دوسرا درجہ: نفس کے خیالات کا مالک ہونا
عبادت و نماز • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
یہاں تک ہم نے اس درجے کے بارے میں گفتگو کی، اب ہم اس سے بلندایک درجے پر چلتے ہیں۔ ہمیں اپنے نفس میں آنے والا خیالات کا، اپنے ضمیر کے خیالات کا مالک (ہونا چاہئے) اس مسئلے پر مکمل طور پر توجہ کی ضرورت ہے۔
ہم میں سے وہ لوگ جو اپنی آنکھ کے مالک ہیں، اپنی زبان کے مالک ہیں، مضبوط قوتِ ارادی کے مالک ہیں، اپنے ہاتھ کے مالک ہیں، اپنے پیر کے مالک ہیں، اپنی زبان کے مالک ہیں، اپنی شہوت کے مالک ہیں، اپنے غصّے کے مالک ہیں، وہ ایک چیزکے مالک نہیں ہیںہم لوگ جویہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ہم میں سے کوئی ایک بھی فرد (اگر یہاں اولیا اﷲ موجود ہوں، تو مجھے نہیں معلوم ) اپنے ذہنی اور نفسانی خیالات کا مالک نہیں ہےیعنی کیا؟ یعنی ہمارے ذہن میں آنے والے مفاہیم و معنی ہمارے اختیار کے بغیر اِس شاخ سے اُس شاخ پر اور اُس شاخ سے اِس شاخ پر اڑتے پھرتے ہیںہمارے خیال کی قوت ایک چڑیا کی مانند ہےآپ نے درختوں پر بیٹھی چڑیا کو دیکھا ہو گا، وہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکتی رہتی ہے، تیزی کے ساتھ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر اڑتی پھرتی ہے، ہمارے خیال کی قوت بھی مسلسل اِس شاخ سے اُس شاخ پر اڑتی ہےہم سے کہا جاتا ہے کہ برائے مہربانی اپنے ذہن کو دس منٹ کے لئے ایک نکتے پر مرکوز کر دیجئےصرف ایک موضوع کے بارے میں غور و فکر کیجئےکیا ہمارے لئے ممکن ہے؟ ؟
ہم اور آپ سے کہا جاتا ہے کہ جب آپ نماز پڑھیں، تو آپ کاذہن اسی جانب مرکوز رہے، اورآپ میں حضورِ قلب پایا جائے ”لا صَلوٰۃَ اِلّابِحُضُورِ الْقَلْب“ حضورِ قلب کے بغیر نماز قبول نہیں ہےصحیح ہے، یعنی آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ نے نماز کیوں نہیں پڑھی، لیکن ایسی نماز قبول نہیں ہےیعنی }ایسی نماز{آپ کو کسی مقام پر نہیں پہنچاتی، آپ کے لئے کسی خاصیت کی حامل نہیں ہوتیجوں ہی ہم اﷲ اکبر کہتے ہیں، اگر بالفرض ہم دکاندار ہیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے اپنی دکان کا تالا کھول لیا ہے، حمد اور سورہ پڑھتے ہیں، لیکن ہمارا دل دکان میں لگاہوتا ہے، ہمارا دھیان دفتر میں ہوتا ہے، ہمارا دل اپنی فلاں ملکیت میں اٹکا ہوتا ہے، فلاں شہوت کے پیچھے ہوتا ہے۔ ہم اچانک اُس وقت ہوش میں آتے ہیں، جب ”السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ“ کہہ رہے ہوتے ہیں۔
ہم نے }اس انداز سے{ اس قدر زیادہ نمازیں پڑھی ہیں کہ یہ ہماری عادت سی ہو چکی ہے۔ ہم اپنی اِس روش کو ترک نہیں کرپاتے۔ خودکار انداز میں ”اﷲ اکبر“ سے ”السلام علیکم“ تک پہنچ جاتے ہیں اور بغیر کچھ سمجھے بوجھے }نماز کو{ ختم کر لیتے ہیںحالانکہ نماز کے دوران حضورِ قلب اور ذہن کا مرکوزہونا ضروری ہے آپ یہ نہ کہئے گا کہ یہ ناممکن بات ہےنہیں، ممکن ہے، بہت زیادہ ممکن ہےاگر آپ عبودیت (اَلْعُبودِیَّۃُ جَوْ ھَرَۃٌکُنْہُھَاالرُّبوبِیَّۃُ) کے ساتھ کوشش کریں، عبودیت کی راہ میں قدم اٹھائیں، تو واقعاً آپ ایسی نماز پڑھ سکتے ہیں جو اگر پانچ منٹ کی ہو، تو ان پورے پانچ منٹ میں آپ صرف خدا کی طرف متوجہ ہوں، آپ دس منٹ نماز پڑھیں تو خدا کی طرف متوجہ ہوںاصلاً آپ کا ذہن خدا کے سوا کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہی نہ ہو، آدھے گھنٹے، ایک گھنٹے (اسی حال میں رہیں) اور پھر رفتہ رفتہ بعض اولیا اللہ کی مانند ہو جائیں اور ابتدائے شب سے صبح تک مسلسل عبادت کریں اور آپ کا ذہن خدا کے سوا کسی بھی چیز کی طرف متوجہ نہ ہواس قدر غرق ہوں کہ اگر کوئی آ کر عین آپ کے سر پر کھڑا ہوکے شور وغل بھی مچائے، تب بھی آپ نہ سنیں، نہ سمجھیں اور اسکی جانب متوجہ نہ ہوں، آپ کا ذہن اس قدر مرکوز ہو جائے۔