاف پڑ گیا تھابہت سے لوگوں کو اب بھی اس بات کی امید تھی کہ علی ؑ صحت یاب ہو جائیں گےحضرت علی ؑ کے بچوں میں سے ایک، ظاہر اً ان کی محترم صاحبزادی امِ کلثوم کی گزرتے ہوئے عبدالرحمن ابن ملجم پر نظر پڑی، انہوں نے کہا: اے ازل و ابد کے لعین! مجھے امید ہے تیری تمنا پوری نہ ہوگی، خدا میرے والد کو شفا عنایت کرے گا(ابن ملجم) مسکرایا اور کہا کہ میں نے اس تلوار کو ہزار درہم میں خریدا ہے، یہ بہت کارآمد تلوار ہے، اور میں نے اسے زہر میں بجھانے کے ہزار درہم ادا کئے ہیں، میں جانتا ہوں کہ یہ ضربت جو میں نے تمہارے باپ کے سر پر لگائی ہے، اگر اسے تمام انسانوں پر تقسیم کیا جائے، تو سب لوگ مر جائیں گےآپ خاطر جمع رکھئےاس بات نے علی ؑ کے بچوں کی امید کو بڑی حد تک توڑ دیاکہا کہ طبیب کو بلاؤایک شخص ہے جس کا نام ”ہانی بن عمرو سلولی“ ہے، ظاہراً یہ شخص (جیسا کہ ایک مرتبہ میں نے تاریخ میں پڑھا) ایک ایسا طبیب تھا جس نے ”جندی شا پور“ کی یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی، یہ یونیورسٹی ایران میں تھی اور ایران کے عیسائی اسے چلاتے تھےیہ شخص کوفہ میں مقیم تھالوگ گئے اور اسے لے کر آئے، تاکہ معائنہ کرے، بلکہ ہوسکے تو علاج کرےلکھا ہے کہ اس نے ایک گوسفند یا ایک بکرے کو ذبح کرنے کو کہااسکے پھیپھڑے سے اس نے ایک رگ باہر نکالی، اس رگ کو گرم گرم اس زخم کی جگہ میں داخل کیا، وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس زہر کے آثار کس قدر ہیں، یا جاننا چاہتا تھا کہ یہ کس قدر نفوذ کر گیا ہے، ان باتوں کو اس سے زیادہ میں نہیں جانتالیکن صرف اس قدر جانتا ہوں کہ تاریخ میں یہ لکھا ہے۔ یہ شخص اپنی طبی آزمائش سے فارغ ہوا، توخاموش بیٹھ گیا، کوئی لفظ منہ سے نہ نکالا، صرف اتنا کیا کہ امیر المومنین کی طرف رخ کرکے عرض کیا کہ: اے امیر المومنین ؑ ! اگر آپ کی کوئی وصیت ہے تو کر دیجئےیہ وہ مقام ہے جہاں حضرت علی ؑ کے گھرانے، علی ؑ کے اعزہ اور علی ؑ کے شیعوں کی امید ختم ہو گئی۔
علی ؑ مہر و محبت اور بغض و عداوت ہردوچیزوں کا مرکز ہیں آپ کے ایسے ایسے محب ہیں جو آپ سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور آپ کے دشمن بھی انتہائی شدید ہیں، جیسے عبدالرحمن ابن ملجماسی طرح آپ کے دوست بھی عجیب و غریب تھےان دو راتوں اور دنوں میں، حضرت علی ؑ کے دوستوں میں ایک ولولہ پایا جاتا تھا، وہ علی کے گھر کے گرد جمع تھے اوروہ سب علی ؑ کی عیادت کی اجازت طلب کر رہے تھےسب کہہ رہے تھے کہ ایک بار ہمیں اپنے مولا کے جمال کے دیدار کی اجازت دے دیجئےکیا ممکن ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر علی ؑ کی آواز سن سکیں، علی ؑ کا رخِ انور دیکھ سکیں؟ ان میں سے ایک ”اصبغ بن نباتہ“ ہیںوہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ لوگ علی ؑ کے گھر کے گرد جمع ہیں، مضطرب ہیں اور گریہ و بکا کر رہے ہیں، سب داخلے کی اجازت ملنے کے منتظر ہیںیکلخت میں نے دیکھا کہ امام حسن ؑ باہر تشریف لائے اور اپنے والدِ بزرگوار کی طرف سے لوگوں سے ان کی محبت کا شکریہ ادا کیااسکے بعد فرمایا: اے لوگو! میرے والد کی حالت ایسی نہیں ہے کہ آپ ان سے ملاقات کر سکیںوالد صاحب نے آپ سے معذرت چاہی ہے اور فرمایا ہے کہ آپ سب اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں، چلے جایئے، یہاں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہےمیرے لئے آپ سے ملاقات ممکن نہیںلوگ چلے گئےمیں نے بھی بہت چاہا کہ میں بھی چلا جاؤں لیکن نہ جا سکا میرے قدموں میں جانے کی طاقت ہی نہیں رہی تھیمیں کھڑا رہاامام حسن ؑ ایک مرتبہ پھر تشریف لائےمجھے دیکھا اور کہا: اصبغ کیا تم نے نہیں سنا میں نے کیا کہا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں آقا سنا ہےفرمایا:پھر کیوں نہیں گئے؟ میں نے عرض کیا: میرا دل جانے کو تیار نہیں ہوتا، میرا دل چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک مرتبہ پھر اپنے آقا کی زیارت کر لوںامام تشریف لے گئے اور میرے لئے اجازت حاصل کر لائےمیں امیر المومنین کے سرہانے پہنچ گیامیں نے دیکھا کہ امیر المومنین کے سر پر ایک زرد رومال باندھا گیا ہےمیں تعین نہیں کر پا رہا تھا کہ علی کا چہر ۂ اقدس زیادہ زرد ہے یا وہ رومال۔
بعض نے کہا ہے کہ تلوار کی ضربت اور اس مسمومیت کے مقابل حضرت علی علیہ السلام کے بدن کی قوتِ مدافعت ایک غیر معمولی بات ہےقاعدتاًعلی کو ضربت لگتے ہی دنیا سے رخصت ہو جانا چاہئے تھاان آخری لمحات میں علی کبھی بے ہوش ہو جاتے کبھی ہوش میں آ جاتےجب آپ ہوش میں آتے تو آپ کی زبانِ مقدس پر ذکرِ خدا اور وعظ و نصیحت جاری ہو جاتےکیسے کیسے نصائح، کیسے کیسے مواعظ، کیسی کیسی باتیں۔
اب اس موقع پر علی ؑ کی اولاد کے سوا کوئی علی ؑ کے بستر کے نزدیک نہ تھاذکرِ مصیبت ہمارا یہی ایک جملہ ہےعلی کے بچے علی کے بستر کو گھیرے میں لئے ہوئے تھےوہ دیکھتے تھے کہ آقا کبھی باتیں کرنے لگتے ہیں اور کبھی بے حال ہو جاتے ہیںہم نے ایک مرتبہ علی ؑ کی آواز سنی، جیسے آپ کسی سے باتیں کر رہے ہیںفرشتوں کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں:اِرْفَقوا مَلا ءِکَۃَ رَبّی بیمیرے خدا کے فرشتو، جومیری روح قبض کرنے کے لئے آئے ہو، میرے ساتھ نرمی کا سلوک کرناایک مرتبہ دیکھتے ہیں کہ علی ؑ کی صدا بلند ہوئی: اشْھَدُ اَنْ لا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہُ لاشَریکَ لَہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسولُہُ اَلرَّفیقُ الْاَعْلیٰ اَلرَّفیقُ الْاَعْلیٰیہ علی کے کلمات تھےمیں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہوں، میں پیغمبر کی رسالت کی شہادت دیتا ہوں}اسکے بعد{جان، جان آفرین کے سپرد کی اور علی ؑ کے گھر سے نالا و شیون کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ (۱)
۱تقریر کے آخری چندسیکنڈ کیسٹ پر ریکارڈ نہیں ہوئے ہیں۔