روح کا بدن سے بے نیاز ہوجانا
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
کیا دوسرے مراحل بھی ہیں؟ اگرچہ یہ مراحل ہماری سطحِ فکر اور تصورات سے بعید ہیں لیکن صرف اس بنا پر کہ دوراور بعید ہیں ہمارے لئے یہ عذر نہیں ہوتا کہ ہم انہیں نہ پہچانیں اور ان سے بے خبر رہیںجی ہاں، ایک بالاتر مرحلہ بھی ہے (البتہ یہ خیال نہ کیجئے گا کہ جن مراحل کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں، وہ امام یا پیغمبر کے مراحل ہیں، امام اور پیغمبر کے مرحلے تک پہنچنے سے پہلے بہت سے مراحل ہیں) انسان خداوندِ عالم سے تقرب کے نتیجے میں (اور خداوندِ عالم سے تقرب عبودیت، اخلاص، اپنے آپ کو بھول جانا، پروردگارِ عالم کے مقابل خضوع و تذلل اور اسکے مقابل اطاعتِ محض کا نتیجہ ہے) ایک ایسے مرحلے پر پہنچ جاتا ہے کہ باوجود یہ کہ اُس کا بدن روح کا محتاج ہوتا ہے، اسکی روح بدن سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔
ایسا کیسے ہوتا ہے؟
اس وقت ہماری روح ہمارے بدن کی محتاج ہے، اور ہمارا بدن بھی ہماری روح کا محتاج ہےاس وقت اگر وہ روح اوروہ قوۂ حیات نہ ہو، تو ہمارایہ بدن زندہ نہیں رہے گااگر ہمارایہ بدن بھی نہ ہو، تو ہماری روح بھی یہاں کسی کام کی نہ رہے گی، وہ کوئی کام نہیں کر سکے گی۔
لیکن کیا تمام انسان اسی طرح کے ہیں کہ ان کا بدن بھی روح کی ضرورت رکھتا ہے اور ان کی روح بھی بدن کی محتاج ہوتی ہے؟ یا یہ کہ بعض انسان خدا سے تقرب اور پروردگار کی عبودیت کے نتیجے میں اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ کم از کم ان کی روح ان کے بدن سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔
کیسے بے نیاز ہو جاتی ہے؟
یعنی وہ یہ قدرت حاصل کر لیتے ہیں کہ بقول روح کو اس بدن سے نکال لیتے ہیں (البتہ یہاں نکالنے کے معنی مرجانا نہیں ہیں) یعنی بدن کے مقابل روح کے استقلال کو محفوظ رکھتے ہیں۔
خود ہمارے زمانے میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو روح کو نکالنے کی قدرت رکھتے ہیںیعنی روح کو بدن سے جدا کرتے ہیں، اس طرح کہ اپنے آپ کو اس بدن پر مسلط دیکھتے ہیں اپنے بدن کو دیکھتے ہیں کہ مثلاً یہاں عبادت میں مشغول ہے اور وہ خود کسی دوسری جگہ کی سیر کر رہے ہوتے ہیں ایک وسیع ترین دریچہ اُن کے سامنے کھلا ہوتا ہےشیخ شہاب الدین سہروردی، جو ”شیخ اشراق“ کے نام سے معروف ہیں، اُن کی ایک عبارت ہےکہتے ہیں کہ ہم حکیم کواس وقت تک حکیم نہیں سمجھتے، جب تک اس میں اس بات کی قدرت نہ ہو کہ وہ اپنی روح کو اپنے بدن سے علیحدہ کر لےمیر داماد کہتے ہیں: ہم حکیم کو حکیم صرف اسی وقت سمجھتے ہیں جب بدن کو (روح سے) خالی کرنا اسکے لئے ملکہ بن چکا ہویعنی جب بھی وہ ارادہ کرے، اپنی روح کو بدن سے مستقل اور جدا کر سکے۔
ہمارے لئے یہ باتیں انتہائی سنگین اور زیادہ ہیںہم ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتےہمیں ان پر یقین نہ رکھنے کا حق بھی ہےکیونکہ ہم ان مراحل سے بہت دور ہیںلیکن اس بدگمانی اور بے یقینی سے ذرا اوپر اٹھئےہم تو نہیں گئے ہیں، ہم نے تو عبودیت کے راستے کے اس پہلے ہی مرحلے کو طے نہیں کیا ہے تاکہ دیکھ سکیں کہ کیا خدا کی عبادت کا اتنا اثر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ ہم نے ایک بھی ماہِ رمضان میں، ایک بھی صحیح روزہ نہیں رکھا ہےآپ اسی ماہِ رمضان میں حقیقتاً تجربہ کرکے دیکھئےآپ دنیا کے تمام کاموں میں تجربہ کرتے ہیں ایک ماہِ رمضان میں تجربہ کیجئے اور ایک واقعی روزہ، ایسا روزہ جیسا پیغمبر اکرم نے فرمایاہے اور ائمۂ اطہار نے حکم دیا ہے رکھئےیعنی پہلے تو روزے کے ظاہر پر، جو کھانے پینے کی اشیااور کچھ دوسری چیزوں کو ترک کرنا ہے، عمل کیجئےالبتہ یہ کام ہم سب کرتے ہیںلیکن وہ روزہ جسے حدیث میں روزہَ خاص کہا گیا ہے، اس روزے کو بھی رکھ کر دیکھیں۔ یعنی اس ایک ماہ میں، صرف ہمارا دَہان روزے سے نہ ہو، بلکہ ہماری زبان بھی روزہ رکھےماہِ رمضان میں کوشش کریں کہ ہماری زبان غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، خواہ یہ جھوٹ اسکے انتہائی فائدے میں ہوزبان روزہ نہ توڑے، جھوٹ نہ بولے، کیونکہ روزہ صرف کھانے سے پرہیزکا نام نہیں ہےپیغمبراکرم نے فرمایا ہے: رُبَّ صاءِمٍ لاحَظَّ لَہُ اِلَّا الْجوعُ وَالْعَطَشُبہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں، روزے سے جن کے حصے میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں آتاہماری زبان بیہودہ اور لغو باتیں نہ بولے، وہ الفاظ جو ہماری دنیوی زندگی یا ہماری آخرت کے لئے ضروری ہوں ان کے سوا کوئی لفظ نہ بولےہمارے کان غیبت نہ سنیں، لہو ولعب نہ سنیں، فحش کلامی نہ سنیںہماری آنکھیں دوسروں کی عزت و آبرو پر نہ اٹھیںہمارے ہاتھ خیانت کے لئے دراز نہ ہوںہمارے قدم خیانت اور ظلم کی طرف نہ بڑھیںاسکے مقابل، اس ماہِ رمضان کو اطعام (دوسروں کو کھانا کھلانا) دلجوئی، محبت، احسان اور خدمت گزاری کا مہینہ قرار دیں۔
امتحان کریں، ایک ماہِ رمضان انسان بننے کی کوشش کریںاس وقت آپ دیکھیں گے کہ ایک ماہ بعد، عبادت اور عبودیت اپنا اثر بخشتی ہے یا نہیں، دیکھیں کہ ایک ماہ بعد یہی روزہ آپ کو بدلتا ہے یا نہیں، دیکھیں کہ ایک ماہ بعد یہی روزہ آپ کو ربوبیت یعنی خداوندگاری اور تسلط و قدرت دیتا ہے یا نہیںاگر آپ دیکھیں کہ نہیں دیا، تب آپ ان بعد کے مراحل کا انکار کیجئےلیکن اگرآپ دیکھیں کہ نہیں، اس ایک مہینے میں آپ نے اس قدر ربوبیت، خداوند گاری، تصاحب، یعنی اپنے نفس پر، اپنی جبلّتوں اور شہوات پر، اپنے اعضا و جوارح پرتسلط حاصل کر لیا ہے، تو پھر یقین کر لیجئے گاکہ وہ اگلے مراحل بھی عملی ہیں۔